کراچی میں ایک شادی کی تقریب اُس وقت توجہ کا مرکز بن گئی جب وہاں پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی لیڈر شپ ایک دوسرے سے گلے ملنے لگی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان‘ پی ایس پی کے رہنما رضا ہارون سے بغلگیر ہوئے تو امین الحق نے ڈاکٹر صغیر کو گلے لگا لیا۔ خوشگوار مسکراہٹوں کے تبادلے نے کراچی کی سیاست میں نئی ''بریکنگ نیوز‘‘ کا ''سوئچ ‘‘ آن کردیا ہے۔ اس دن کا انتظار بے صبری سے کیا جا رہا تھا۔کئی پیش گوئیاں ہوچکی تھیں۔ بیشتر سینئر سیاستدان یہ خبریں پہلے ہی ''بریک‘‘کر چکے تھے کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان مستقبل میں ایک ہوجائیں گی لیکن یہ ''مستقبل قریب‘‘ کب ہوگا؟ یہ کسی نے نہیں بتایا تھا۔
دبئی میں ڈھائی گھنٹے کی ملاقات میں سابق گورنر عشرت العباد نے راقم سے شکوہ کیا کہ اگر مصطفیٰ کمال پریس کانفرنس میں الزامات کی بارش نہ کرتے تو کراچی کی سیاست ہی کچھ اور ہوتی۔ ڈاکٹر عشرت العباد ''برج پرسن‘‘ (پل کا کردار اداکرنے والے) کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کو نہ صر ف قریب لا چکے ہوتے بلکہ اس کے مثبت اثرات کراچی کی سیاست پر نظر آنا شروع ہوجاتے۔ عشرت العباد کراچی کی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہ بات مصطفیٰ کمال بھی بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاست میں کل کے حریف آج کے حلیف والا فارمولاہی چلتا ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کو بھی اپنے رویے میں لچک لانا ہوگی کیونکہ نرم مزاجی اور تحمل سے ہی مہاجر ووٹر کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔
کراچی کی سیاست میں کافی عرصے سے ''مائنس ون‘‘کی اصطلاح بہت مقبول ہے۔ چند سال قبل تک کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ کوئی کیسے مائنس ہوسکتا ہے ؟ کیوں ہوسکتا ہے؟ کون کرسکتاہے؟ لیکن اب پاک سر زمین پارٹی ہو یا ایم کیو ایم پاکستان سب کا منشور اور پالیسی ''مائنس ون‘‘ہی ہے۔ اب اسے کوئی قسمت کا کھیل کہے‘ مخالفین کی چال یا اپنی بے وقوفی ''مائنس ون‘‘ عملی طور پر ہو چکا ہے۔ لیکن یہ بھی زمینی حقائق ہیں کہ عام انتخابات سے قبل ایسا سوچنا بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کہ مہاجر ووٹر کا ذہن بھی بدل گیا ہے۔ جس تنظیم کو بننے میں 35 سال لگے ہوں اس کے ووٹر کو راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ووٹ بینک کا جھگڑا فوری حل ہونے و الا نہیں، اسے ابھی کافی وقت لگے گا، لیکن لندن والوں کے لئے ایک مسئلہ ایسا ہے جس سے وہ آسانی سے نہیں نکل سکتے۔ لندن والوں کے پاس کوئی رجسٹرڈ پارٹی اور مشترکہ نشان لینے کا کوئی چانس نظر نہیں آتا۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کراچی میں بے حد مقبول ہیں۔ ان کی لیڈر شپ کے سب قائل ہیں۔ وہ خود اردوبولنے والے ہیں اس لئے اردو ووٹ بینک بھی چاہتا ہے کہ پرویز مشرف ان کی رہنمائی کریں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال اپنی پارٹیاں چھوڑ کر اے پی ایم ایل میں شامل ہوجائیں یا پھر مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار ایم کیو ایم کے پہلے درجے کی لیڈر شپ پر پرویز مشرف کو لے آئیں تاکہ محرومیوں کے شکار مہاجروں کے دکھوں کا مداوا ملکی سطح پر ہو۔ پرویز مشرف کی شخصیت عالمی سطح کی ہے ، وہ لیڈر ہیں لیکن ان کے پاس پارٹی نہیں جبکہ فاروق ستار کے پاس پارٹی ہے لیکن مضبوط اور قد آورلیڈر شپ نہیں، اس لئے یہ ''ملاپ‘‘ ایسا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تیسری قوت کا خلا پر کرسکے جو حقیقی طور پر مڈل کلاس طبقے کی ترجمان ہو۔
جب فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی جماعتوں کے درمیان انضمام یا اتحاد کا ذکر چلتا ہے تو ہر جگہ ‘ہر محفل میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں متحد ہوجائیں تومرکزی لیڈر کون بنے گا؟ کون قربانی دے گا؟ اور کس کی قربانی قبول ہوگی؟ مسلم لیگ کے دھڑوں کے درمیان اتحاد اسی لئے نہیں ہو پاتا کہ کوئی بھی
مرکزی لیڈر شپ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ لیکن اتحاد کی باتیں سب کرتے ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ میرے علاوہ ہر کوئی دستبردار ہو جائے اور میری قیادت ہی کو تسلیم کیا جائے۔ یہی اکلوتی وجہ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کے ایک ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس صورت حال میں سیاسی نجومیوں کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف واحد شخصیت ہیں جو اگر میدان میں آجائیں تومہاجر دھڑے ایک ہوسکتے ہیں، پھر کسی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر شخص اگر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا رہا تو سیاسی قوت بکھرتی چلی جائے گی اور اردو بولنے والے ایک بار پھر ''عظیم المیہ‘‘ سے دوچار ہوں گے۔
اس وقت ملک بھرمیں مردم شماری شروع ہونے والی ہے۔کراچی کے لئے کہا جاتا ہے کہ سرکاری ریکارڈ پر اس کی آدھی آبادی مردم شماری کے خانے سے ہی نکال دی گئی ہے۔ ''پری پول رِگنگ‘‘کی طرح ''پری سینسز رِگنگ‘‘جاری ہے۔ 20 سال قبل محکمہ شماریات اور اقوام متحدہ کے ماہرین نے یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ کراچی میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے۔ ہر ماہ ساڑھے سولہ ہزار گاڑیاں سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ پختونوں کا کہنا ہے کہ پشاور سے زیادہ پٹھان کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ سرائیکی بولنے والوں اور ہزارے وال کی اتنی بڑی تعداد کراچی میں رہتی ہے کہ سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی تحریکیں ان کے اپنے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت سے کراچی میں چلتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دیہی علاقوں سے آبادی شہروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے لیکن مردم شماری کے نتائج الٹ ہی آتے ہیں۔کراچی میں دوکروڑ سے زیادہ شناختی کارڈ بن چکے ہیں۔کمسن بچوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو شامل کرلیں تو کراچی کی آبادی تین کروڑ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن سرکاری کاغذات پر کراچی کو قومی وسائل کی بوری سے 80 لاکھ نفوس کے لئے مٹھی بھر فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔کراچی پاکستان میں ایک ایسا نکتہ ِاتحاد ہے جس پر سب متفق ہیں کہ آبادی کم دکھائی جائے اسے کمزور بنایا جائے اور اس کی بے بسی کا تماشا دیکھ کر پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات کو بھی لاپروائی سے اڑادیا جائے۔ ایسی صورت حال میں اسی نکتہ ِاتحاد پر ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا متحد نہ ہونا اردو بولنے والوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ ابھی یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں مواقع پر زیادتی ہوئی لیکن اب موقع آیا ہے کہ سچی اور اچھی مردم شماری کی جائے۔ امانت میں خیانت نہ کی جائے، دیانتداری کے ساتھ فرائض انجام دیئے جائیں، پاک فوج کی نگرانی اور مضبوط میڈیا کی موجودگی میںکسی کے لئے بھی کسی کا حق مارنا آسان نہیں۔ یہی موقع ہے جب اردوبولنے والا طبقہ اپنی اصل قوت حاصل کرسکتا ہے، اسی لئے دانشورانِ کراچی کہتے ہیں کہ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اردو بولنے والوں کے دونوں سیاسی گروپ ایک طاقت بن جائیں اور عقابی آنکھوں کے ساتھ مردم شماری کے عمل کی نگرانی کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ موقع کا فائدہ کوئی اور اٹھالے۔