"ISC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کا’’بم‘‘!!

مارچ کا مہینہ بہت اہم ہوتا ہے۔عموماً اس مہینے میں ''مارچ ‘‘کی باتیںہوتی ہیں۔لیکن اس بار اس مہینے میں لوگوں کو گِنا جائے گا۔گنتی کے اِس عمل کو مردم شماری کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔پاکستان میں دیگر مسائل کی طرح مردم شماری نہ ہونا بھی ایک مسئلہ تھا ۔بلدیاتی انتخابات کی طرح مردم شماری کا خواب بھی عدالت کی مداخلت اور دلچسپی کی وجہ سے حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔پاکستان میں مردم شماری ہر 10 سال بعد ہوتی ہے۔ سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد1951ء میں ہوئی تھی‘پھر 1961‘ 1972‘1981 اور 1998 میں ہوئی‘1972 والی مردم شماری اصل میں 1971ء کو ہونے والی تھی مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر ہوئی اور پھر 1991 ء کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوئی‘پاکستان میں آخری بار مردم شماری 1998ء میں کرائی گئی۔
کراچی میں حقیقی مردم شماری ہوئی تو ہوش ربا نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔کراچی میں کام کرنے والوں کا تعلق ملک بھر سے ہے لیکن ظاہر ہے جب کسی سے مادری زبان یا آبائی علاقہ پوچھا جاتاہے تو وہ کیا جواب دے؟اس طرح کراچی کے ساتھ نادانستہ زیادتی ہوجاتی ہے۔جو شخص کھانا کراچی میں کھائے۔ گاڑی یہاں چلائے۔ رہائش پذیر یہاں ہو ۔ سیوریج سسٹم یہاں کا استعمال کرے ۔پیسہ یہاں سے کمائے لیکن مادری زبان کی بناء پر اس کی گنتی کراچی میں نہ کی جائے تو غریب پرور شہر پراِس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی؟۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں رہائش پذیرچالیس فیصد سے زیادہ لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جن میںپختون‘ پشتون‘پنجابی‘ سرائیکی‘ہزارے وال‘بلوچ ‘ میمن ‘اسماعیلی ‘بوہری‘ گلگتی‘ گجراتی اور دیگر قومیتیںشامل ہیںجبکہ اس شہر نے افغانیوں‘ برمیوں اوربنگالیوںسمیت دنیا کے کئی ممالک کے شہریوںکو بھی''پناہ‘‘ دے رکھی ہے۔لیکن جب فنڈز کی بات آتی ہے تو کراچی کو مونگ پھلی کا دانہ دے کر ٹرخادیا جاتاہے ۔کیا ملک بھر کے یہ تمام شہری اپنی تعداد کے حساب سے منصفانہ فنڈز کے حقدار نہیں ۔المیہ یہ ہے کہ اِن شہریوں کا فنڈ بھی اِن کے آبائی علاقوں کو دے دیا جاتا ہے ۔
کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد صرف 20ہے ۔ڈھائی کروڑ کی آبادی کو 20سے تقسیم کیا جائے توبارہ لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ایک حلقہ بنتا ہے ۔اتنی آبادی کے تو دنیا میں ملک موجود ہیں۔کراچی کی حلقہ بندیاں بھی ایک طویل عرصے تک مسئلہ رہی ہیں ۔دیہی ووٹ شہروں میں اور شہری ووٹ دیہات میں ڈالنے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ ''مردم شماری سے پہلے دھاندلی ہوچکی ہے‘ ہمارے خلاف پھر سازش کی جارہی ہے‘‘۔خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخمینہ 5 کروڑ 50لاکھ تھا جبکہ اس کے مطابق نقل مکانی جیسے معاملات کے تحت سالانہ اضافے کو مدنظر رکھ کر آبادی کا تخمینہ تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ لگایا گیا۔ اس تخمینے میں 1.3 کروڑ نفوس کے فرق نے ان اعدادوشمار کو ناقابل یقین بنا دیا۔ بلوچستان کے اعدادوشمار میں بھی اسی قسم کے تضادات کا انکشاف ہوا ہے۔جو کچھ ہورہا تھا وہ واضح تھا، جس میں کراچی و کوئٹہ کے مخالف نسلی گروہ وسائل کے زائد حصول کیلئے دست و گریباں تھے۔یہی مسائل کراچی میں بھی درپیش ہیں۔
پیپلزپارٹی کے ایک منجھے ہوئے رہنما مولابخش چانڈیو نے سندھ کے لوگوں اور خصوصاً کراچی والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مردم شماری میں زبان کے خانے میں خود کو سندھی لکھوائیں تاکہ سندھ میں یکجہتی کی فضا پیدا ہوسکے ۔یہ اچھی بات ہے لیکن اردوبولنے والے دانشور بھی ٹیڑھے سوال ہی کرتے ہیں کہ''جب نوکری کی بات آتی ہے تو زبان اور زمین دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے؟لیکن جب وفاق سے ''مال‘‘لینا ہو تومہاجروں کو فوراً بھائی بنا لیا جاتاہے‘ان سے کہا جاتا ہے کہ ''بھائیوسندھی بن جائو‘‘۔سندھ کااردوبولنے والا کسی صورت بھی سندھیوں سے نہ لڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی دوری کا خواہشمند ہے۔وہ تو کئی بار سندھی بننے کیلئے نکل بھی پڑاتھا۔ سندھی ٹوپی اور اجرک بھی پہنی۔ لیکن جیسے ہی وہ ڈومیسائل بنوانے پہنچا تو فارم میں موجود سوالات نے اُس کی خواہشات کو ارمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا۔ اُس سے پہلا سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے دادا کہاںپیدا ہوئے؟ آپ کی مادری زبان کیا ہے؟ آپ کہاں سے آئے ہو؟ ان تین سوالات کے بعد اس کی امیدوں کا تاج محل چکنا چور ہوجاتا ہے۔ سندھ میں انہی تین سوالوں کی بنیاد پر نوکری ملتی یا فروخت ہوتی ہے ۔اب بھی موقع ہے کہ اردو بولنے والوں کو سندھ کی طاقت میں شامل کیا جائے۔ ان سے ایک نیا ''معاہدہ ِعمرانی‘‘ کیا جائے۔ انہیں سندھ کے سرکاری اداروں میں نہ صرف ملازمتیں دی جائیں بلکہ وزارتوں میں بھی شامل کیا جائے ۔بیوروکریسی میں جگہ دی جائے ۔ایساسلوک تو انگریزوں نے بھی غلام ہندوستانیوں کے ساتھ نہیں کیا ۔اردو بولنے والا سندھ میں رہتا ہے وہ اسے اپنی '' جنم بھومی ‘‘مانتا ہے ۔اور وہ یہاں سے نہ کہیں جانا چاہتا ہے نہ ہی کہیں جاسکتا ہے۔اردو بولنے والا جو خود کو مہاجر بھی کہتا ہے وہ سندھ کا حصہ ہے۔اس بار اگران کو سندھ کا حصہ'' ڈکلیئر‘‘نہیں کیا گیاتو سندھ میں موجود50لاکھ پٹھان،60لاکھ پنجابی اور 25سے30لاکھ بلوچ دو کروڑ مہاجر وں کیساتھ مل کر اکثریت میں آجائیں گے۔ سندھ میں مردم شماری کئی چہروں سے نقاب اٹھا دے گی۔ سیاست کا رخ بدل دے گی۔ فاروق ستار نے کہا ہے کہ'' سندھ میں مردم شماری کے بعد وزیر اعلیٰ ہمارا ہوگا‘‘۔ یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے یہ بات کیوںکی ہے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے بھی اسی قسم کا کوئی حساب کتاب لگایا ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ''کراچی کی آبادی دانستہ کم کی گئی ‘‘اس کے اسباب تو انہیں ہی معلوم ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟۔کس نے کیا؟لیکن ایسا ہونا ایک خطرناک بحث کو دعوت دینا ہے۔ کراچی میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ شناختی کارڈ ہیں۔ شناختی کارڈ کی اتنی کثیر تعداد کے ''مالک‘‘کراچی کی آبادی کس طرح 80لاکھ یا ایک کروڑ دکھائی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ مردم شماری کا بم خطرناک طریقے سے پھٹنے کے قریب ہے۔ کائونٹ ڈائون شروع ہوچکا ہے۔اس معاملے میں بہت سوچ سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ لڑائی بڑھی تو اس میں اردو بولنے والوں کو کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ ہی سندھی بولنے والوں کو۔لیکن سندھ ایک آتش فشاں بن رہا ہے سندھ کے تمام باشعور لوگوں اور ہرطبقہ فکر کو اس دھرتی کو امن اور پیار کی سرزمین بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں