سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اعتراف کرہی لیا کہ ''اہم صنعت کار کراچی چھوڑ گئے ہیں‘‘۔بظاہر چھوٹی سی یہ خبر ایک بڑی بات کا اعلان کررہی ہے ۔دنیا سرمایہ کاروں کا بانہیں پھیلاکر استقبال کررہی ہے ۔ انہیں خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ان کو اپنے کاندھوں پر اٹھارہی ہے ۔ان کیلئے پلکیں بچھارہی ہے۔نئے قوانین کے ذریعے اپنے ممالک میں ''ایڈجسٹمنٹ ‘‘کے مواقع فراہم کررہی ہے ۔لیکن ہمارے صنعت کار اور سرمایہ کار کہیں اور ''جائے پناہ‘‘تلاش کررہے ہیں۔دبئی کی حکومت سرمایہ کاروں اور رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والوں کو 99سال کا ویزہ بھی دے رہی ہے۔یہ ایک انوکھا ویزہ ہے کیونکہ کوئی بھی 99سال شاذونادر ہی زندہ رہتا ہے لیکن ویزا دینے والا ملک یہ بتارہا ہوتا ہے کہ ہمارا دل کتنا وسیع ہے۔ اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے صنعتکار اور سرمایہ کاروں کو ایک کے بعد ایک ٹیکس کے کوڑے مار مار کرملک سے دھکے دے کر بیرون ملک خود ہی بھیج رہے ہیں ۔یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی پاگل ہر روز خون کی ایک بوتل فروخت کرنا شروع کردے تو آٹھ سے دس دن بعد وہ بستر مرگ پر ہی پڑا ہوگا ۔ہم بھی ایسے ہی پاگل ہیں جو سرمایہ کاروں کو خون کی بوتل کی طرح اپنے جسم میں سے نکال کر دوسرے ممالک کو ''فروخت ‘‘ کررہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہماری معیشت بسترِ مرگ پر پڑی ہوگی۔
ڈاکٹر محبوب الحق (پاکستان کے سابق وزیرخارجہ اور منصوبہ بندی) نے اپنے ایک انٹرویو میںکہا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری سے 6ہزار افراد کو ملازمتیں اورآمدنی کے وسائل ملتے ہیں ۔اگر کبھی فرصت ملے تو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہم کتنے لوگوں کا روزگار اپنی حماقتوں سے ''ملک بدر‘‘کرچکے ہیں ۔اس کی تین اہم وجوہ ہیں ۔
1۔سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کوئی تحفظ حاصل نہیں 2۔پاکستان میں انواع و اقسام کے اتنے ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہ ہر کمپنی کو ٹیکس دینے کیلئے ایک الگ ڈیپارٹمنٹ بنانا پڑتا ہے 3۔لاء اینڈ آرڈر کسی صورت ٹھیک نہیں ہورہا ۔چھوٹی چھوٹی وجوہ میں تفریح کے مواقع نہ ہونا ‘تفریحی مقامات پر حفظان ِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء کا میسر نہ ہونا ‘اچھے ہوٹلوں کی نایابی شامل ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سرمایہ کاری کرنے والوں کوکیلئے ایک مشکل ملک بنادیا گیا ہے جبکہ جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کیلئے یہ ملک جنت سے کم نہیں ۔ جب تک ہم تفریحی مقامات کو ٹیکس کے ''غلیظ سائے ‘‘سے پاک نہیں کریں گے نہ سرمایہ کاری ہوگی اور نہ ہی سرمایہ گردش کرے گا۔جب ایک شخص سرمایہ کاری سے کماکر گھر آتا ہے تو بچے اپنے بڑوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں کہیں گھما کر لائیں ۔لیکن کہاں جائیں یہ نہ بچوں کو پتہ ہے نہ بڑوں کو۔پاکستان میں گھٹیا کھانوں میں ابلی ہوئی مرغیاں کھانا ہی بڑی تفریح ہے ۔چھوٹا بچہ ''بالٹی ‘‘سے گوشت نکال کر کھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ ہمیں تو کھانوں کے نام بھی رکھنے نہیں آئے ۔تیس روپے میں جوبن کباب ملتا ہے وہی تین سو روپے میں ''برگر‘‘کے نام سے فروخت ہوتا ہے ۔ کیونکہ کئی ٹیکسز کا ''مصالحہ ‘‘اسے مہنگا کردیتاہے ۔بچوں اور بڑوں کی تفریحات اور ہوٹلز تو ٹیکس فری ہونے چاہئیں۔ مری کے ایک ہوٹل والے نے راقم الحروف سے کہا کہ وہ اپنے ہوٹل کے باتھ رومز کو اچھا بنانا چاہتا ہے لیکن اسے تزئین وآرائش کی اجازت نہیں ہے ۔
یورپ اور مشرق ِ بعید میں باورچی (شیف)سر پر استری اور کلف والی ٹوپی پہنتا ہے لیکن ہمارے ''ایئرکنڈیشنڈکاریگر‘‘کی دھوتی میں بھی دس سوراخ ہوتے ہیں ۔سب سے پہلے ہم ہوٹلنگ سے وابستہ تمام کاروبار کو ٹیکس فری قرار دے دیں اور پھر دیکھیں کیسا انقلاب آتا ہے؟۔تھائی لینڈ اور دبئی میں ایسے ہی انقلاب آئے ۔سنگاپور میں ایک ٹورسٹ گروپ کو گائیڈ نے بتایا کہ اس جزیرے کی آبادی 53لاکھ ہے لیکن اس آبادی سے دو‘تین گنا زیادہ سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔کبھی صحافیوں کو ٹاک شو زاور ارکان پارلیمنٹ کو تحریک استحقاق سے فرصت ملے تو جاکر ایئرپورٹس کا جائزہ لیں کہ ہزاروں روپے ایئرپورٹ ٹیکس لینے کے باوجود کیا ہم نے ائیرپورٹس کے واش روم میں ٹونٹیاں عالمی معیار کے مطابق لگائی ہیں یاان میں سے پانی ہمارے ٹیکس کے پیسہ کی طرح ٹپک رہا ہے ۔ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟اور جب ہم ایسا نہیں کریں گے تو زرداری جیسے شخص کو بھی کہنا پڑگیا کہ ہمارے اہم سرمایہ کار اور صنعت کار ملک چھوڑ چکے ہیں ۔کراچی اجڑ رہا ہے ۔اس بات پر بہت سے لوگ خوش بھی ہوں گے لیکن جب شہر اجڑے گا تو نزلہ ملک پر ہی گرے گا ۔شہ رگ پر پائوں رکھا جائے گا تو دل کے لئے بھی خون کی سپلائی بند ہوجائے گی ۔
ایک سوال اپنے پیارے زرداری صاحب کیلئے بھی ہے کہ سندھ حکومت نے آٹھ ‘دس سال سے کراچی کے تین بڑے انڈسٹریل ایریاز کی خوبصورتی اور معمولی نوعیت کی مرمت کیلئے کیا کیا؟کیاصنعتی علاقوں میں کوئی مثالی سڑک بنائی گئی؟کیا صنعتی علاقوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی تدبیر کی گئی ۔؟کیا صنعتی علاقوں کو بجلی اور گیس کے بحرانوں سے بچانے کے کوئی اقدامات کئے گئے؟اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو آپ کس سے کہہ رہے ہیں کہ اہم صنعت کار کراچی چھوڑ گئے ہیں۔اس کی وجہ قوم کو کیوں نہیں بتاتے۔صنعتی علاقوں میں فٹ پاتھ ہی ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ کولمبس نے امریکا تلاش کیا تھا ذرا کولمبس کو صنعتی علاقوں کی فٹ پاتھ ڈھونڈنے کا کام تو سونپ کردیکھیں استعفیٰ دے کر گھر جانے میں اپنی عافیت جانے گا۔جتنی جھاڑیاں کراچی کے صنعتی علاقوں میں ہیں اتنی پورے کراچی میں نہیں ۔بعض اوقات صنعتی علاقوں کی ''زرخیزی ‘‘دیکھ کر رشک آتا ہے ۔کراچی کی صنعتیں جھاڑیوںاورصنعت کار ٹیکسوں کے جنگل میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ ہم بے ترتیبی ‘گندگی اوراَن سولائزڈکلچر کی ایسی مثال قائم کررہے ہیں کہ دنیا کی جو ٹیم ایک بار کراچی کے صنعتی علاقوں کا رخ کرلے دوبارہ پلٹ کر آنا تو دور اپنے پاسپورٹ پر پاکستان کا ویزہ بھی نہیں لگواتی ۔ اس کی ذمہ دارسندھ اور وفاقی حکومتیں ہے۔حاکم تو دور کبھی وزیر صنعت وتجارت نے ان علاقوں کا دورہ نہیں کیا کیونکہ انہیں تو خواب دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ۔ایسی بے اعتناعی اور بے رخی تو سری لنکا اور بھوٹان جیسے ممالک میں بھی نہیں ہے۔
پوری دنیا میں آثار ِ قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے لیکن ہم صنعتی علاقوں کو اپنے ہاتھوں سے آثار قدیمہ بنارہے ہیں ۔لوگوں کو ان علاقوں سے گذرتے ہوئے ابکائی آتی ہے ۔پاکستان کتنی ترقی کررہا ہے اور کتنے نقصان کا سامنا کررہا ہے اگر یہ دیکھنا اور سمجھنا ہو تو کراچی کے تین بڑے اورچار ‘پانچ چھوٹے صنعتی علاقوں کا منہ پر رومال رکھ کر دورہ کرلیں ۔آج کل ہم پر چین کی ترقی کا دورہ پڑا ہوا ہے ۔لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ چائنا کی ترقی کا آغاز اس طرح ہوا تھا کہ مزدوروں کے لئے ریلوے اسٹیشنز پر قالین بچھائے گئے تھے ۔اور ہم نے مزدوروں کا جو حال کررکھا ہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کا ہنر مند کارکن بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہا ہے ۔اور ہر طرف سے میر تقی میر کی یہ صدا آتی ہے کہ ؎
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے