ڈیڑھ ماہ سے کراچی اور سندھ میں یہ خبریں گرم ہیں کہ ایم کیو ایم کے تینوں گروپس کو ایک کیا جا رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان کو ایک کون کر رہا ہے؟ لیکن جب بھی یہ خبر آتی ہے تو کراچی والے یہ خبر بہت دلچسپی اور خوشی کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن خبر یہ نہیں بتاتی کہ یہ ''پل صراط‘‘ کب عبور ہو گا؟
سیاست بھی کیا عجیب چیز ہے۔ پہلے کہا گیا کہ ایم کیو ایم قابو کرنے کے لئے اس کی طاقت کو توڑنا بہت ضروری تھا‘ کیونکہ یہ اصول ہے کہ ٹکڑوں میں تقسیم کئے بغیر طاقت کو توڑا نہیں جا سکتا... اس لئے ایم کیو ایم کو پہلے دو اور پھر تین حصوں میں تقسیم کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایم کیو ایم جب باضابطہ طور پر تقسیم ہو گئی تو پیپلز پارٹی نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں... پیپلز پارٹی کا اسٹائل کچھ کچھ عوامی لیگ جیسا تھا‘ لیکن ان کے پاس عوامی لیگ جیسی ''اندھی طاقت‘‘ نہیں تھی اور انہوں نے جب اپنا دائو کھیلا تو اس وقت وفاق کو اندازہ ہو گیا کہ پیپلز پارٹی اتنی طاقتور نہیں جتنی چھاتی پھلا کر ظاہر کر رہی ہے۔ آئی جی کے معاملے پر جھگڑا ہوا تو ایک طرف وفاق نے اپنا غصہ ظاہر کیا‘ جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت کی بعض کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر بھی جاری کر دیا... اور اس طرح سندھ حکومت اپنے ''آمرانہ فیصلے‘‘ کو عملی جامہ پہنانے سے محروم رہی۔ آخر کار سندھ حکومت کو پرانی تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی تقسیم کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے... اور اس کی کوشش ہے کہ متحدہ ایم کیو ایم کسی صورت وجود میں نہ آئے۔ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدوار پیپلز پارٹی کے ہوں... اور اگر ایم کیو ایم اسی طرح منقسم رہی تو یہ ممکن ہے کہ کراچی کی زیادہ سیٹیں پیپلز پارٹی کی جھولی میں آ گریں۔ انتخابی اعداد و شمار کے ایک ماہر نے فارمولا بھی بتا دیا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان کو 25 فیصد‘ پاک سرزمین پارٹی کو 20 فیصد اور مہاجر قومی موومنٹ کو 5 فیصد ووٹ ملتے ہیں... تحریک انصاف کو 10 فیصد اور جماعت اسلامی کو 2 فیصد ووٹ مل جائیں‘ تو 30 فیصد ووٹ پیپلز پارٹی لے سکتی ہے... لیکن اگر متحدہ ایم کیو ایم الیکشن لڑتی ہے تو 50 فیصد ووٹ ایک ہی انتخابی نشان کو مل جائیں گے... جس سے کراچی اور شہری سندھ کے متعدد حلقے متحدہ ایم کیو ایم کے پاس ہی رہیں گے۔
یہ اشارے بھی آنے لگے کہ ایم کیو ایم کے تینوں گروپس کو ایک کرنا ضروری ہے‘ تاکہ سندھ میں طاقت کا توازن بگڑ نہ جائے‘ لیکن آصف زرداری بھی ہار ماننے والے نہ تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ فنکشنل (پگارا گروپ)‘ مسلم لیگ (نواز گروپ) کے کئی بااثر افراد کو پیپلز پارٹی کا نہ صرف ہم نوا بنا لیا بلکہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرضمنی الیکشن لڑوا کر منتخب بھی کروا لیا... جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وفاق کے ''نجومیوں‘‘ اور ''جادوگروں‘‘ نے فیصلہ کیا کہ اس کا کوئی توڑ ہونا چاہئے اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں اتنی اکثریت حاصل نہ کرنے دی جائے کہ وہ ڈکٹیشن دے سکے... اور سندھ میں ''ہنگ پارلیمنٹ‘‘ بن جائے۔ وفاق کی خواہش تھی کہ سندھ میں آئندہ حکومت ''ملی جلی‘‘ اور دو تین جماعتوں پر مشتمل ہو تاکہ جب وہ مرکز کی طرف نگاہِ بد سے دیکھے تو اسے اندرونی تضادات کے ذریعے قابو کر لیا جائے۔
ایم کیو ایم ایک ہونی چاہئے یا تین؟ اس پر بحث انتہائی شدت سے جاری ہے کراچی میں مہاجر جدوجہد کی ایک تاریخ رکھنے والے 55 سالہ آفاق احمد نے سب سے پہلے متحدہ ایم کیو ایم کا تصور پیش کیا... اور ایم کیو ایم پاکستان کی ''حقوق ریلی‘‘ کی حمایت کرکے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ فاروق ستار نے عملاً اس کا جواب زیادہ گرم جوشی سے نہیں دیا‘ لیکن انکار بھی نہیں کیا۔ اس دعوتِ دوستی کے 15دن بعد مصطفی کمال نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ''ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے‘ وہ اب بھی لسانی سیاست کر رہی ہے جبکہ ہم پاکستان کی سیاست کر رہے ہیں‘‘۔ لگتا ہے کہ مصطفی کمال اپنے ردعمل کو ''ملین مارچ‘‘ کے بعد ظاہر کریں گے... ابھی وہ اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کریں گے اور اسی بنیاد پر اپنی سیاسی پیش قدمی کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی طے کریں گے۔ شاید وہ اپنی پارٹی کی ''پوزیشن‘‘ بھی ''پراپر چیک‘‘کرنا چاہ رہے ہیں۔
دبئی میں مقیم سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے ایک مہاجر لیڈر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مہاجر قوتوں کو اب ایک ہونا چاہئے۔ مہاجر قوتوں کو ایک کرنے کا نظریہ پرویز مشرف کا بھی ہے اور انہوں نے کئی مہاجر رہنمائوں سے رابطہ بھی کیا ہے؛ البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی عمر 73 سال ہو گئی ہے اور وہ سیاست کے لئے فٹ نہیں لیکن گزشتہ دنوں انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ''میں بالکل فٹ ہوں اور پاکستان آنا چاہتا ہوں‘‘ اس کیلئے انہوں نے عدالت سے سکیورٹی بھی مانگی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ واپس آ کر تینوں مہاجر گروپوں کو ایک کرکے ان کی قیادت بھی کریں گے... لیکن ان کے آنے سے مہاجر سیاسی قوتوں کو تقویت ملے گی۔ مہاجر سیاسی قوتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے درمیان پیدا ہونے والے چھوٹے اور بڑے اختلافات پر ثالثی کرنے والا کوئی نہیں ہے... روکنے ٹوکنے والے بھی دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس وقت مہاجر سیاسی قوتیں جس قسم کی حالتِ جنگ میں ہیں اگر وہ ٹکڑوں میں تقسیم رہتے ہوئے انتخابی سیاست میں کود پڑیں تو ہر حلقے میں ان کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور تینوں جماعتوں کے امیدوار ہار جائیں گے۔ بقول سیاسی تجزیہ کار ''اپنے ہار جائیں گے اور غیر جیت جائیں گے‘‘۔ فاروق ستار‘ مصطفی کمال اور آفاق احمد‘ تینوں کی ذہانت کا امتحان انتخابی موسم قریب آنے کے بعد شروع ہو گا... اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ مہاجر لیڈر بازی جیت پاتے ہیں یا بازی اپنے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں... لیکن عام تجزیہ یہ ہے کہ انہیں مل جل کر الیکشن لڑنا ہو گا ورنہ... ورنہ... ورنہ؟