18 مارچ 1988 کو محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے دو نعروں کی کوکھ سے کراچی میں ایک سیاسی جماعت (مہاجر قومی موومنٹ) نے ''جنم‘‘ لیا۔ مہاجر ووٹروں کو اپنائیت محسوس ہوئی۔ انہوں نے اس جماعت کو ووٹ‘ نوٹ اور سپورٹ دی۔ 1988 میں شریکِ اقتدار ہوئی۔ حکومت اور اپوزیشن کی کرسیوں پر باری باری بیٹھنے کا موقع ملا۔ 1997 میں خود کو قومی دھارے میں شامل کیا‘ نام بدلا‘ لفظ مہاجر نکالا‘ ملک بھر میں دفاتر قائم کئے‘ اپنا نظریہ پہنچانا شروع کیا... اور مڈل کلاس کی اس واحد جماعت کو پذیرائی بھی ملی لیکن 2007 کا 12 مئی ایسا دن تھا جو اس جماعت کو پھر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں واپس لے آیا‘ اور یہ ایک بار پھر مہاجروں کی جماعت بن گئی۔ 11 مارچ 2015 کو اس کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر رینجرز نے ایک بڑی کارروائی کی اور اسے تا حکم ثانی ''سیل‘‘ کر دیا گیا۔ 3 مارچ 2016 کو اس جماعت کے سابق میئر کراچی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی پاکستان واپس آئے‘ دھواں دار پریس کانفرنسیں کیں‘ الزامات لگائے۔ سچ اور جھوٹ کی تمیز کا عمل جاری تھا کہ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر ایک نعرہ لگا اور سب کچھ بدل گیا۔ مہاجر ووٹ بینک بکھر گیا اور مہاجر لیڈروں سمیت مہاجر ووٹر بھی ہوا میں معلق ہو گئے۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے بانیان کی اولادیں بھی تقسیم ہو گئیں... اور کراچی میں صرف ایک ہی کارڈ رہ گیا جس کا نام ''مہاجر کارڈ‘‘ ہے۔
کراچی میں ''مہاجر کارڈ‘‘ سندھ کارڈ سے مختلف ہے... ''سندھ کارڈ‘‘ سندھیوں کو متحد کرنے کا نام ہے لیکن ''مہاجر کارڈ‘‘ مہاجروں کو متحد نہیں کرتا... ''سندھ کارڈ‘‘ سندھ کی گروہی سیاست‘ قبائلی سسٹم کو ٹوٹنے نہیں دیتا‘ لیکن مہاجر کارڈ مہاجروں میں متعصبانہ لیڈرشپ کے ٹکڑوں کو جنم نہیں دیتا۔ مہاجروں کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ بہت پڑھی لکھی قوم ہے اور ان کا متحدہ ہندوستان میں بھی بہت بڑا کردار تھا۔ حقیقت کیا ہے اس پر ابھی تاریخی بحث ہونا باقی ہے۔ ماضی میں کراچی کے سب سے بڑے جلسے ایم کیو ایم ہی کرتی تھی... ووٹ بھی اسے ہی ملتے تھے... ہڑتالیں بھی وہی کراتی تھی... لیکن اب ووٹ اور اسٹریٹ پاور کا مرکز ختم ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے جلسہ کیا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ پی ایس پی نے جلسہ کیا تو اس میں عوام نے بھرپور شرکت کی... اور مہاجر قومی موومنٹ نے میدان سجایا تو وہ بھی عوام سے بھر گیا۔ تجزیہ کاروں نے تینوں کو برابر کے ''پوائنٹس‘‘ دیئے... لیکن قیاس اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے... تجزیہ اور خبر مختلف ہوتے ہیں۔
کراچی میں مہاجروں کے تین سیاسی اور طاقتور گروہ موجود ہیں۔ مہاجر سیاست کے بانی الطاف حسین نے بیس سال قبل مہاجر قومی موومنٹ سے تائب ہو کر متحدہ قومی موومنٹ سے سیاست کرنے لگے تھے۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم مہاجر نام چھپ کر لیتی ہے۔ مصطفی کمال ملک گیر سیاست کر رہے ہیں اس لئے مہاجر سیاست کی طرف متوجہ نہیں ہیں جبکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں لسانی اکائیوں میں تقسیم ہیں۔ مصطفی کمال کو جائزہ لینا ہو گا کہ اسفند یار ولی کی اے این پی اس معاملے میں نہ صرف واضح موقف رکھتی ہے کہ اے این پی پختونوں کی جماعت ہے‘ بلکہ سندھ میں اس جماعت کا صوبائی صدر بھی پختون ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سندھ میں مہاجر آبادی سے الیکشن جیتتی رہی ہے لیکن کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے بھی ''غریب‘‘ سندھی کو ''سندھ کا صوبائی امیر‘‘ بنا دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے صوبائی صدور سندھیوں میں ہی تلاش کئے۔ مصطفی کمال اگر اس موضوع پر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو اپنی ''بی‘‘ کلاس لیڈرشپ کو مہاجر قوم کی خدمت کیلئے وقف کرتے... اور مہاجر ووٹروں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے۔ صرف آفاق احمد وہ واحد لیڈر ہیں‘ جنہوں نے کھلم کھلا مہاجر سیاست کی اور اپنی جماعت کا اپنا نام مہاجر قومی موومنٹ ہی رکھا اور وہ اسی نام پر ابھی تک سیاست کر رہے ہیں۔ مہاجر نام پر سیاست کرنا کوئی برائی نہیں لیکن مہاجر نام پر عصبیت کا مظاہرہ کرنا تباہ کن ہے۔ کراچی میں صنعتی، تجارتی اور پوش علاقوں میں مہاجر نام پر سیاست کرنا بہت مشکل ہے‘ لیکن مہاجروں کو ریلیف دینے کی بات کرنا مہاجر ووٹرز کو متوجہ ضرور کرتی ہے۔ کراچی میں سیاسی پارٹیو ں کو اس سلسلے میں بہت دانائی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ذرا سی غلطی کراچی کو ایک بار پھر لسانی تقسیم کی دہائی میں لے جائے گی۔
مردم شماری کے بعد کراچی میں مہاجر آبادی اور ان کے حلقہ انتخاب میں جو اضافہ نظر آئے گا وہ اردو اسپیکنگ کیلئے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہو گا۔ سندھ میں بعض مرحلوں پر پی پی کے وزرا کے نسل پرستانہ رویوں نے اندرونِ سندھ کے سندھیوں کو کراچی آنے پر راغب کیا۔ کراچی میں سندھیوں کے خلاف کوئی ایسی نفرت نہیں تھی کہ وہ حیدر آباد کی طرح کسی ایک علاقے میں آباد ہوتے اور قاسم آباد وجود میں آتا۔ سندھی لابی نے بہت کوشش کی کہ گلستان جوہر میں سندھیوں کو آبادکیا جائے لیکن سندھی اپنی کاروباری ضروریات‘ ملاز مت کے مواقع اور محدود بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے پورے شہر میں بکھر گئے۔ مہاجروں نے سندھیوں کو کہیں خوش دلی سے قبول کیا‘ اور کہیں صرف قبول کیا... اس لیے کراچی کے اندر طاقتور پختون آبادیوں اور پنجابی آبادیوں کی طرح کوئی سندھی طاقتور اور فیصلہ کن ووٹ رکھنے والی آبادی نہیں بن سکی۔ صدر آصف زرداری نے گزشتہ ہفتے یہ اعتراف کیا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پختون کراچی میں رہتے ہیں۔ مہاجر لیڈرشپ کو ان زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر سیاست کرنا ہے اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں... اگر مہاجر دیگر قومیتوں کے ساتھ مل جل کر سیاست کرے گا تو کراچی کا مرتبہ بلند و بالا ہو گا اور کراچی صنعتی اور تجارتی ترقی بھی کرے گا... کیونکہ کراچی کا پہیہ کوئی اکیلی قوم نہیں چلا سکتی... کراچی کو رواں دواں رکھنے کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ورنہ تنگ نظری ایک بار پھر کراچی کی روشنیوں کو چھین سکتی ہے۔