یہ کراچی کے مقدر میں لکھی گئی ایسی کمپنی کی کہانی ہے‘ جس نے روشنیوں کے شہر کو اندھیروں کے شہر میں بدل دیا ہے۔ کراچی کی بجلی کمپنی 1913ء میں وجود میں آئی تھی جس کی ذمہ داری شہر میں توانائی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے بجلی کی پیداوار کے علاوہ اس کی تقسیم بھی تھی۔ اس کمپنی کو 2005ء میں نجی شعبے میں دیا گیا تھا اور 2009ء میں دبئی کی ایک کمپنی ابراج گروپ نے اس کے حصص خریدے تھے۔ پاکستان میں نجکاری کا سب کا سے بڑا نقصان دیکھنا ہو تو پہلے کراچی کی بجلی کمپنی ‘ پھر کراچی کے شہریوں اور شہر کے اندھیروں کو دیکھ لیں۔
کراچی کی بجلی کمپنی کی ڈھٹائی کو ''سلام‘‘ ہے۔ آپ بجلی نہ ہونے کی کمپلین کر دیں... کوئی گاڑی نہیں آئے گی۔ آپ کے پاس کئی دن سے بجلی نہ ہو کوئی پوچھے گا بھی نہیں... لیکن بجلی کا بل ایک مہینہ نہ بھریں اور پھر اس ادارے کی پھرتی دیکھیں۔ انتہائی ''برق رفتاری‘‘ کے ساتھ آپ کا بجلی کے ساتھ ''تعلق‘‘ منقطع کر دیا جائے گا۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کے کاپر کے تار اتار کر سلور کے ننگے تار ڈال دیے گئے ہیں‘ اس لئے پارہ اڑتیس سے اوپر جائے تو یہ تار زمین پر آ جاتے ہیں۔ پورے ملک میں کراچی کی بجلی کمپنی کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ اللہ بھلا کرے سندھ ہائیکورٹ کا‘ جس نے نیپرا کو حکم دیا ہے کہ وہ کراچی کی بجلی کمپنی کے خلاف کارروائی کرے۔ نیپرا نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی کی بجلی کمپنی کا ترسیلی نظام خرابیوں سے بھرپور اور کمپنی کراچی کے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ نیپرا حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو نوٹس موصول ہونے کے باوجود کراچی کی بجلی کمپنی نے جواب دینا تک گوارا نہ کیا... اب کمپنی کے خلاف نیپرا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی‘ جس کے مطابق کراچی کی بجلی کمپنی کو دس کروڑ روپے یومیہ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کی بجلی کمپنی کے معاملات دیکھنے کے لئے اتھارٹی ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کر سکتی ہے۔ نیپرا کو یہ مشورہ ہے کہ جرمانے کے بجائے دوسرا ''آپشن‘‘ استعمال کرنا بہتر رہے گا کیونکہ کراچی کی بجلی کمپنی یومیہ دس کروڑ روپے جرمانہ اداکرتی رہے گی‘ جو وہ کراچی والوں کی جیب سے ''اوور بلنگ‘‘ کی مد میں وصول کر لے گی... ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
ایک صنعتی شہر سے آپ بجلی چھین لیں تو اس کے پاس کیا بچے گا؟ یہ سوال ان حکمرانوں کے لئے انتہائی اہم ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم صنعتی پہیہ تیزی سے چلائیں گے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں کراچی کا درجہ حرارت ابھی تک چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک نہیں پہنچا‘ لیکن چار بڑے بریک ڈائون ہو چکے ہیں... ہائی ٹینشن لائن ٹرپ ہونا معمول بن گیا ہے۔ کراچی کے شہری ''کینڈل لائٹ‘‘ سحری اور افطاری کرتے کرتے اکتا کر سڑکوں پر آ گئے ہیں... ابھی تو ٹائر جلنا شروع ہوئے ہیں‘ لیکن یہی صورتحال رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کراچی کی بجلی کمپنی کے دفاتر بھی ان شعلوں کی لپیٹ میں آ جائیں۔
کراچی کی بجلی کمپنی کو نئے منصوبے شروع کرنے تھے لیکن نہ اس پر عمل ہوا اور نہ ہی نصب شدہ بجلی گھروں سے مطلوبہ
مقدار میں بجلی پیدا کی جاتی ہے... فرنس آئل مہنگا ہے اور کراچی کی بجلی کمپنی کی انتظامیہ پیداواری لاگت کم رکھنے کے لیے اپنے بعض تھرمل یونٹ نہیں چلا رہی اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے نیشنل گرڈ سے بجلی حاصل کی جاتی ہے... ان کا عذر یہی رہتا ہے کہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے پلانٹ بند ہیں۔ ابراج گروپ انتظامیہ نے کراچی کی بجلی کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لئے سسٹم میں 500 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کا معاہدہ کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ بجلی کی پیداوار میں سالانہ 1000 میگاواٹ کا اضافہ کرے گی اور بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فروخت بھی کرے گی... لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے... ابراج گروپ نے چارج لیتے ہی سسٹم سے 1199 میگاواٹ بجلی غائب کرکے شارٹ فال ظاہر کیا اور واپڈا‘ کینپ‘ ٹپال اور گل احمد سے بجلی خریدنا شروع کر دی۔ کراچی کی بجلی کمپنی 1500 میگاواٹ تک مزید بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹس میں جلنے والا تیل بچانے کی خاطر ابراج گروپ نے
پلانٹس بند کئے‘ جس کے بعد کراچی میں بجلی کا بحران انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر گیا اور 6 گھنٹے ہونے والی لوڈ شیڈنگ 18 سے 20 گھنٹے تک جا پہنچی۔ صنعتیں بجلی کی عدم فراہمی کے باعث بندش کا شکار ہوئیں اور تباہی کے دہانے پر جا پہنچیں۔ بڑے سرمایہ داروں نے اپنا کاروبار کراچی سے اٹھا کر ڈھاکہ‘ دبئی اور ملائشیا منتقل کیا... شہر قائد میں بے روزگاری بھی بڑھی اور جرائم میں بھی اضافہ ہوا۔
اطلاعات ہیں کہ چین سے آنے والے دو جہاز بن قاسم پورٹ پر جنریٹرز سے لدے تیار کھڑے ہیں... اب یہ جنریٹرز کس کے ہیں؟ اور کہاں فروخت ہوں گے؟ اس بارے میں بہت کچھ وقت آنے پر معلوم ہو جائے گا... یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں بجلی کا بحران وفاقی حکومت کا پیدا کردہ ہے اور اس کے لئے ماہِ رمضان المبارک کا خصوصی طور پر انتخاب کیا گیا تاکہ عوام میں اشتعال پیدا کیا جا سکے اور ابراج گروپ کو مکمل طور پر ناکام ثابت کرکے کراچی کی بجلی کمپنی شنگھائی پاور کے حوالے کی جا سکے۔ بعض معاشی تجزیہ کار اسے دو ہاتھیوں کی لڑائی بھی قرار دے رہے ہیں جس میں پسنے والے کراچی کے عوام ہیں۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کہ ایٹمی قوت پاکستان بجلی کے بحران کا شکار ہے۔