کراچی میں ٹریفک پولیس کبھی کبھی اتنی پھرتی اور چستی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ کراچی کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے شہری دنگ رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟۔ ٹریفک پولیس کو جمعرات کو اچانک یاد آیا کہ کراچی کے موٹر سائیکل سوار شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے... بس آناًفاناً ''کریک ڈائون‘‘ شروع کر دیا گیا... شہریوں کو ''پکڑ‘ پکڑ‘‘ کر ''سمجھایا‘‘ گیا کہ ہیلمٹ کے بغیر آپ کی زندگی غیر محفوظ ہے... اور اس اہم بات کو بتانے کے بدلے ان سے ڈیڑھ سو روپے فی کس ''مشورہ فیس‘‘ چالان کی صورت میں وصول کی گئی۔ کراچی بھی کتنا بے بس شہر ہے جس کا کوئی والی وارث ہی نہیں۔ اسی لئے جب جس کی مرضی ہو کسی بھی قانون کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
کراچی کے شہریوں کی زندگی کی فکر کرنے والی ٹریفک پولیس اس احساس سے بالکل محروم ہے کہ ''ہیلمٹ فروشی‘‘ کی اس مہم میں شہریوں کے دل اور جیب پر کیا گزر رہی ہے... جب کراچی کی اہم شاہراہیں ٹریفک جام کا سامنا کرتی ہیں اس وقت ٹریفک پولیس گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتی ہے... بارش کی دو چار بوندیں گر جائیں تو ٹریفک پولیس بھی بجلی کے فیڈرز کی طرح ''ٹرپ‘‘ کر جاتی ہے۔ شہر کی متعدد اہم چورنگیوں پر نصب سگنلز خراب ہیں۔ بیشتر مقامات پر ان کو ''آٹو موڈ‘‘پر لگا دیا گیا ہے اور یہ اپنی مرضی سے جلتے اور بجھتے ہیں... جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کہیں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں اور کہیں کی سڑکیں خالی رہ جاتی ہیں۔ ٹریفک جام کی ''بیماری‘‘ اس وقت کراچی میں ''ایڈز‘‘ کی شکل اختیار کر رہی ہے... لیکن اس کا علاج نہ ڈی آئی جی ٹریفک کے پاس ہے اور نہ ہی ''اسٹے آرڈر یافتہ‘‘ آئی جی سندھ نے ٹریفک پولیس کو کوئی خاص ہدایت دی۔
کراچی کی سڑکوں پر اس وقت ہیلمٹ نہ پہننے والے سب سے بڑے ''مجرم‘‘ ہیں۔ سٹریٹ کرائم کا یہ حال ہے کہ گن پوائنٹ پر کسی موٹر سائیکل سوار کو لوٹ لیا جائے تو قریب کھڑی پولیس موبائل بھی مخالف سمت میں اپنی اہم ذمہ داری ''گشت‘‘ کرنے نکل پڑتی ہے... کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکاروں پر پے در پے حملوں کے بعد ان کو سختی سے اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ بُلٹ پروف جیکٹ پہنیں... کیونکہ ان کی زندگی قیمتی ہے... لیکن ٹریفک پولیس اہلکار تو دور افسران بھی بُلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنتے۔ یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ خود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ٹریفک اہلکار و افسران شہریوں کو قانون کی عملداری سکھا رہے ہیں‘ حالانکہ زندگی کا خطرہ ٹریفک اہلکاروں و افسران کو زیادہ ہے... لیکن ''دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘ کی ضرب المثل بھی بلاوجہ نہیں بنی۔
ڈی آئی جی ٹریفک عمران یعقوب منہاس بھی ڈاکٹر امیر شیخ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ گزشتہ سال ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ نے آئی جی سندھ کو خط لکھ کر تجویز دی تھی کہ ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانے کی سزا 150 سے بڑھا کر ایک ہزار روپے تک کی جائے... اور پیچھے والے نے بھی اگر ہیلمٹ نہ پہنا ہو تو اس پر 5 سو روپے جرمانہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے تو خواتین پر بھی ہیلمٹ پہننے کی پابندی لگائی تھی... اور یہ بھی کہا تھا کہ ''خواتین کو میک اپ خراب ہونے کا خوف ہے تو ہمیں ان کی حفاظت کی فکر ہے‘‘۔ جس پر شدید تنقید ہوئی اور یہ فیصلہ بالآخر واپس لینا پڑا تھا۔ گزشتہ سال مرد اور خواتین دونوں موٹر سائیکل سواروں پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے عائد کی گئی تھی۔ پچھلے سال بھی اس قانون پر عمل درآمد کے لئے ایسی ہی مہم چلائی گئی مگر بات صرف کاغذات اور خیالات تک ہی محدود رہی۔ فائدہ ہوا تو صرف ''ہیلمٹ فروشوں‘‘ کا اور نقصان غریب شہریوں کا ہوا۔
عملی طور پر یہ کوئی پہلا قدم نہیں ہے جو شہر میں ٹریفک کی بہتری کے نام پر کیا گیا... بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر گاڑی ضبط کرنا... اور شارع فیصل پر رکشہ اور ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی کے اعلانات بھی ماضی میں کئے جا چکے ہیں... لیکن شارع فیصل پر ہیوی ٹریفک ایک دن کے لئے بھی بند نہ ہو سکا... نہ رکشوں پر پابندی لگی‘ اور نہ ہی لوڈنگ گاڑیوں کی فٹنیس چیک کی جا سکی۔ بس پتلی گردن والے موٹر سائیکل سوار ہی ٹریفک پولیس کو نظر آتے ہیں۔ نجانے وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ٹریفک پولیس کو بھاری گاڑیوں کو ''پکڑنے‘‘ سے روکتی ہیں بلکہ جنگی بنیادوں پر شروع کی گئی ایسی مہمات بھی کہیں کھو سی جاتی ہیں۔ پرانی گاڑیوں کیلئے فٹنیس کا معاملہ انتہائی اہم ہے... لیکن آج تک کوئی ایسی مہم شروع نہیں کی گئی کہ گاڑیوں کی فٹنیس چیک کی جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ تباہ حال گاڑیوں کی فٹنیس ''او کے‘‘ کیسے ہوتی ہے۔ فٹنیس سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والی گاڑیوں کا دھواں دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے کتنا ''مال ‘‘ خرچ کرکے اپنی گاڑی کو سڑک پر چلنے کے قابل بنایا ہو گا۔ پچاس سال پرانی بسیں آج تک کراچی میں چل رہی ہیں۔ گرین‘ اورنج اور دیگر رنگ برنگی بسیں آئیں اور ختم ہو گئیں لیکن پرانی بسیں نئے فٹنس سرٹیفکیٹس کے ساتھ چل رہی ہیں۔ پرائیوٹ گاڑیوں کے سی این جی سلنڈروں کو ہر پانچ سال میں ''کوالٹی ٹیسٹ‘‘ پاس کرنا ضروری ہوتا ہے‘ لیکن بدقسمتی دیکھئے جو گاڑی جس سلنڈر کے ساتھ کمپنی سے نکلتی ہے‘ اسی کے ساتھ ہی ''قبرستان‘‘ پہنچتی ہے۔ یہاں کسی کو جان کا خطرہ نظر نہیں آتا‘ حالانکہ ایسی گاڑیاں تو پورا فلنگ سٹیشن تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
اب اسے سسٹم کی کمزوری کہیں یا کسی کو نوازنا۔ دونوں ہی صورتوں میں عوام کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک تو ناقص ہیلمٹ مہنگے داموں فروخت کر دئیے جاتے ہیں... دوسرا ہیلمٹ کے نام پر عوام کے چالان اور کہیں بنا چالان کے جیبیں خالی کر دی گئیں۔ کراچی والے بھی معصوم لوگ ہیں۔ پوچھتے ہی نہیں کہ جناب ہیلمٹ کے ساتھ ہم کیسے محفوظ ہو گئے۔ پلاسٹک کے اس ہیلمٹ کی تو خود حفاظت کرنا پڑتی ہے کہ کہیں گر کر ٹوٹ نہ جائے۔ کراچی والوں کو چاہئے کہ یا تو ایک ہی بار مضبوط اور اچھے ہیلمٹ خرید لیں یا پھر ایسی ہی سنسنی اور بریکنگ کے لیے ہر تھوڑے عرصے میں تیار رہنا سیکھ لیں۔ مشہور کہاوت ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہے عقل مند بھوکا نہیں مر سکتا۔ جو ہیلمٹ فروش کل تک مکھیاں مار رہے تھے آج انہیں نوٹ گننے سے فرصت نہیں۔ اب تو کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بھی ہیلمٹ کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ گھروں میں ''انڈسٹریاں‘‘ لگ گئی ہیں۔ ایسے ہیلمٹ بن رہے ہیں جن سے زندگی غیر محفوظ ہو رہی ہے۔ ان کا چیک اینڈ بیلنس کون کرے گا؟ ٹریفک پولیس تو صرف ہیلمٹ دیکھ رہی ہے اس کی بناوٹ اور مٹیریل کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اس پر ابھی تک کوئی سوال نہیں اٹھا رہا۔
ہر سال ''ہیلمٹ مہم‘‘ شروع ہوتی ہے۔ ہیلمٹ کی فروخت میں تیزی آتی ہے۔ کنٹینر کے کنٹینر بک جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ہیلمٹ کے کئی کنٹینرز فروخت ہوئے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ شاید پھر کسی صاحب کے ہیلمٹ سے بھرے کنٹینرز آ چکے ہیں اس لئے قانون سخت ہو گیا ہے۔ جیسے ہی لاٹ فروخت ہو جائے گی‘ ایک بار پھر ہیلمٹ بھول کر کسی اور مہم کی تیاری شروع کر دی جائے گی۔
ڈی آئی جی عمران یعقوب منہاس صاحب!! براہ مہربانی شہریوں کی جان کے ساتھ ان کی جیب کی بھی فکر کریں... صرف موٹر سائیکل سواروں کو پکڑنے سے کارکردگی ظاہر نہیں ہوتی بڑی گاڑیوں پر بھی ہاتھ ڈالیں۔ ٹریفک جام کا مسئلہ حل کریں۔ فٹنیس سرٹیفکیٹ پر توجہ دیں۔ سی این جی سلنڈر چیک کریں۔ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کو بند کریں۔ اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پائوں پکڑ کر انہیں کسی طرح اس بات پر بھی راضی کریں کہ زیر تعمیر ادھورے ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جائیں تاکہ شہریوں کی گاڑیاں تباہ ہونے سے بچ جائیں اور کراچی والوں کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ آپ کو اُن کی جان کے ساتھ ساتھ اُن کے مال کی بھی فکر ہے۔