پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خاں کے عہد میں تین سال بعد چینی کی قیمت میں دس پیسے کا معمولی اضافہ ہوا تو جنرل ایوب خان کی حکومت مہنگائی کی زد میں آ گئی تھی... اور یہ اس قدر خوفناک ثابت ہوئی کہ دس سال میں ہونے والی ترقی بھی حکومت کو نہ بچا سکی۔ 1965ء میںگورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں مرحوم نے تاجروں کو جب گورنر ہائوس طلب کیا تو صرف اتنا کہا کہ دوران جنگ روزمرہ اشیاء کی قلت نہیں ہونی چاہیے اور نہ قیمتوں میں اضافہ‘ اور اجلاس برخواست کر دیا۔ عوام نے دیکھا کہ سترہ روزہ جنگ کے دوران کسی چیز کی قیمت میں ایک پیسے کا اضافہ نہیں ہوا‘ لیکن آج صورت حال بالکل مختلف ہے... آج نہ کوئی کہنے والا ہے اور نہ کوئی سننے والا ہے‘ اسی لئے تو حبیب جالب یاد آتا ہے:
بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد
ہم پر اب تک جاری ہے، کالی صدیوں کی بے داد
صدر ایوب زندہ باد
پاکستان جاپان کے مقابلے پر آ رہا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے مہنگے پھل اور سبزیاں جاپان میں ملتی ہیں۔ تربوز چار سو سے پچیس سو ین‘ خربوزہ تین سو سے ہزار ین‘ کیلے دو سو کے چار عدد اور ایک آم دو سو سے پانچ سو ین میں ملتا ہے۔ سبزیوں کی قیمتیں ایسی کہ جنہیں سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں... آلو چار سو کلو‘ لہسن دو سو کی گٹھی‘ پیاز چھ سو کے کلو اور پالک دو سو ین کی پائو ملتی ہے... لیکن اب پاکستان میں بھی سبزیوں کی قیمتوں کو وہ ''آگ‘‘ لگی ہے کہ سننے والے کے تن بدن میں بھی آگ لگ جاتی ہے... ٹماٹر تین سو روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے... پیاز سینچری بنا چکا ہے اور اب بھی چوکے چھکے مار کر سکور بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہے... اسی طرح ادرک‘ لہسن‘ دھنیا اور مرچیں بھی چھلانگیں لگا رہی ہیں۔
اسی سال رمضان المبارک میں پھلوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف حکومت تو حرکت میں نہیں آئی‘ لیکن سوشل میڈیا پر ''فروٹ بین‘‘ کی بھرپور اور کامیاب مہم چلائی گئی... پاکستانیوں کو تین دن تک پھلوں سے دور رہنے کا کہا گیا... ''ڈیمانڈ اینڈ سپلائی‘‘ کا فارمولا بری طرح متاثر ہوا‘ اور پھر پھلوں کی قیمتیں ساتویں آسمان سے زمین کی جانب آنے لگیں۔ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی یہ مہم پورے پاکستان میں زور پکڑ گئی اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں لوگ پھلوں کی بے تحاشا قیمتوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔ بہت سے لوگ اس تین روزہ مہم میں شامل ہوئے۔ مہم شروع کرنے کے پیچھے بنیادی سوچ یہ تھی کہ یورپی ملکوں کی مثالیں تو دی جاتی ہیں‘ لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کس طرح وہاں کی عوام یکجا ہو کر اپنے حقوق کی لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب وہاں مہنگائی ہوتی ہے وہ لوگ اس چیز کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں تاکہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے افراد اور منافع خوروں کو نقصان پہنچے جس سے تنگ آ کر وہ اشیا کی قیمتیں معمول پر لے آئیں۔ ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔ بس پھر تین روزہ مہم کے دوسرے روز ہی پھل فروش ''مکھیاں مارتے‘‘ نظر آئے۔ قیمتوں کو عوام نے خود کنٹرول کیا اور رمضان المبارک کا ایک عشرہ بخیر و خوبی گزرگیا۔
چونکہ ہماری حکومت سبزیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی بجائے ایک شخصیت کو بچانے کی کوششیں کرتی رہی... اسی کی صدارت بچانے کے لئے چالاکی سے بل سینیٹ سے منظور کراتی رہی... احتساب عدالت میں پیشیوں کے لئے ''ہٹو بچو‘‘ کی آوازیں لگاتی رہی... اس لئے انہیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ عوام تین سو روپے فی کلو ٹماٹر کھانے پر مجبور ہیں۔ میڈیا روزانہ خبریں دکھاتا اور شائع کرتا رہا کہ زمین کے نیچے پیدا ہونے والی سبزیوں کی قیمتیں آسمان کی جانب جا رہی ہیں لیکن تمام حکومتوں نے سر پر اتنا تیل لگا رکھا تھا کہ کان پر رینگنے کی کوشش کرنے والی جوں بھی ''سلپ‘‘ ہو کر اِدھر اُدھر گر رہی تھی۔ تمام ذمہ داری پھر سوشل میڈیا کے ''نازک‘‘ کاندھوں پر آن پڑی... ایک اور ''بائیکاٹ مہم‘‘ شروع کی گئی۔ سوشل میڈیا پر مہم کے بائیکاٹ کی تجویز کے بعد کسی دل جلے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ''دو ہفتوں تک کھانوں میں ٹماٹر استعمال نہ کریں‘‘... کسی نے کہا کہ ''دہی کا استعمال کریں‘‘... لیکن یہ نہیں بتایا کہ اگر دہی کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں تو پھر کیا کیا جائے۔
ہمارا مقابلہ ایک سبزی خور قوم سے ہے... لیکن بھارت میں سبزیاں اتنی مہنگی نہیں ہیں۔ بھارت میں گندم پانچ روپے کلو ہے... چاول 6 روپے‘ دال چنا سات روپے اور چینی بیس روپے کلو ملتی ہے۔ بھارت سے آنے والے مسلم شہری بتاتے ہیں کہ پاکستان کی نسبت بھارت میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہاں بکرے اور مرغی کا گوشت سستا ہے۔ دودھ‘ دہی ارزاں قیمتوں پر عوام کو وافر مقدار میں دستیاب ہیں... گھر گھر‘ گلی گلی‘ محلوں میں کھانے پینے والی چیزوں بالخصوص آٹے‘ چاول‘ دالوں‘ گھی وغیرہ کے ڈپو کھلے ہوئے ہیں جبکہ سبزیاں‘ھل انتہائی سستے ہیں۔ حکومت اربوں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ کیونکہ بھارت میں وزیر خزانہ بھی ہے قانون بھی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ کرپشن وہاں بھی ہوتی ہے لیکن وہاں کے ''لٹیرے وزرائ‘‘ پیسہ اپنے ملک میں ہی رکھتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کرکے باہر نہیں لے جاتے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوٹ مار ہوتی ہے۔ احتساب کے ادارے انہیں پکڑ نہیں سکتے... ان کے پر جلتے ہیں... نوکریاں بچانا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے... پیسہ باہر چلا جاتا ہے... ڈالر اوپر اور روپیہ نیچے آ جاتا ہے۔ کرنسی کی حالت دیکھ کر کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہماری کرنسی بھی ملکی معیشت کا آئینہ ہے۔ جس ملک کے وزیرِ خزانہ کے اپنے اکائونٹس ''فریز‘‘ ہوں‘ وہ ملک کے اکائونٹس کیسے چلا سکتا ہے؟ ہمارے سیاستدانوں نے بیرون ممالک سرے محل‘ مے فیئر فلیٹس‘ ایچ ڈی ایس ٹاور سمیت دیگر پراپرٹیز ضرور بنائیں... لیکن ان کے پاس ان پیسوں کا جواب نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی؟۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال پندرہ مارچ کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے... آج سے پچپن سال قبل پندرہ مارچ کو اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے صارفین کے حقوق کی بات امریکی کانگریس میں کی گئی۔ اس وقت عوام کو اس سلسلے میں چار بنیادی حقوق دیے گئے تھے۔ بعد ازاں اس میں مزید چار نکات کا اضافہ کیا گیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ سندھ میں صارف کے حقوق کے تحفظ کا قانون تو تقریباً دو سال پہلے بن گیا تھا لیکن عدالتیں اب تک نہ بن سکیں۔ سندھ اسمبلی نے ڈھائی سال قبل صارف تحفظ قانون کی منظوری دی۔ قانون کے تحت کسی کمپنی کی مصنوعات کے معیار سے متعلق شکایت کی صورت میں صارف اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ عدالت سے تحریری طور پر رجوع کر سکتا ہے۔ شکایت درست ہو تو عدالت کمپنی کو خریدی گئی شے تبدیل کرنے، پیسے واپس کرنے یا پھر تمام قانونی کارروائی کا خرچہ اٹھانے کا حکم دے سکتی ہے۔ اس قانون کو تو بنے تقریباً دو سال ہو گئے لیکن صارف کو انصاف دلانے والی عدالتیں کب بنیں گی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ پنجاب میں صارف عدالتیں کام کر رہی ہیں‘ لیکن سندھ اور خصوصاً کراچی کے صارف کو اس کا حق کیوں نہیں مل رہا؟... شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صارفین کے حقوق کے لیے قانون پہلی بار بے نظیر بھٹو صاحبہ نے انیس سو پچانوے میں متعارف کروایا تھا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پھل اور سبزی کا اصل ریٹ تو ''منڈی‘‘ میں بنتا ہے جہاں کسان خون پسینے سے سینچی ہوئی فصل پھل فروش کو بیچتا ہے... اس مہنگائی کا ذمہ دار بھلے جو بھی ہو، کسان، پھل فروش یا حکومت... ہر صورت میں خمیازہ عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے... ہم ایٹمی قوت ضرور ہیں لیکن پیاز ایران سے ٹماٹر افغانستان سے اور دیگر سبزیاں غیر ایٹمی ممالک سے منگوانے پر مجبور ہیں۔