ہر جمہوری ملک کی پارلیمنٹ میں مختلف پارٹیاں ہوتی ہیں‘ جن میں سے ایک یا ایک سے زیادہ جماعتیں آپس میں ملی جلی حکومت قائم کر لیتی ہیں جسے اتحادی حکومت کہا جاتا ہے۔ باقی رہ جانے والی جماعتیں فطری طور پر برسر اقتدار جماعت سے اصولی اختلاف رکھتی ہیں۔ ان کا کام حکومتی پالیسیوں پر اعتراض کرنا ہوتا ہے۔ وہ حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتی بھی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو حزبِ اختلاف یا اپوزیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مغربی سیاست میں اپوزیشن کو بھی اتنی ہی ذمہ دار جماعت خیال کیا جاتا ہے جتنا کہ برسر اقتدار جماعت کو۔
پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہاں اپوزیشن کو حکومت کا دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں اپوزیشن کا متحد ہونا سورج مغرب سے نکلنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کو ''متحدہ اپوزیشن‘‘ بنانے کی کوشش ضرور کی، البتہ وہ کوشش کتنی کامیاب ہوئی‘ اس کا اندازہ 17 جنوری کو لاہور میں مال روڈ کے جلسے سے لگایا جا سکتا ہے۔ شرکا کی تعداد نے اپوزیشن کے اتحاد کا پول کھول دیا۔ عوامی تحریک‘ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی درجنوں جماعتیں مل کر بھی اپنے کارکنوں کو جلسہ گاہ تک نہ لا سکیں۔ اس سے زیادہ عوام عمران خان اور نواز شریف کے جلسوں میں نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹائیگرز نے پیپلز پارٹی کو قبول نہیںکیا تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے طاہر القادری کو ''لفٹ‘‘ نہیں کرائی۔ ایک دل جلے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ''اتنے کارکن بھی نہیں تھے جتنے لیڈرز سٹیج پر موجود تھے‘‘۔ سٹیج بھرپور اور پنڈال خالی تھا۔ سٹیج پر تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جبکہ مال روڈ پر تلوں کی بوریاں رکھی جا سکتی تھیں۔ اور اس طرح غضب‘ انتقام‘ احتساب‘ انقلاب اور انصاف کی ہوا سے بھرپور غبارہ مال روڈ پر پھٹ گیا۔ جس 17 جنوری کا سب کو انتظار تھا، جس احتجاج نے پنجاب حکومت کی نیندیں اڑا رکھی تھیں، جس احتجاج سے شہباز شریف راتوں کو سو نہیں پا رہے تھے، جس احتجاج نے رانا ثنا اللہ کو مونچھوں کو تائو دینا بھلا دیا تھا، جس احتجاج کی وجہ سے پنجاب حکومت نے عدلیہ کے پائوں پکڑ لئے تھے کہ ''ہمیں ان سے بچائو‘‘، وہ احتجاج نہ صرف پانی کا بلبلہ ثابت ہوا بلکہ اتنے ہلکے پھلکے اجتماع نے پنجاب حکومت اور مسلم لیگ ن کو ذہنی سکون فراہم کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے اس احتجاج کی ناکامی تحریک انصاف کے لئے ضرور فائدے مند ثابت ہوئی۔ عمران خان نے آصف زرداری کو کئی بار سب سے بڑی بیماری قرار دیا ہے‘ جو آئندہ الیکشن میں ان کا سندھ میں ''انتخابی منشور‘‘ بھی لگتا ہے۔ اگر وہ ایک ہی سٹیج پر اُسی آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تصویر بنوا لیتے تو ان کو ووٹ دینے کا منصوبہ بنانے والے عوام بھی اسی تصویر کو بیلٹ پیپر پر چھاپ دیتے۔ اس طرح ووٹ ریورس ہو کر پیپلز پارٹی کے ''بیلٹ بکس‘‘ میں چلا جاتا۔ عمران خان کو ان کے خاص مشیروں سے زیادہ میڈیا کے اینکرز نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں آصف زرداری کے ساتھ نہ بیٹھیں۔ اس کا پورا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ لاہور احتجاج کا پہلا نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اسی صورت بڑھ سکتا تھا کہ عمران خان اور آصف زرداری ایک ہی سٹیج پر ایک ساتھ کھڑے ہوتے، لیکن شاید تحریک انصاف کے ''تھنک ٹینک‘‘ کو بہت پہلے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کہیں تحریک انصاف کے ساتھ بھی ''سیاسی سانحہ ماڈل ٹائون‘‘ نہ ہو جائے۔ اسی لئے عمران خان نہ صرف آخر میں آئے بلکہ انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، جس کی ابتدا شیخ رشید نے کی تھی۔ جس وقت عمران خان پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے تھے اس وقت سٹیج پر موجود پیپلز پارٹی کی پوری قیادت صبر کے کڑوے گھونٹ پی رہی تھی۔
شیخ رشید نے استعفیٰ کا اعلان کیا‘ پارلیمنٹ پر لعن طعن کی‘ حکومت پر گرجے برسے‘ عمران خان کو جاتی امرا جانے کا مشورہ دیا اور طاہر القادری کے ''مین آف دی میچ‘‘ بن گئے۔ پھر عمران خان اُن سے کیسے پیچھے رہتے۔ انہوں نے بھی پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی، لیکن عمران خان اس معاملے میں جلد بازی کر گئے۔ شیخ رشید اور ان میں بہت فرق ہے۔ انہیں اس بات کو بخوبی سمجھنا چاہیے۔ عمران خان جب بولتے ہیں تو دیگر سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کار انہیںکئی دن تک ''تولتے‘‘ رہتے ہیں۔ اب تو قومی اسمبلی میں عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔ یہاں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جس پارلیمنٹ سے عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں‘ کیا انہیں اسی کو گالیاں دینی چاہئیں یا نہیں؟ عمران خان کو اس بات کا جواب بھی دینا ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ کیوں نہیں دے رہے؟ ان کو کون روک رہا ہے؟ کیا خیبر پختونخوا اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ نہیں؟ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا قانون بنانے میں کون کون شامل تھا؟
اپوزیشن کے ''ناکام شو‘‘ پر حکومت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ لاہور میں احتجاج میڈیا پر زیادہ اثر نہ چھوڑ سکا اور اب سانحہ ماڈل ٹائون سے زیادہ توہینِ پارلیمنٹ پر بحث ہو رہی ہے۔ شیخ رشید کا یہ کمال ہے کہ وہ مثبت یا منفی‘ خبروں میں رہنا جانتے ہیں۔ ان کی اسی خوبی یا خامی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) پریشانی سے دوچار رہتی ہے۔ اور وہ اکیلے پوری (ن) لیگ پر بھاری پڑتے ہیں، لیکن اب دو چار دن انہیں میڈیا پر بھی سخت سوالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ اور پھر سب بھول بھال کر اپنے کام کاج میں لگ جائیں گے۔
لاہور میں احتجاج کے اثرات کراچی کی جماعتوں پر بھی پڑے ہیں۔ جہاں ایک جانب پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال جلسے سے خطاب کرنے میں کامیاب رہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کے ساتھ‘ سکول میں دیر سے آنے والے بچوں جیسا سلوک کیا گیا۔ فاروق ستار کو تاخیر سے آنے پر خطاب سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ طاہر القادری نے ایم کیو ایم پاکستان کو ''دُہرا معیار‘‘ رکھنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ کراچی سے باہر اور خاص طور پر پنجاب میں ہونے والی سیاسی تقریبات اور جلسوں میں ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کی نمائندگی کرنی چاہیے لیکن شاید فاروق ستار بھول گئے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے ووٹوں کے بدلے ابھی تک 25 کروڑ روپے کا ''سستا کراچی پیکج‘‘ نہیں ملا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حیدر آباد کا زونل آفس کھلنے کی وجوہات اب سمجھ میں آ رہی ہیں جبکہ کراچی میں بھی ایم کیو ایم کے کئی دفاتر بہت جلد کھلنے والے ہیں۔ کراچی کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ جلسے میں ایم کیو ایم پاکستان کا جلدی جانا ''مہاجر کاز‘‘ کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ مصطفی کمال کو ''مہاجر ووٹ‘‘ کی ضرورت نہیں‘ اسی لئے وہ پنجاب میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عوامی تحریک‘ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی درجنوں جماعتیں مل کر بھی اپنے کارکنوں کو جلسہ گاہ تک نہ لا سکیں۔ اس سے زیادہ عوام عمران خان اور نواز شریف کے جلسوں میں نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹائیگرز نے پیپلز پارٹی کو قبول نہیںکیا تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے طاہر القادری کو ''لفٹ‘‘ نہیں کرائی۔ ایک دل جلے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ''اتنے کارکن بھی نہیں تھے جتنے لیڈرز سٹیج پر موجود تھے‘‘۔ سٹیج بھرپور اور پنڈال خالی تھا۔ سٹیج پر تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جبکہ مال روڈ پر تلوں کی بوریاں رکھی جا سکتی تھیں۔