"ISC" (space) message & send to 7575

عہدِ یوسفی کا ’’انتقال‘‘!!

عہدِ یوسفی اپنے اختتام کو پہنچا۔ کس نے سوچا تھا کہ ایک بینکر پورے ملک میں مسکراہٹیں بکھیرتے بکھیرتے راج کرنے لگے گا۔ مشتاق یوسفی مزاح کا وہ پروفیسر تھا‘ جس نے طنز خود پر اور مزاح دوسروں پر لکھا۔ ایک مزاح نگار نے لکھا تھا کہ '' نسوار ایسا نشہ ہے جسے کرنے کے لئے بندے کا نشے میں ہونا ضروری ہے‘‘... یوسفی صاحب نے جو کچھ لکھا اتنا لکھنے کے لئے بھی بندے کا ''پاگل‘‘ ہونا ''فرض‘‘ ہو جاتا ہے۔
یوسفی صاحب کی پہلی تحریر آج کل کے کاغذاتِ نامزدگی کی طرح مسترد ہو چکی تھی۔ یہ 1955ء کی بات ہے‘ جب مشتاق یوسفی نے ادبِ لطیف نامی رسالے کو '' صنفِ لاغر‘‘ کے عنوان سے تحریر بھیجی تھی... اور پھر یہی تحریر حنیف رامے نے اپنے رسالے میں شائع کی۔ اس مضمون کے چھپنے کی دیر تھی کہ ہر طرف یوسفی ہی یوسفی ہو گیا۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے تحریروں کی ''بارش‘‘ کر دی۔ دیگر رسالے بھی تحریرِ یوسفی کے بغیر ادھورے سے لگنے لگے۔ پانچ‘ چھ سال بعد یہ تمام مواد ایک کتاب کی شکل اختیار کر گیا جس کا نام ''چراغ تلے‘‘ رکھا گیا۔ اردو ادب کے لئے ''چراغ تلے‘‘ ایک انوکھا تجربہ تھا... مشتاق یوسفی نے ''فلسفیانہ مزاح‘‘ کی بنیاد رکھی... وہ سطحِ عمومی سے بہت بلند ہو کر مزاح لکھتے تھے۔ اس سے قبل کئی مزاح نگار اپنے رنگ اور ڈھنگ میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں... لیکن مشتاق یوسفی اس کنڈیکٹر کی طرح ثابت ہوئے جو بھری ہوئی بس میں ایک دروازے سے چڑھتا ہے اور سب سے کرایہ وصول کر کے دوسرے دروازے سے اتر جاتا ہے۔ ''چارپائی اور کلچر‘‘ جیسی تحریر آج بھی اتنی ہی تروتازہ لگتی ہے جتنی ''پیدائش‘‘ کے وقت تھی... ''چراغ تلے‘‘ کے بعد رسائل و جرائد ''مشتاق یوسفی‘‘ سے محروم ہو گئے اور یوسفی کتابوں کی دنیا میں چلے گئے... آٹھ‘ نو سال بعد ان کی دوسری کتاب ''خاکم بدہن‘‘ نے بھی دھوم مچا دی... ان کی تحریریں بھی ان کی طرح ''جوانی‘‘ کے جوبن پر پہنچ چکی تھیں... یہ کتاب ایوارڈ کی بھی حق دار ٹھہری۔
مشتاق یوسفی کی کتابیں اُس زمانے میں آج کے معروف بھارتی ہدایت کار راج کمار ہیرانی کی فلموں کی طرح تھیں... ایک کتاب کی تیاری میں چھ سے سات سال کا عرصہ بھی اسی طرح لگتا تھا جیسے آج ہیرانی کی فلموں میں لگتا ہے... معیار وقت کا محتاج ہوتا ہے... ''زرگزشت‘‘ کے بعد ''آب گم‘‘ کو آنے میں تیرہ سال کا عرصہ لگ گیا... اس طرح یوسفی صاحب چار کتابوں کے ''مالک‘‘ بنے... یہ کتابیں آج بھی ادبی دنیا میں ''راج‘‘ کر رہی ہیں۔
کم لوگ جانتے ہیں کہ مشتاق احمد یوسفی کا اصل نام مشتاق احمد یوسف زئی تھا... قصہ کچھ یوں ہے کہ ان کے والد عبدالکریم یوسف زئی بھارتی شہر جے پور سے کسی کام کے سلسلے میں پشاور آئے تو انہوں نے وہاں اپنا تعارف یوسف زئی پٹھان کے طور پر کرایا تو مقامی لوگ ہنس دیے... کیونکہ عبدالکریم کا خاندان قبائلی علاقہ چھوڑ کر کئی صدیاں قبل ریاست راجستھان میںجا کرآباد ہو گیا تھا... وہ شکل و صورت‘ زبان‘ لہجے اور چال ڈھال میں مکمل طور پر مارواڑی روپ میں ڈھل چکے تھے... عبدالکریم یوسف زئی جے پور کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے۔ انہوں نے اس واقعے سے دل برداشتہ ہو کر اپنا نام ہی یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈال... اور پھر جو بچہ پیدا ہوا وہ یوسف زئی نہیں بلکہ یوسفی تھا۔
مشتاق یوسفی کی ہجرت کا واقعہ بھی دلچسپ ہے... جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوا تو ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے... 1950ء میں مشتاق یوسفی نے بوریا بستر باندھا اور کھوکھرا پار عبور کر کے کراچی آ گئے... اس کی وجہ انہوں نے کچھ یوں بتائی کہ ''جون 1949ء میں حکام نے طے کیا کہ اردو سرکاری زبان نہیں رہے گی۔ بس پھر اس کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا کہ ہم کام نہیں کریں گے‘‘... کراچی آ کر وہ سول سروس کی بجائے مسلم کمرشل بینک سے منسلک ہو گئے... 1974ء میں یونائٹیڈ بینک کے صدر مقرر ہوئے... بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے... 1990ء میں ریٹائر ہو کر کراچی آ بسے اور قبرستان کا آخری سفر بھی کراچی سے ہی طے کیا۔
مشتاق یوسفی کی تحریروں کے بغیر اس تحریر کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی‘ اس لئے ان کے شگفتہ جملے بھی پیش خدمت ہیں۔ 
مشتاق یوسفی لکھتے ہیں 
''میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر وہ خود ہی حالات حاضرہ کا ذمہ دار ہے۔
اندرونِ لاہور کی چند گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے مرد اور دوسری طرف سے عورت گزر رہی ہو تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش رہ جاتی ہے۔
جو اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھنا چاہتا وہ یقیناً لوفر رہا ہو گا۔
سمجھدار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔
مجھے اس پر قطعی تعجب نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں سے کرتے ہیں۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے ہو جاتے ہیں۔
بناؤ سنگھار ہر عورت کا حق ہے، بشرطیکہ وہ اسے فرض نہ سمجھ لے۔
بڑھیا سگریٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کر دینے کا جی چاہتا ہے، خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
ایک فرنچ ادیبہ کیا خوب کہہ گئی ہیں کہ میں آدمیوں کو جتنے قریب سے دیکھتی ہوں اتنے ہی کتے اچھے لگتے ہیں۔
موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی، تفریحی مشغلہ رہا ہے۔
مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں، عورتیں پہلے لڑتی ہیں، پھر بحث کرتی ہیں مجھے ثانی الذکر طریقہ زیادہ مقبول نظر آتا ہے، اس لئے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ ''کافی‘‘ لگی ہوئی۔
بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔
آپ نے بعض میاں بیوی کو ہوا خوری کرتے دیکھا ہو گا... عورتوں کا انجام ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ہوا خور‘ رفتہ رفتہ ‘حوا خور‘ ہو جاتے ہیں۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔
اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔
مزاح‘ مذہب اور الکحل ہر چیز میں باآسانی حل ہو جاتے ہیں۔
ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔
جب نور جہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار خصم گیں نگاہوں سے دیکھا۔
صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔
مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہو گئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے، لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہو گیا تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں