"ISC" (space) message & send to 7575

انتخابی پوسٹ مارٹم

عام انتخابات ہو گئے۔ کئی برج الٹ گئے۔ کئی ہیرو زیرو اور کئی زیرو ہیرو بن گئے۔ بڑے بڑے نام پارلیمنٹ سے ہی باہر ہو گئے۔ جن میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی‘ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو‘ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی‘ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن‘ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق‘ فاروق ستار‘ چوہدری نثار‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ سعد رفیق‘ عوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشید دستی‘ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال‘ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد‘ سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری اوردیگر شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ کچھ پارٹیوں اور امیدواروں کے پیچھے مخصوص طاقتیں تھیں۔ پیپلزپارٹی جی ڈی اے جبکہ ایم کیو ایم پی ایس پی کو اسی طاقت کی جماعت قرار دیتی رہی‘ لیکن نتائج نے سب کو خاموش کرا دیا۔ چوہدری نثار اب تک منظرعام پر ہی نہیں آئے۔ مصطفی کمال بھی میڈیا سے دور ہوگئے۔ جیپ والے تو کہیں ''غائب‘‘ ہی ہوگئے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے پاس بھی کہنے کیلئے کچھ نہیں بچا‘ کیونکہ کئی عوامل سامنے آرہے ہیں۔ کوئی دھاندلی کا الزام لگا رہا ہے‘ تو کوئی دھڑے بندی کو شکست کا سبب بتا رہا ہے۔ غلام احمد بلورنے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم کی لیکن اسفند یارولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ محمود اچکزئی‘ سراج الحق اوردیگر رہنما نتائج ماننے کوتیار نہیں۔
2018ء کے انتخابات نے سب سے زیادہ کراچی کو متاثر کیا۔ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی جماعت تھی جو اس بار قومی اسمبلی کی صرف چار نشستیں حاصل کر سکی۔ تحریک انصاف کراچی سے 13 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ووٹروں کے ٹرن آئوٹ‘ فاتح اور دوسرے نمبر کی جماعت کے حاصل کردہ ووٹ دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ کراچی کے ووٹ آخر گئے کہاں؟ ایک‘ ایک لاکھ ووٹوں سے جیتنے والے امیدوار صرف پینتیس‘ چالیس اور پچاس ہزار ووٹ لے کر ہی کامیاب کیسے ہوئے۔ اس کالم میں کراچی کے دو حلقے کھولے جا رہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخر کراچی کا جو ووٹر نکلا اس نے ووٹ ڈالا بھی‘ لیکن وہ ووٹ آخر گیا کہاں؟
سب سے پہلے بات کریں گے ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد کی جہاں یہ بات ثابت تھی کہ اگر بانی ایم کیو ایم کھمبے کو ٹکٹ دیتے تو وہ بھی جیت جاتا‘ لیکن تیس سالہ مسلسل فتوحات کے بعد اب ایم کیو ایم یہاں سے آئوٹ ہو چکی ہے۔ اس حلقے کے فاتح امیدوار تحریک انصاف کے نجیب ہارون ہیں‘ جو تقریباً 90 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں ان سے مقابلہ ایم کیو ایم کے عامر چشتی نے کیا‘ جو 45 ہزار پانچ سو کے قریب ووٹ لے سکے۔ 2013ء میں اسی حلقے سے سردار نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار ووٹ لئے تھے‘ اور ان کے مقابل تحریک انصاف کے عامر شرجیل بغیر کسی انتخابی مہم کے 32 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے‘ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے بانی ایم کیو ایم کو پریشانی لاحق ہوئی کہ ایم کیو ایم کے گڑھ سے وہ امیدوار دوسرے نمبر پر تھا جس کانام بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کو جو ووٹ پڑاوہ صرف انتخابی نشان کے لئے تھا۔ بلّا مہاجر ووٹ لینے میں کامیاب ہوا۔ یہ وہ ووٹ تھا جو ایم کیو ایم کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے غصے میں تحریکِ انصاف کو پڑا تھا۔
2013ء میں جماعت اسلامی نے اسی حلقے سے 10 ہزار‘ پیپلزپارٹی نے 1700 ووٹ لئے تھے۔ 2013ء میں یہاں دولاکھ ووٹ پڑے جس میں سے 15ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ اب بھی اس حلقے میں پھر تقریباً دو لاکھ ووٹ پڑے۔ ٹرن آئوٹ 41 فیصد رہا۔ 3100 ووٹ مسترد ہوئے‘ لیکن کامیاب امیدوار تحریک انصاف کے نجیب ہارون کو 89 ہزار 890ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے عامر چشتی ساڑھے 45 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ باقی ووٹ کہاں گئے؟ اس کا جواب انتہائی دلچسپ ہے۔ جس طرح ایم کیو ایم تقسیم ہوئی‘ اس کا ووٹ بھی اسی طرح بٹ گیا۔ صرف تحریک انصاف نے ہی ووٹ نہیں لیا بلکہ یہاں سے 6 اور جماعتیں بھی ایم کیو ایم کا ووٹ ''کاٹنے‘‘ کے لئے موجود تھیں۔ جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل کی صورت میں یہاں سے 22 ہزار سے زائد ووٹ لئے۔ مسلم لیگ ن 9ہزار سے زائدووٹ لے کر چوتھے‘ تحریک لبیک پاکستان 9 ہزار 144 سے زائد ووٹوں کے ساتھ پانچویں‘ پاک سرزمین پارٹی 9 ہزار 30 ووٹ لے کر چھٹے‘ پیپلز پارٹی ساڑھے سات ہزار ووٹوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی عزیز آباد سے ڈھائی ہزار ووٹ لئے‘ یعنی ایم کیو ایم کے ''منقسم ووٹ بینک‘‘ پر عزیز آباد جیسے علاقے میں آٹھ سیاسی جماعتوں نے دھاوا بول دیا۔ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی تو یہاں پہلے بھی تھیں‘ لیکن باقی جماعتوں نے مہاجروں کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا‘ اور نتیجہ یہ نکلاکہ دولاکھ ووٹ آٹھ جماعتوں سمیت کئی آزاد امیدواروںمیں تقسیم ہوگئے۔
کراچی کا دوسرا حلقہ لیاری کا ہے‘ جہاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول کو ناصرف شکست ہوئی بلکہ وہ دوسرے نمبر پر بھی نہ آ سکے۔ اس حلقے سے 2013ء میں پیپلزپارٹی کے امیدوار اور لیاری امن کمیٹی کے حلف یافتہ شاہجہان بلوچ 84 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے مدِمقابل تحریک انصاف کے سبحان علی ساحل بغیر کسی انتخابی مہم کے 26 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ جے یو آئی (ف) نے نو ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسری جبکہ غنویٰ بھٹو صرف 527 ووٹ ہی لے سکیں۔ 2013ء میں اس حلقے میں ایک لاکھ 34 ہزار کے قریب ووٹ پڑے تھے‘ جبکہ 2018ء میں اس حلقے میں دو لاکھ سے زائد ووٹ ڈالے گئے۔ اس بار یہاں سے مقابلے میں 9 سیاسی جماعتیں تھیں‘ جن میں سے تحریکِ انصاف کے شکور شاد 52 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے‘ جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک لبیک پاکستان 42 ہزارسے زائد ووٹ حاصل کئے۔بلاول 39 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ متحدہ مجلس عمل 33 ہزار ووٹوں کے ساتھ چوتھے‘ مسلم لیگ ن 19 ہزار ووٹ لے کر پانچویں‘ ایم کیو ایم 9 ہزار 8 سو ووٹ لے کر چھٹے‘ پاک سرزمین پارٹی 3 ہزار 2 سو ووٹ لے کر ساتویں‘ عوامی نیشنل پارٹی 772 ووٹوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہیں۔ حیرت انگیز طور پر لیاری سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جماعت پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی‘ گلوکار جواد احمد کی برابری پارٹی پاکستان اور جی ڈی اے پانچ سو ووٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے انتخاب نہیں لڑنا چاہتے تھے‘ لیکن انہیں غلط وقت میں غلط علاقے سے لڑا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی ''پاپولر ووٹ‘‘ کے ذریعے الیکشن جیتنا چاہتی تھی لیکن ناکامی کی وجہ صرف پانی کا مسئلہ تھا۔ اگر پیپلز پارٹی لیاری کو پانی ہی فراہم کر دیتی تو بلاول بھی منتخب ہوتے اور لیاری پی پی کے پاس ہی رہتا۔ 
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں مہاجر ووٹ کو تحریک لبیک نے بھی بڑا ڈینٹ ڈالا اور اس کا مجموعی فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا۔ سات لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے نہ صرف 2013 والی تحریک انصاف کی یاد تازہ کردی‘ بلکہ حالیہ انتخابات میں تحریک لبیک شہر کی روایتی مذہبی جماعتوں سے بھی آگے نکل گئی۔
جولائی کا مہینہ عام انتخابات کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ 1970ء کا واحد الیکشن شفاف تو قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے بھی نتائج قبول نہیں کئے گئے۔ اب تک دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہاں تک کہ عمران خان نے 126 دن کا دھرنا دیا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا‘ اور پھر سانحہ آرمی پبلک سکول کی وجہ سے وہ دھرنا خود ہی ''ایکسپائر‘‘ ہوگیا۔ نواز شریف کو ''پاناما‘‘ کی وجہ سے پہلے گھر اور پھر جیل جانا پڑا۔ دھاندلی کے خلاف ملکی تاریخ میں صرف ایک ہی تحریک کامیاب ہوئی جو بھٹو حکومت کے تحت ہونے والے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ تحریک پر قابو پانے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کو فوج سے مدد طلب کرنا پڑی‘ لیکن معاملات نہ سنبھل پائے اور بالآخر 5 جولائی 1977ء کا واقعہ سامنے آ گیا۔ لیکن 1977ء اور 2018ء میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اس وقت تحریک کی حمایت میں وہ سب کچھ ہوا جو اب حکومت کی حمایت میں ہو سکتا ہے اس لئے امکان ہے کہ یہ تحریک بھی ناکام ہوجائے اورتمام نومنتخب پارلیمنٹیرنز کوپرانی تنخواہ سے بھی کم پر ہی‘ کام کرنا پڑے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں