"IYC" (space) message & send to 7575

کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف لندن کے ایون فیلڈز فلیٹس میں پہنچ گئے۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جن کے قصے ہماری سیاست میں زبان زد عام ہیں اور نواز شریف ان فلیٹوں کا حساب دیتے دیتے وزارت عظمیٰ کے منصب سے جیل جا پہنچے تھے۔ لندن کے فلیٹوں کا حساب مانگنے والے اقتدار میں آئے تو این آر او نہ دینے کے اعلانات کرتے رہے، روز کہا جاتا رہا، گھبرانا نہیں، لٹیرے رقم واپسی کے لیے تیار ہیں، بس اپنے نام سے جمع کروانے پر آمادہ نہیں، کسی دوسرے ملک اور کسی شاہی خاندان کی طرف سے رقم آنے والی ہے‘ خزانے بھرنے کو ہیں، آپ نے گھبرانا نہیں، بس خوشحالی آنے کو ہے۔
نواز شریف کو عدالت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو این آر او اور ڈاکوؤں کو فرار کا راستہ نہ دینے کے دعویدار بوکھلائے بوکھلائے نظر آئے۔ دو وزیروں نے تو اس عدالتی فیصلے کو کامیابی قرار دے ڈالا جبکہ باقی حیران پریشان کابینہ اس نئے بیانیے کے ساتھ خود کو کھڑی نہ کر سکی، فواد چوہدری نے ہمت دکھائی اور ان وزیروں کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے پوچھا کہ بھائی اس میں کس کی فتح ہے اور کیسے ہے؟
وزیراعظم دو دن کی چھٹی کے بعد مانسہرہ میں موٹروے کا افتتاح کرنے نمودار ہوئے تو غصے سے بھرے ہوئے تھے، اپوزیشن کے ہر قابل ذکر رہنما کا نام لے کر اسے لتاڑا، بلاول بھٹو زرداری کی نقل اتاری اور پھر رخ عدلیہ کی طرف کر لیا۔ عمران خان نے معزز جج صاحبان کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ اور آنے والے چیف جسٹس جناب گلزار احمد صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ ملک کو انصاف دے کر آزاد کریں 'طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ قانون کا تاثر ختم ہونا چاہئے‘ حکومت اس سلسلے میں عدلیہ کی بھرپور مدد کرے گی۔
مقتدرہ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے دعووں کے بعد عدلیہ کو بھی اس صفحے پر لانے کی کوشش کو عدالتیں کس نظر سے دیکھ رہی ہیں، اس کا تو علم نہیں لیکن یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے ستون ہیں لیکن انہیں اکٹھا کرنا انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے اور ایسا کوئی تاثر ملک میں عدلیہ کی ساکھ کو مجروح کر سکتا ہے۔
نواز شریف کی بیرون ملک روانگی، کپتان کے غصے اور جھنجھلاہٹ کے بعد ایک اہم خبر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا افسروں سے خطاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ نیب کا جھکاؤ ایک طرف ہے؛ تاہم اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمران جماعت بری الذمہ ہے، دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں، یکطرفہ احتساب کا تاثر دور کر دیں گے، بی آر ٹی پشاور پر سپریم کورٹ کا حکم امتناع خارج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔
ہوا کا رخ بدلنے کا ایک اور اشارہ خود کپتان کی کابینہ کی طرف سے بھی آیا اور وزیر قانون فروغ نسیم نے پریس کانفرنس میں غریب قیدیوں کے لیے عام معافی کے اعلان کے ساتھ کہا کہ آصف زرداری کی طرف سے بیرون ملک علاج کے لیے کوئی درخواست موصول ہوتی ہے تو اس پر بھی غور کریں گے۔ 
الطاف حسین حالی نے کچھ اور حالات میں کہا تھا کہ 
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی 
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی 
مولانا حالی کے اس مشورے پر عمل کیلئے کئی لوگ تیار بیٹھے ہوں گے، ایسی تیاریاں پہلی بار نہیں ہوں گی، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی بتا چکے کہ تبدیلی کی ہوا کس نے چلائی تھی اور ہوا کا رخ دیکھتے ہی کس طرح ق لیگ اور مسلم لیگ ن کی کشتیوں کے مسافر کود کر اقتدار کی طرف بڑھتے بجرے پر سوار ہو گئے تھے۔ اب ایک بار پھر اڑانیں بھری جائیں گی اور اسماعیل میرٹھی کے کہے پر عمل ہو گا:
ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل 
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے 
مولانا فضل الرحمن نے پلان بی چھوڑ کر پلان سی شروع کر دیا ہے جس کے تحت اب اضلاع کی سطح پر جلسے ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کو ناکامی کے طعنے دیئے جا رہے ہیں لیکن ان کا اعتماد دیدنی ہے۔ انڈس ہائی وے بنوں چوک کے مقام پر دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت کی جڑیں کٹ گئیں اور چولیں ہل گئیں، اب دن گنتے جاؤ ہم اسلام آباد ایسے گئے نہ ہی ویسے آئے۔ قوم کو دوبارہ الیکشن کی طرف جانا ہو گا، عوام کا ووٹ چوری کرکے حکومت چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے، ان باتوں سے حکومتیں نہیں چلتیں۔
مولانا فضل الرحمن کو یہ اعتماد کس نے دلایا؟ وقت ہی بتائے گا لیکن اگر حکومت کی معاشی کارکردگی دیکھی جائے تو لگتا ہے دن گنے جا چکے۔ ایک خبر ہے کہ گزشتہ مالی سال میں تقریباً 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے اور اتنے ہی لوگ جاری مالی سال کے اختتام تک اپنی نوکریاں کھو دیں گے۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث ملک کا متوسط طبقہ 20 فیصد متاثر ہوا ہے۔ رکی ہوئی معاشی سرگرمیوں کے باعث ملک میں متوسط طبقہ پستا جا رہا ہے۔
کوئی تبدیلی کی ہوا نہ بھی چلائے تو عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے، مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق حالات عوامی احتجاج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت کوئی تحریک نہ بھی چلائی تو عوام کے غصے کا لاوا پھٹ سکتا ہے۔ قیادت کے بغیر تحریکوں کا ایک چلن دنیا بھر میں سامنے آ رہا ہے، عراق اسی طرح کی ایک تحریک کا سامنا کر رہا ہے، اتنا ہی کہہ سکتے ہیں عبرت حاصل کرو اے عقل مندو!
ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟ آنے والے چند ہفتوں میں حالات کھل کر سامنے آ جائیں گے، تبدیلی کا نعرہ لگا کر آنے والوں نے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ تحریک انصاف کے سپورٹر بھی مایوس ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے مایوس عوام مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لائے تھے، مسلم لیگ ن کو پانامہ سکینڈل اور تبدیلی کے ہدایت کاروں نے تباہ کر کے رکھ دیا اور اب نئے پاکستان کے خواب بھی سراب بن گئے ہیں۔ اب عوام کے پاس ایک ہی سوال ہے، یہ سوال کراچی کے شاعر محبوب صدیقی، جو خزاں تخلص کرتے تھے، نے بھی کیا تھا: 
اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی 
اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے 
اب سیاسی حالات بدلنے کے اشارے ہیں لیکن یہ تبدیلیاں اگر سیاسی قوتوں اور ان دیکھی طاقتوں کا کوئی نیا سمجھوتہ ہے تو عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، سمجھوتے کی سیاست کرنے والے بھی بار بار کے تجربے کے باوجود ایسا کریں گے تو پچھتائیں گے۔ کپتان اور ان کے ساتھی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو ان سمجھوتوں اور مفاہمت کی سیاست کے طعنے دیا کرتے ہیں لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے انٹرویو سے یہ بھید اب کھل چکا ہے کہ یہ پاک باز بھی راتوں کی ملاقاتوں کے رازداں ہیں۔ سمجھوتوں اور مفاہمت کی اس کشتی کا مزہ سب لے چکے اور جب جب سمجھوتے ٹوٹے تو سیاست دانوں نے محسن نقوی کی زبان میں یہی شکوہ کیا:
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسنؔ
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے
ایک اور خبر ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا فیصلہ اٹھائیس نومبر کو سنایا جائے گا۔ فیصلہ جو بھی آئے شریک جرم رہنے والوں کے تبصرے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ پی ٹی وی حملہ کیس میں سرکاری وکیل نے عمران خان کی بریت کی درخواست کی مخالفت کے بجائے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان کو مقدمہ سے بری کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں، یہ سیاسی طور پر بنائے گئے کیسز ہیں، ان کیسز سے نکلنا کچھ بھی نہیں، صرف عدالت کا وقت ضائع ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ جو بھی اقتدار میں آئے اپنے مقدمات ختم کرانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
اس حکومت کی اب تک کی کارکردگی کے بعد بھی کوئی معاشی استحکام اور عوام کے دن بدلنے کی امید رکھتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے:
کیا کروں میں یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جھوٹی ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں