کورونا وائرس سے پہلے بھی معیشت کا حال کچھ اچھا نہیں تھا، وبا کے معاشی اثرات کے بعد تو کوئی پرسان حال نہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملک میں روزانہ تقریباً چار ہزار کورونا مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہفتہ کے روز کورونا کیسز کی تعداد پچانوے ہزار سے بڑھ گئی۔ ایسے میں حکومت بجٹ پیش کرنے کو ہے۔ وفاقی میزانیہ کا حجم کیا ہو گا؟ آمدن و اخراجات کا تخمینہ کیا ہے؟ سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کو کیا ریلیف ملے گا؟ پچھلے مالی سال میں محاصل جمع کرنے کا ہدف پورا ہوا یا نہیں؟ یہ اہم سوالات ہیں لیکن کابینہ کے اہم ارکان اور میڈیا کی توجہ اس بات پر ہے کہ کیا نیب واقعی ٹارزن بن جائے گا؟ کیا اپوزیشن کے مزید رہنماؤں کے گرد شکنجہ کسا جائے گا؟ اب ایک امریکی خاتون‘ جو صحافی ہونے کی دعویدار ہے، نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر غلیظ الزامات عائد کر دئیے ہیں۔ پہلے اس نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی کردار کشی کی کوشش کی، پیپلز پارٹی نے سخت رد عمل دیا تو خاتون الزامات کا نیا پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ گئی۔
قومی اخبارات پڑھنے کے بعد جی بجھ سا گیا، کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا، سوچا کہ ایک امریکی خاتون ہمارے معاشرے کے چہرے پر کالک پوت رہی ہے تو پاکستانی عوام کو امریکیوں کا وہ چہرہ دکھاؤں جو عام پاکستانی کو کبھی نظر نہیں آیا اور کبھی کسی نے دکھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ امریکا کی ایک خاتون صحافی کیتھرین سٹیورٹ نے ایک کتاب لکھی ہے ''دی پاور ورشپرز‘‘ یعنی اقتدار کے پجاری!!۔ اس کتاب میں کیتھرین سٹیورٹ نے رونلڈ ریگن سے ڈونلڈ ٹرمپ تک مسیحی قوم پرست تحریک کے اقتدار کے سفر کی کہانی لکھی ہے۔ امریکی الیکشن سے پہلے مارچ میں شائع ہونے والی یہ کتاب بروقت سیاسی دھماکہ ہے، جو دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کے چیمپئن اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے والے امریکا کے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
کیتھرین سٹیورٹ نے اس کتاب کے ہر باب میں الگ موضوع چنا ہے اور واضح کیا ہے کہ امریکا کے موجودہ اقتدار کے ڈھانچے میں کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر نیچے تک انتہا پسند ایونجلیکل کرسچیئن چرچ چھایا ہوا ہے، اس پیچیدہ نیٹ ورک میں پاسٹرز، پاور بروکرز، سیاست دان، تھنک ٹینک، وکلا‘ ارب پتی کاروباری، ڈیٹا مائنرز شامل ہیں اور کس طرح وہ عوام کو نام نہاد مذہبی اقدار کے مطابق ووٹ ڈالنے پر مائل کرتے ہیں۔ کیتھرین سٹیورٹ نے، جو طویل عرصہ تک قدامت پسندی پر رپورٹنگ کرتی رہی ہیں، اس کتاب میں واضح کیا ہے کہ دائیں بازو کے ایونجلیکل انتہا پسند کس طرح مذہبی آزادی کے نام پر سیاسی اقتدار اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد امریکا کے کثیر مذہبی اور کثیر نسلی معاشرے پر مبنی جمہوریت سے ہٹا کر مسیحیت کے ایک خاص نقطہ نظر پر مبنی معاشرہ اور ملک بنانا ہے۔ کیتھرین سٹیورٹ اس تحریک کو مذہبی قوم پرستی کا نام دیتی ہیں۔
مذہبی قوم پرستی تحریک کے روح رواں اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ امریکا ایک مسیحی ملک کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو اپنی راہ سے ہٹ گیا ہے، امریکا کو دوبارہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے اسے اس بنیادی مذہبی تصور پر واپس لانا ہوگا۔ اس تحریک کے نزدیک ریاست اور چرچ کو علیحدہ کرنا سیکولر جبر ہے۔ یہ تحریک ملک کو اپنے تصور کے مطابق چلانا چاہتی ہے تاکہ ان کی مراعات اور اقتدار مزید پختہ ہو، یہ سائنس کو نہیں مانتے، اور پبلک سکول سسٹم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ تحریک بائبل کی تعلیمات کا نفاذ چاہتی ہے لیکن دراصل یہ تحریک مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی اتھارٹی کی کوشش کر رہی ہے جس میں لوگ ان کی بلا چوں و چرا تابعداری کریں۔ اس تحریک کی فنڈنگ کرنے والے عام لوگ بھی ہیں جو چند ڈالر عطیہ کرتے ہیں اور بے تحاشا امیر کاروباری بھی، اس لیے یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ اس تحریک کے نظریات امیروں کے حق میں ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ بائبل انکم ٹیکس، کیپیٹل گین ٹیکس اور کم از کم اجرت کے قوانین کو تسلیم نہیں کرتی، ان کے مطابق بائبل امیر افراد پر کم ٹیکسوں اور مزدوروں کے معمولی حقوق کی ترجمان ہے۔ ان کے مطابق ماحولیات کے قوانین، کاروبار سے متعلقہ ریگولیشنز، سماجی بہبود کے لیے سرکاری فنڈز کا استعمال مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔
کیتھرین سٹیورٹ نے لکھا کہ ٹرمپ نے صدر بن کر اس انتہا پسند تحریک کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے دو قدامت پسند جج سپریم کورٹ میں تعینات کئے جس سے اعلیٰ ترین عدالت پر اس تحریک کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ ٹرمپ کی کابینہ اور انتظامیہ میں اس تحریک کے نمائندے موجود ہیں جن میں نائب صدر مائیک پنس، وزیر تعلیم بیٹسی ڈیووس اور صدر کے وکیل شامل ہیں۔ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی میں بھی قوم پرست تحریک کے کارکنوں کا اہم کردار تھا، یہ تحریک جس قدر منظم ہے اس کا ابھی امریکی معاشرے کو بھی درست ادراک نہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اس تحریک کی امریکی معاشرے کے ہر شعبے پر گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اس تحریک کے نمائندے ہیں تو ریاستی دارالحکومتوں میں بھی اس تحریک کے منتخب لوگ ہی کرتا دھرتا ہیں، سکول اور ہسپتال بھی اب اس قوم پرست تحریک کے کنٹرول میں ہیں۔ اس قوم پرست تحریک کا اہم کردار سابق باسکٹ بال کھلاڑی اور موجودہ مسیحی مذہبی لیڈر رالف ڈرولنگر ہر ہفتے وائٹ ہاؤس کے سٹاف کو بائبل کا درس دیتا ہے۔
کیتھرین سٹیورٹ کے مطابق دو ہزار سولہ کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی کے چھبیس فیصد نے اس قوم پرست تحریک کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ کیتھرین کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ یہ سب لوگ اس تحریک کے باقاعدہ رکن ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان انتہا پسند رہنماؤں کے زیر اثر ہیں اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر ووٹ دیتے ہیں اور ووٹر کو مائل کرنے میں قدامت پسند چرچ کا کرداراہم ہے۔ اس کتاب کے مطابق یہ تحریک مستقبل کی ایک عسکری تنظیم بھی ہو سکتی ہے۔
جون دو ہزار سولہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار تھے اور یہ تحریک ان کی کامیابی سے پہلے ان سے یقین دہانی اور وعدے لینا چاہتی تھی، اس مقصد کے لیے ایک ہزار ایونجلیکل لیڈروں کی ٹرمپ سے ملاقات کرائی گئی اس ملاقات میں ٹرمپ نے قدامت پسندوں کے ایجنڈے کے پوائنٹس پر کام کرنے کی یقین دہانی کرائی، جن میں سب سے اہم وعدہ چرچز پر عائد سیاسی پابندیاں ہٹانا اور قدامت پسند ججوں کا تقررتھا، اس بار الیکشن میں اس تحریک کا ہدف افریقی امریکی اور لاطینی چرچ لیڈر ہیں کیونکہ اقلیتی ووٹ ٹرمپ مخالف ہیں۔ اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے، ٹرمپ نے جنوری میں میامی میں لاطینی امریکی شہریوں کے سب سے بڑے چرچ کنگ جیزز انٹرنیشنل منسٹری میں ایک تقریب ''ایونجلیکلز فار ٹرمپ‘‘ سے خطاب کیا اور کہا کہ ان کی حکومت مذہب پسند امریکیوں کے لیے جدوجہد ترک نہیں کرے گی، ہم امریکا کی حقیقی مذہبی بنیادوں کا احیا کریں گے۔
دو ہزار سولہ کے الیکشن تک اس مذہبی قوم پرست تحریک کی جدوجہد صرف اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی کے موضوعات کے گرد گھوم رہی تھی لیکن ٹرمپ کے جیتنے سے اس تحریک کو نئی توانائی ملی اور اس کے عزائم وسیع تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔