تحریک انصاف کی حکومت اور کپتان کو بھی بالآخر وہی دن دیکھنا پڑ رہے ہیں، جو ان سے پہلے والوں کے لیے پیدا کئے گئے تھے۔ یاد رہے کہ کپتان ان نادیدہ منصوبوں اور ارادوں کے سب سے بڑے حامی تھے۔ پھر کپتان اپنے انہی سرپرستوں کی مدد سے اقتدار میں بھی آ گئے اور ملک کے وزیراعظم بن جانے والے خوش قسمتوں میں شمار ہوئے۔
آخر کپتان کو کون سے دن دیکھنا پڑرہے ہیں؟ ماضی میں زوروشور سے بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مائنس کرنے کا ایک عمل شروع کیا گیا تھا۔ نواز شریف کو مائنس کرنے کے لیے پاناما پیپرز اور اس کے نتیجے میں نااہلی کا راستہ اپنایا گیا، نواز شریف نااہل قرار پانے کے بعد بھی سیاست سے مائنس نہ ہوئے بلکہ ان کی بیٹی مریم نواز نے مشکل ترین وقت میں پارٹی کا علم بلند رکھنے میں والد کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو نوازشریف کے ساتھ وہ بھی ''مائنس راڈار‘‘ پر آ گئیں۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ نواز شریف دل تھامے لندن روانہ ہو گئے اور مریم نواز کو گھر میں محدود ہونا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی مائنس کرنے کی باتیں ہوئیں اور کہا گیا کہ وہ پارٹی ناتجربہ کار بیٹے کے حوالے کرکے خود کنارہ کش ہو جائیں تو پیپلز پارٹی کے راستے کی رکاوٹیں دور کر دی جائیں گی۔ آصف علی زرداری مائنس ہونے پر تو آمادہ نہ ہوئے لیکن چپ کا طویل روزہ رکھ کر پارٹی کو مزید مشکلات سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کو مائنس کرنے کے منصوبوں میں کپتان نے بڑھ چڑھ کر ان قوتوں کا ساتھ دیا لیکن اب ان کے بیانات سے گمان ہوتا ہے جیسے خود ان کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
بجٹ منظوری سے پہلے حکمران اتحاد کے ارکان پارلیمنٹ کو دیئے گئے عشائیہ میں کپتان نے اپنے خلاف سازش کا خود انکشاف کیا‘ لیکن ساتھ ہی کہا ''کچھ نہیں ہوگا، میرے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہے، اس لیے حکومت کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کہیں نہیں جا رہا، جو کرنا ہے ہماری حکومت نے ہی کرنا ہے۔‘‘دو دن میں حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو مسلسل نظرانداز کرنے والے کپتان قومی اسمبلی پہنچے اور ایک دھواں دھار خطاب کے ذریعے اپنی پارٹی، ووٹروں اور سرپرستوں کو پیغام دینے کی کوشش کی۔ پہلے تو مضبوط کرسی کے دعوے سے منحرف ہوئے اور ساتھ ہی خود کو مائنس کئے جانے کے منصوبے کا بھی انکشاف نما اعتراف کر ڈالا۔ کپتان نے کہا ''یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ مجھے مائنس کرکے یہ بچ جائیں گے 'میں اگر مائنس ہو بھی گیا تو ان کی جان نہیں چھوٹے گی‘ اپنے مشن پر کاربند ہوں اور اس کو مکمل کریں گے‘ ہم ہرجگہ تحقیقات کریں گے اور جنہوں نے عوام کا استحصال کیا ہے ان کے پیچھے جائیں گے۔ آج ہیں کل نہیں ہیں‘ کرسی آنی جانی چیز ہے‘ جب تک ہم نظریہ اور اصول پرقائم ہیں کوئی ہماری حکومت نہیں گرا سکتا‘‘۔
ایک طرف کپتان کے خدشات اور انکشافات ہیں تو دوسری طرف ان کی جماعت اور کابینہ کے اہم ارکان بھی مائنس ون کے خطرے کا الارم بجارہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سوشل میڈیا پر پیغام میں کہا ''مائنس عمران خان کی باتیں کرنے والو، سن لو! عمران خان مائنس ہوا تو جمہوریت بھی مائنس ہوگی‘‘۔ علی محمد خان نے جو بیان دیا ماضی میں وہ اور ان کی جماعت اس تصور کی نفی کرتے رہے ہیں اور حریف جماعتوں کے لیڈروں کو طعنے دیئے جاتے تھے کہ وہ اپنی ذات کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا تو اس حد تک جذباتی ہوئے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ پارٹی میں عمران خان کے خلاف گھٹیا سوچ رکھنے والے کو کاٹ ڈالیں گے، اس کیلئے ہمیں کپتان کو بتانے یا ان کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘۔
کپتان اور تحریک انصاف کے خدشات کو اتحادی جماعتوں کے بیانات بڑھاوا دے رہے ہیں۔ وزیر ہاؤسنگ اور مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے ''اگر مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہوں تو حکومت سے الگ ہونا کوئی جرم نہیں‘ ویسے بھی حکومت چھوڑتے ہوئے وزارت لینی نہیں دینی پڑتی ہے، جو بڑا آسان کام ہے‘‘۔
مائنس ون پر کام کرنے والوں نے ایک مجرب نسخہ دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکمران جماعت کے سکینڈل سامنے آنے لگے ہیں، حالیہ پٹرول بحران میں ایک مشیر کی کمپنی کو تیل کا ٹھیکہ دیئے جانے، سستے داموں منگوائے گئے تیل کا صرف 25 فیصد مارکیٹ کرنے اور 75 فیصد سٹاک رکھ کر قیمت بڑھانے کا نیا سکینڈل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حکمرانوں کی اپنی نااہلی سے ملک پر آنے والے آفتوں کے سکینڈل الگ ہیں جن میں تازہ ترین آفت پی آئی اے پر یورپ اور برطانیہ کی طرف سے 6 ماہ کی پابندی ہے۔ وزیر ہوابازی نے جس طرح کراچی حادثے کی انکوائری کا ملبہ تمام پاکستانی پائلٹوں پر ڈالا اس کا خمیازہ پورے پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چینی سبسڈی اور آٹا سکینڈل بھی چارج شیٹ میں لکھے جا رہیں۔ ایک بہت بڑا سکینڈل جس پر ابھی زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی آنے والے دنوں میں دھوم مچانے کو ہے۔ وہ سکینڈل ہے پاور سیکٹر کا۔ پاور سیکٹر کمپنیوں کے مالک حکومت میں بیٹھے ہیں اور ان کی کمپنیوں کو حال ہی میں اربوں روپے جاری کئے گئے ہیں اور یہ رقم جاری کرتے ہوئے کسی قسم کا کوئی آڈٹ نہیں کیا گیا بلکہ لوڈ شیڈنگ روکنے اور معیشت کو درکار توانائی کی ہمہ وقت دستیابی کے نام پر تیز رفتار پراسیس کے تحت ادائیگیاں کر دی گئی ہیں۔
کپتان کا یہ کہنا کہ جو بھی میری جماعت سے آئے گا چوروں کو نہیں چھوڑے گا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں بھی اندازہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت میں کون کون وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے۔ ممکن ہے کئی متبادل تلاش کر لئے گئے ہوں لیکن ابھی ان کی قابلیت اور وفاداری کو پرکھا جانا باقی ہو۔ وہ میڈیا پرسنز جو کل تک کپتان کی توصیف میں رطب اللساں رہتے تھے‘ اب اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہیں۔ حکومت کے ممدوح ایک معروف سوانح نگار اور سینئر صحافی نے کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ حکومت نہیں ہے، یہ حکومت اب چل نہیں سکتی۔
اس ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسے سیاسی تجربات کی لیبارٹری بنا دیا گیا ہے۔ ہر دو ڈھائی سال بعد نیا تجربہ شروع کردیا جاتا ہے۔ کبھی پارلیمانی جمہوریت کو مسائل کی جڑ بتایا جاتا ہے، کبھی سیاست دانوں کی آمریت کا رونا رویا جاتا ہے۔ کبھی اقتدار کی مرکزیت مسائل کا حل سمجھی جاتی ہے تو کبھی اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کو تریاق سمجھ لیا جاتا ہے۔ کبھی سکیورٹی رسک قرار دے کر کسی کو نکالا جاتا ہے تو نئے تجربے کی ناکامی کے بعد وہی سکیورٹی رسک ملک کے مستقبل کا ضامن بتایا جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ قومی سیاست میں نوجوان قیادت کے نام پر وارد کئے گئے ایک خاص ذہن سے تیار کئے گئے لوگ ہیں جنہیں سیاست کا کوئی شعور نہیں‘ لیکن وقت بے وقت استعمال ہونے کو تیار رہتے ہیں اور سیاست کو پامال کرنے والے لشکر کے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ خاص ذہن کے لوگ سیاست کے نام پرپڑھے لکھے نوجوان ووٹروں کو سیاست اور سیاست دانوں سے بیزار اور دور کررہے ہیں۔ ایسے میں روایتی سیاستدانوں کی مفادپرستی اور نااہلیاں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں‘ یوں کچھ حلقوں کو ذہن سازی کا موقع مل جاتا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہہ لے‘ لیکن موجودہ سیاسی میدان میں وہی حلقے ایک بار پھر قوم کی ذہن سازی کے لئے نعرے لگا رہے ہیں کہ نااہلوں کا ٹولہ مسلط ہے اور تبدیلی کو بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کپتان کو بھی کچھ دنوں میں شاید یہ سمجھ آ جائے کہ ملک کو میثاق جمہوریت کی کس شدت سے ضرورت ہے لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہوگی۔