"IYC" (space) message & send to 7575

بجٹ کی جادوگری

تحریک انصاف کی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا کے معاشی اثرات کے تحت 3437 ارب روپے تاریخی خسارے کے ساتھ وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اس بجٹ کو ٹیکس فری بجٹ کہا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں پندرہ سال کے دوران پہلی بار اضافہ نہیں کیا گیا۔ بجٹ اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا ہوتا ہے اور مجھ جیسے عام شہری کے لیے ان اعداد و شمار کو سمجھنا آسان کام نہیں۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد میڈیا پر نظر آنے والے ماہرینِ معیشت بھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہو پاتے کہ ہم جیسا عام آدمی کوئی رائے قائم کر سکے۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے جو کچھ بجٹ میں نظر آیا بظاہر سب اچھا تھا۔ تنخواہیں اور پنشن موجودہ معاشی صورت حال میں بڑھانا مشکل تھا اس لیے اس پر کسی تنقید کی گنجائش نہیں لیکن اسی بجٹ میں کئی ایسے کرشمے ہیں جو معمولی غور کے بعد سمجھ آ سکتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا جواز موجود تھا لیکن مخصوص لوگوں کی تنخواہوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بڑھایا گیا اور بجٹ میں ان تنخواہوں کو ریگولرائز کرنے کی تجویز بھی شامل کر لی گئی ہے۔ ان نوازے گئے افسروں میں نیب، ایف آئی اے اور نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم جیسے محکموں کے افسر شامل ہیں۔ یہ طریقۂ واردات پرانا ہے جسے تبدیلی والوں نے بھی روا رکھا ہے۔ پنجاب میں بھی بزدار حکومت نے جولائی 2019ء میں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیا تھا، فائدہ اٹھانے والوں میں پی اے ایس اور پی ایم ایس گروپ کے 1700 افسر شامل تھے، بجٹ میں اس اضافے کو بھی منظور کرا لیا گیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں کچھ دوسرے اداروں نے اپنے اپنے ملازمین کیلئے جو تنخواہیں منظور کیں وہ دیگر ملازمین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ سویلین بیوروکریسی میں با اثر طبقے سے تعلق رکھنے والے افسروں کی تنخواہوں میں یہ بے پناہ اضافہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے دیا جاتا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی ایسی غالب اکثریت کو یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے جن کی آنکھیں ہر سال بجٹ پر ہوتی ہیں کہ ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہو جائے۔
بجٹ میں ایک اور معاملہ صوبوں کے حصوں میں کٹوتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پر اپوزیشن نے بات نہیں مانی جو مقتدرہ کی خواہش تھی۔ اب بجٹ میں یہ کیا گیا ہے کہ تین صوبوں کے فنڈز کاٹ کر وفاق نے رکھ لیے ہیں۔ پنجاب کے حصے میں 476 ارب روپے کی کمی، سندھ کے حصے میں 222 ارب روپے اور خیبر پختونخوا کے حصے میں 154 ارب روپے کمی جبکہ بلوچستان کے حصے میں 1 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں پنجاب کو 30 جون 2020ء تک 1611 ارب دینے کا وعدہ کیا گیا تھا؛ تاہم اب اسے 1135 ارب دیئے جائیں گے۔ سندھ کو 814 ارب دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، اب سندھ کو 592 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے، خیبر پختونخوا کو 533 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا؛ تاہم اسے 379 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
قرضوں کی مخالف حکومت نے وفاقی بجٹ میں بیرونی قرضوں اور گرانٹس کی مد میں 22 کھرب 23 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا ہے۔ غیر ملکی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کا تخمینہ 14 کھرب 12 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 29 کھرب 46 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بیرونی ذرائع سے ملنے والے قرضوں اور امداد کو غیرملکی قرضوں اور ادائیگیوں کے بعد 8 کھرب 10 ارب روپے کا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ بیرونی امداد کی مد میں 14کھرب 35 ارب روپے ملنے کا تخمینہ ہے جس میں سے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک کھرب 65 ارب روپے، سعودی عرب سے ادھار تیل کی سہولت کی مد میں ایک کھرب 65 ارب روپے، یوروبانڈز اور سکوک بانڈز کی مد میں 2 کھرب 47ارب روپے ملیں گے جبکہ کمرشل بینکوں سے 6 کھرب 47 ارب روپے اور آئی ایم ایف سے 2 کھرب 11ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح بیرونی امداد (گرانٹس) کی مد میں 21 ارب روپے ملنے کا تخمینہ ہے۔
حکومت کی ایک اور ترجیح بجٹ دستاویز میں نمایاں ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل پر عدالتوں میں سوال اٹھائے گئے، اس کی حیثیت اور جواز کو مشکوک ٹھہرایا گیا، معاملہ اب بھی زیر سماعت ہے لیکن وفاقی حکومت نے نئے وفاقی بجٹ 2020-21 میں اثاثہ ریکوری یونٹ کیلئے 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں‘ جس میں سے دو کروڑ 75 لاکھ روپے آپریٹنگ، مشاورتی اخراجات اور 25 لاکھ روپے تکنیکی امداد کی مدمیں رکھے گئے ہیں۔ 
ایک اور اہم بات وزارت مذہبی امور کے بجٹ میں کمی ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے بجٹ میں 6 کروڑ 90 لاکھ 82 ہزار روپے کی کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ کٹوتی کس مد میں ہوگی ابھی یہ واضح نہیں ۔
سابق حکمرانوں کے اخراجات پر اعتراض کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے صدر مملکت کے اخراجات میں معمولی رد و بدل کیا گیا ہے۔ کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ صدر مملکت کے اخراجات کے لئے مالی سال 21-2020ء کے بجٹ میں 99 کروڑ 20 لاکھ روپے تجویز کئے ہیں جن میں صدر کے دوروں کے لئے ایک کروڑ 61 لاکھ 50 ہزار اور تنخواہ و الائونسز کی مد میں ایک کروڑ 7 لاکھ 59 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔ صدر کے دوروں کی مد میں4 لاکھ 99 ہزار روپے کی رقم کا اضافہ کیا گیا ہے۔
زراعت کے حوالے سے صرف ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے لیکن عام کسان کو فائدہ نہیں دیا گیا‘ الٹا آبیانہ 50 فیصد بڑھا دیا گیا جبکہ بلوچستان میں زرعی کاشتکاروں کے ٹیوب ویلوں پر دی جانے والی سبسڈی 5 ارب روپے کم کردی گئی ہے۔ 
تحریک انصاف کی حکومت نے سرمایہ داروں کو نوازنے کی پالیسی بھی اپنا رکھی ہے۔ دو نجی فرٹیلائزر کمپنیوں کے لیے خاموشی سے سبسڈی کی مد میں 13 ارب روپے رکھ دیئے گئے ہیں۔ ایک فرٹیلائزر کمپنی کابینہ میں شامل اہم عہدیدار کی ہے، جبکہ دوسری کمپنی ملتان کی معروف کاروباری شخصیت کی ہے۔
یہ تو بجٹ کے چند کرشمے تھے۔ بجٹ سے باہر بھی جادوگری جاری ہے۔55 روپے کلو فروخت ہونے والی چینی کو شوگر مافیا نے مصنوعی قلت پیدا کرکے سو کے قریب پہنچا دیا تھا۔ شوگر مافیا کو نکیل ڈالنے کے دعوے ہوئے اور اب لگتا ہے حکومت نے اسی مافیا کے ساتھ مذاکرات کرکے 70 روپے کلو ریٹ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ ایک کلو کے ساتھ 15روپے کا فائدہ نکیل ڈالنے کا انوکھا طریقہ ہے۔
بجٹ کا سب سے بڑا کرشمہ ملک میں بیروزگاری بڑھانے کا نسخہ ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی میاں انجم نثار کا کہنا ہے کہ کاروباری طبقے نے 3 ماہ کی تنخواہیں جیب سے دیں، کمر ٹوٹ چکی ہے، حکومت کی طرف سے ریلیف نہ ملنے کی وجہ سے اب ملازمتیں ختم ہوں گی۔ ان کا موقف اپنی جگہ، ان کے مطالبات کیا ہیں؟ وہ جانیں اور حکومت لیکن ہمیں صاف نظر آ رہا ہے کہ اب تک لاکھوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اب جاری صورت حال میں بیروزگاری کا نیا سیلاب آنے کو ہے۔ حکومت نے اس بجٹ میں اعتراف کیا کہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد ہے جسے کم کر کے 6 فیصد پر لایا جائے گا۔ مہنگائی کی اصل شرح کہیں زیادہ ہے لیکن حکومتی اعداد و شمار کو مان لیا جائے تب بھی بیروزگاری کے اس سیلاب میں شدید غربت کے دائرے میں دھکیلے جانے والے نئے شہریوں کی تعداد کروڑوں میں ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں