''میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘ گردن پر رکھے پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے تڑپتے جارج فلائیڈ نے گھٹی گھٹی آواز میں رحم کی اپیل کی۔ سفید فام پولیس افسر کو اپنے شکنجے میں آئے سیاہ فام شہری پر ذرا بھی ترس نہ آیا اور وہ اس وقت تک اس کی گردن دبائے بیٹھا رہا جب تک اس کی روح پرواز نہ کر گئی۔ مبینہ طور پر جارج فلائیڈ کی موت کے تین منٹ بعد تک پولیس افسر اس کی گردن دبائے بیٹھا رہا۔ واقعہ کی ویڈیو وائرل ہوئی، عوام میں شدید غم و غصہ کو بھانپتے ہوئے اس قاتل افسر اور اس کے ساتھ تین اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا لیکن مقدمہ صرف ایک قاتل پر درج ہوا۔ اس پر ریاست مینیسوٹا کے شہر منی پولس میں شہری سڑکوں پر آ گئے۔ پولیس نے سختی دکھائی جس پر مظاہرین بھی مشتعل ہوگئے۔ سڑکوں پر آئے عوام ایسے بپھرے کہ جو کچھ سامنے آیا توڑ کر رکھ دیا، عمارتوں کو آگ لگا دی، تھانہ جلا دیا، ہجوم میں شامل افراد نے دکانیں تک لوٹ لیں۔ منی پولس سے شروع ہونے والا احتجاج امریکا کی کئی ریاستوں تک پھیل گیا۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا واقعہ اس لیے بھی چنگاری بن گیا کہ اس کے قتل سے چند دن پہلے جارجیا میں ایک اور سیاہ فام شہری کو تین سفید فام افراد نے جاگنگ کے دوران پیچھا کر کے مار ڈالا تھا اور پراسیکیوٹر نے ابتدائی طور پر اس قتل کا مقدمہ چلانے سے انکار کیا تھا اور واقعہ کو سیلف ڈیفنس قرار دیا تھا۔ عوام پہلے ہی اس واقعہ پر دلبرداشتہ تھے۔ جارج فلائیڈ قتل ہوا اور مقدمہ صرف ایک پولیس افسر پر ہوا۔ مظاہرین کا اصرار ہے کہ چاروں پولیس اہلکاروں پر مقدمہ چلایا جائے لیکن پولیس حکام باقی تین کو بچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مظاہروں سے حالات اس قدر بدتر ہیں کہ منی پولس میں تین دن کا کرفیو لگانا پڑا لیکن احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جارجیا میں بھی نیشنل گارڈز بلانا پڑے اور ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔ منی پولس میں احتجاج سے نمٹنے کے لیے ملٹری پولیس کو الرٹ رکھا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک پارک میں سینکڑوں مظاہرین اکٹھے ہونے پر وائٹ ہاؤس کو بھی کچھ وقت کے لیے لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ پولیس نے اس قدر سختی دکھائی کہ سی این این کے سیاہ فام رپورٹر کو جو منی پولس سے احتجاج کی براہ راست کوریج کر رہا تھا ہتھکڑی لگا دی۔ یہ منظر پوری دنیا میں سی این این کی سکرین پر براہ راست دیکھا گیا۔ رپورٹر کے ساتھ پروڈیوسر اور کیمرہ مین کو بھی ہتھکڑی لگائی گئی۔ کیمرہ مین گرفتاری کے باوجود ریکارڈنگ کرتا رہا اور پولیس بے خبر اپنا غصہ دکھاتی رہی۔
مینیسوٹا کے گورنر کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے بعد ریاست سویلین فورسز کی جس قدر بھاری نفری تعینات کرنا پڑی ہے اس کی مثال ریاستی تاریخ میں نہیں ملتی۔ سیاہ فام شہریوں سے بدسلوکی کے خلاف احتجاج اس قدر شدید ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بیٹی کو کہنا پڑا کہ تشدد کے ذریعے تبدیلی کبھی نہیں آتی، ہمیں نسل پرستی اور سفید فام بالا دستی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کا واحد راستہ عدم تشدد کی تحریک ہی ہے۔
جارج فلائیڈ کے واقعہ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بار بار سوال کیا گیا تو انہوں نے اسے بدترین واقعہ قرار دیا لیکن پرتشدد واقعات کے بعد امریکی صدر نے ٹویٹر پر جو لکھا وہ بدامنی کو کم کرنے کی بجائے بڑھاوا دینے کا سبب بن گیا۔ امریکی صدر نے مظاہرین کو ٹھگ قرار دیا اور کہا کہ جب لوٹ مار شروع ہوتی ہے تو فائرنگ بھی شروع ہوتی ہے، فوج گورنر کے ساتھ ہے۔ امریکی صدر نے جو کہا وہ امریکی تاریخ کا بدترین جملہ شمار ہوتا ہے۔ یہ جملہ الباما کے سابق گورنر جارج ویلس نے کہا تھا جو سیاہ فام افراد سے بدترین امتیازی سلوک کے لیے بدنام تھے اور سیاہ فام افراد پر سفید فام کی برتری کے قائل تھے۔ وہ پارکوں اور بسوں میں سفید فام کے داخلے، سفید فام کے لیے مخصوص ریسٹورنٹس میں سیاہ فام کے داخلے پر پابندیوں کا نفاذ کرنے والوں میں سے ایک تھے۔
امریکی صدر تشدد کو بڑھاوا دینے کے بیانات اور ٹویٹر پیغامات کے لیے بدنام ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ویڈیو ٹویٹر پر شیئر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بہترین ڈیموکریٹ مردہ ڈیموکریٹ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں شارلٹ ول میں سفید فام افراد نے نسلی فسادات کئے، ایل پاسو میں لاطینی امریکیوں پر فائرنگ کا واقعہ ہوا، کئی سیاہ فام شہری پولیس اور سفید فام شہریوں کی نفرت کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امریکا کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے ، ہر چار میں سے ایک امریکی نے بیروزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دے رکھی ہے ، ایک لاکھ سے زیادہ امریکی کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں، نیویارک کے ہسپتال مزید مریض داخل کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے ، امریکی معیشت سکڑ رہی ہے ،لاک ڈاؤن کے خلاف امریکی صدر کی ترغیب پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ ان حالات میں شروع ہونے والی بدامنی امریکا کو ایک اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتی ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس نے پہلے ہی امریکا میں امیر اور غریب کے فرق کو نمایاں کر دیا ہے ، یہ مظاہرے صرف ایک قتل پر نہیں بلکہ دو طبقاتی نظام کے خلاف ہیں، سماجیات کے ماہرین کورونا کے بعد پیدا ہونے والی بے چینی کا ذمہ دار صرف اس وبا کو نہیں سمجھتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس وبا نے پہلے سے موجود بے چینی کو ابھرنے کا موقع دیا ہے ۔ امریکا کے امیر اور غریب سب غیر محفوظ ہو گئے ہیں، امیر امریکی اب مارننگ واک پر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں، غریب اور سیاہ فام شہری نسل پرستوں کی وجہ سے خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ۔
جب معاشرہ خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ، بے بس شہریوں کی مدد کو کوئی آگے نہ آئے ،جب معاشرہ قیادت سے محروم ہوجائے ، مستقبل کیا ہوگا اور کیسا ہوگا ؟۔ جب اس سوال کا جواب نہ ملے تو معاشرے میں غصہ اور بے چینی انتہا کو چھونے لگتی ہے ۔ جب کوئی معاشرہ اس کیفیت کا شکار ہوتا ہے تو بدامنی اور خانہ جنگی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ، اگر اگلے چند ماہ میں امریکا میں بھی طویل بدامنی یا خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہوگی۔اس سے پہلے کئی امریکی صدور کو اندرونی عدم استحکام اور بدامنی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان صدور نے تناؤ کو کم کرنے کی شعوری کوشش کی، اگر مظاہروں اور احتجاج کے جواب میں صاحبان اختیار بامقصد امن کو واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں تو امن بحال ہو سکتا ہے ، بے چینی کم ہو سکتی ہے ۔ جب کبھی بھی کسی معاشرے میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی ہے اور قیادت اس کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتی تو حالات اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ اس وقت امریکا کے صدر خانہ جنگی اور بدامنی کے خطرات کو خاطر میں نہیں لا رہے جو تباہ کن ہوگا۔
دنیا میں انسانی حقوق اور روشن خیالی کے نام نہاد چیمپئن اور بہترین جمہوریت کے دعویدار امریکا کی اصلی شکل اس طرح سے کھل کر سامنے آرہی ہے۔ دنیا میں واحد سپر پاور ہونے اور مضبوط ترین کرنسی کے ذریعے سے پوری دنیا کی معیشت کو کنٹرول میں رکھنے کے خواہشمند امریکا میں پہلے سے موجود کالے اور گورے کا فرق اور دیگر عوامل کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ یہ تمام عوامل اس سے پہلے اکٹھے نہیں دیکھے گئے، اس لیے ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات کس قدر تاریک رخ اختیار کرتے ہیں؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دور امریکا کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا ہے!