"IYC" (space) message & send to 7575

ظلم کی اوقات ہی کیا

کبھی کبھی ایک تصویر ایک مکمل کہانی سے زیادہ اثر رکھتی ہے‘ مقبوضہ کشمیر سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ہی ایک تصویر دنیا کے سامنے حالیہ دنوں آئی‘ جس نے ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا۔بھارتی ریاست کے گھناؤنے جرائم سے پردہ اٹھاتی یہ تصویر اس قدر اندوہناک ہے کہ بھارت کے اندر بھی اس پہ کہرام مچا‘ انسانیت کا احترام کرنے والے بھارتی شہریوں اور صحافیوں نے اس انسانیت سوز وقوعے پر بھارتی ریاست اور حکومت پر انگلیاں اٹھائیں۔ یہ تصویر تھی تین سال کے عیاد کی‘ جو ایک لاش کے سینے پر بیٹھا رو رہا تھا‘ چند لمحوں پہلے زندگی کی حرارت سے معمور یہ جسم اس کے نانا بشیر احمد کا تھا‘ جو سرینگر کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے ٹھیکیدار تھے۔نانا کا لاڈلا عیاد شاید ضد کر کے ان کے ساتھ ایک تعمیراتی سائٹ پر جا رہا تھا کہ سوپور کے قریب بھارتی فورسز نے بشیر احمد کی کار کو روکا اور انہیں کار سے اتار کر گولیاں ماردیں ۔
لاش پر بیٹھے عیاد کی تصویر اس قدر ہولناک ہے کہ بعد میں بچے کے ساتھ جھوٹی ہمدردی جتاتے ہوئے بنائی گئی بزدل بھارتی فوجیوں کی ویڈیو ‘ جو پروپیگنڈے کے مقصد سے پھیلائی جا رہی تھی‘ کشمیری عوام کے ذہنوں میں کوئی مغالطہ پیدا نہ کر سکی۔ کشمیری عوام بھارتی ریاست اور فورسز کی جھوٹی ویڈیوز کے جھانسے میں آ بھی نہیں سکتے کیونکہ انہیں بھارت کے ان قاتل دستوں کی چیرہ دستیوں سے ہر لمحہ گزرنا پڑتا ہے‘ کشمیر میں کوئی دن نہیں گزرتا جب بشیر احمد جیسے دو چار عام شہری جعلی مقابلوں میں شہیدنہ کئے جاتے ہوں ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سول سوسائٹی اتحاد اور لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم نے اس سال کے پہلے چھ ماہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کی جائزہ رپورٹ جاری کی‘ جس کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ میں 32 عام شہریوں کو قتل کیا گیا‘ جن میں 3 بچے اور 2 خواتین بھی شامل تھیں‘ جبکہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے 143 کشمیری قابض افواج کے جعلی مقابلوں میں شہید کر دیئے گئے۔ قابض فوج کشمیر کے دیہات میں سرچ آپریشنز کے نام پر جو دہشت پھیلا رہی ہے اس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں‘ 6ماہ کے دوران 107 تلاشی آپریشنز کئے گئے جن کے دوران کشمیریوں کے قتل کے علاوہ جائیدادوں کوتباہی اور مال مویشیوں کے ہلاک کئے جانے کے واقعات بھی ہوئے۔
کشمیری نوجوانوں کو مختلف الزامات کی آڑ میں قتل کرنے کی کارروائیاں دراصل کشمیریوں کی نسل کشی کا ایک منصوبہ ہے ۔ کشمیری نوجوان کس طرح قابض فورسز کے مظالم کی نذر ہو جاتے ہیں ‘ یہ واقعہ دیکھ لیجئے کہ شوپیاں کا 23 سالہ گلہ بان سجاد احمد اپنے مویشیوں کا ریوڑ لے کر گھر سے نکلا اور کئی دن واپس نہ آیا‘ گلہ بان پہاڑی چراگاہوں میں مویشیوں کے ساتھ کئی دن گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں اس لیے ان کے اہل خانہ کو کبھی تشویش نہیں ہوتی کہ یہ معمول کی بات ہے‘ مگرایک ہفتہ بعد بھارتی فورسز نے اطلاع دی کہ وہ اپنے گھر سے چار کلومیٹر دور ایک مقابلے میں مارا گیا ہے۔ سجاد کی ہمشیرہ نے ایک غیرملکی ٹی وی کو سجاد پر گزرنے والی قیامت کی تفصیل بتائی‘ اس کا کہنا تھا کہ ایک ماہ پہلے بھارتی فورسز نے سجاد کا موبائل فون قبضے میں لیا ‘ فوج نے اسے کہا کہ وہ آرمی کیمپ آ کر فون واپس لے جائے‘ جب سجاد آرمی کیمپ پہنچا تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ اس قدر مار پیٹ کی گئی کہ وہ چلنے کے قابل نہ رہا‘ ایک ماہ بعد سجاد جعلی مقابلے میں مارا گیا اور اس کی لاش بھی گھر والوں کے حوالے نہ کی گئی بلکہ ورثا سے کہا گیا کہ تدفین کا بندوبست حکومت کرے گی وہ کسی کو اس کے مرنے کی اطلاع دیں نہ جنازے کے لیے کسی رشتہ دار کو بلائیں اور تدفین کے لیے آتے ہوئے موبائل فون بھی ساتھ نہ لائیں۔
سرچ آپریشن اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے‘ سرچ کے نام پر کئی دن تک کسی گلی محلے کا محاصرہ کیا جاتا ہے‘ ضلع پونچھ میں ایک سرچ آپریشن دس دن تک چلا‘ ایسے سرچ آپریشنز کے دوران لوگوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں‘ غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے‘ بگھندر گاؤں کا 25 سالہ ساحل احمد ملک اگست 2018ء میں مجاہدین آزادی کے ساتھ شامل ہوا ‘ ساحل کی والدہ کا کہنا تھا کہ ساحل کی شہادت تک دو سال کے دوران انہیں جس اذیت اور تکلیف کا سامنا بھارتی فوج کے ہاتھوں کرنا پڑا اس اذیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ ہر روز ان کے گھر پر چھاپہ مارا جاتا تھا‘ ساحل کے چھوٹے بھائی کو روزانہ بھارتی فورسز گھر آ کر مار پیٹ کرتی رہیں ‘ ساحل کی والدہ کو کشمیر کی سخت سردیوں کی راتوں میں ننگے پاؤں برف میں کھڑا کیا جاتا رہا‘ کئی بار ساحل کی والدہ کی آنکھوں کے سامنے طاقتور ٹارچ رکھ کر انہیں ساری رات جگایا گیا‘ ان سے ساحل کا پتہ پوچھا جاتا رہا‘ بالآخر 23 ماہ بعد بھارتی فوج نے ساحل کو شہید کر دیا اور اس کی لاش بھی خاندان کے حوالے نہ کی۔
نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا دعویٰ کیا‘ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد بھارت کے شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دیا جا رہا ہے اور یوں کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔پچھلے ہفتے 25 ہزار بھارتیوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے۔ مودی کی پالیسی بظاہر کشمیر کو بھارت کے اندر سمونے کے لیے ہے ‘لیکن ریاستی تشدد اور جبر کشمیریوں کو بھارت سے مزید دور کر رہا ہے۔مودی نے گجرات فسادات ماڈل کو وزیراعظم بننے کے بعد پورے بھارت میں آزمایا اور یہ حربہ کشمیر میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں مذہبی فسادات بھڑکانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اس سلسلے میں مئی میں کئی مذہبی مقامات پر حملے کرائے گئے‘ 17 مئی کو رین واڑی ‘سرینگر میں امر کول مندر پر پٹرول بم پھینکا گیا‘ 19 مئی کو مسجد امام علی اور آستان آغا سید جعفر پر پٹرول بموں سے حملے ہوئے‘ 30 مئی کو سرینگر کے گردوارہ میں ڈکیتی کی واردات کروائی گئی‘ 5 اور 6جون کی درمیانی رات چھٹل بل سرینگر میں آستان امام موسیٰ کاظم پر پٹرول بم پھینکے گئے۔ 
کورونا وائرس کی وبا کو بھی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ کورونا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے نام پر سینکڑوں گرفتاریاں کی گئیں‘ جن کا ثبوت 396 پولیس افسروں اور اہلکاروں کو کورونا لاک ڈاؤن پرعمل کرانے کے لیے بہترین کارکردگی پر ایوارڈز اور اعزازات سے نوازنا ہے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر خود کو کشمیریوں کا سفیر کہلوانے والے وزیراعظم پاکستان کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارت لداخ میں چین کے ساتھ مشکل صورتحال میں پھنس چکا ہے‘ پاکستان کو تنہا کرنے کے دعوے کرنے والا بھارت اب خطے میں تنہا ہے‘ نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا جنہیں بھارت اپنی کالونی تصور کرتا تھا اب بھارت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں‘ چین سے لڑائی کے چکر میں بھارت دیگر ملکوں کی حمایت بھی کھو چکا ہے‘ ان حالات میں بھرپور سفارتی مہم بھارتی ریاستی دہشتگردی رکوانے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ آزادی اہل کشمیر کی منزل ہے اور جذبۂ حریت ان کے خون میں شامل ہے۔ کشمیری عوام اپنی لڑائی لڑتے رہیں گے اور ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار ان کو حوصلہ دیتے رہیں گے۔
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا 
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک 
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے 
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے 
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے 
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں