تحریک انصاف کی حکومت بجٹ پیش کرنے کو ہے، بجٹ کیسا ہوگا؟ عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں؟ معیشت میں بہتری اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے حکمرانوں کے ذہن میں کیا منصوبے ہیں؟ یہ سب تو بجٹ دستاویزات سامنے آنے کے بعد درست طور پر معلوم ہو سکے گا۔ اس سے پہلے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹوں میں اندازے ہی لگائے جا رہے ہیں، سرکاری ذرائع سے اندر کی خبر نکال کر عوام تک پہنچانے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اندر کی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین بجٹ مذاکرات کا تیسرا دور کامیاب ہو گیا ہے۔ اس خبر سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ بجٹ حکومت نہیں بنا رہی بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات، منظوری اور مرضی کے مطابق بن رہا ہے۔
ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ ورلڈ بینک نے تجویز دی ہے کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے ملک میں پنشن کے بڑھتے اخراجات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے وزارت خزانہ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ملکوں نے پنشن کیلئے اہلیت کی عمر بڑھا کر 65 برس کر دی ہے اور ہم بھی یہی تجویز دیں گے کہ حکام متوسط مدت کیلئے یہی اصول اپنانے پر غور کریں۔ یہ خبر بھی عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بجٹ ترجیحات میں مداخلت کی واضح عکاس ہے۔
معیشت پر بہت زیادہ دسترس کا دعویٰ بالکل نہیں، لیکن عام شہری کی حیثیت سے حکومتی پالیسیوں سے متاثر بھی ہوتا ہوں اور ان پر تنقید بھی عام شہری کی حیثیت سے کرنا حق سمجھتا ہوں۔ بجٹ میں تو جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا لیکن حکومت کا عزم اور ترجیحات ایک عرصہ سے واضح ہوچکی ہیں، حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف نے کئی دعوے کئے، پٹرولیم مصنوعات پرٹیکسوں کو ڈاکہ قرار دیا گیا، اقتدار میں آ کر قیمتیں 35 روپے لیٹر تک لانے کے دعوے ہوئے۔ اب کورونا وائرس اور اوپیک پلس میں جھگڑے نے تیل قیمتوں پر اثر ڈالا اور قیمتیں غیرمعمولی طور پر کم ہوئیں تو حکومت نے بھی نرخوں میں کمی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کا عوام کو فائدہ تو کیا ہونا تھا الٹا پٹرول کیلئے خواری ان کا مقدر بنی۔ آج ہی کے اخبارات میں کابینہ اجلاس کی خبر شائع ہوئی کہ وزیراعظم نے پٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ مصنوعی قلت کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے‘ وزارت پٹرولیم اور اوگرا آئندہ 48 تا 72 گھنٹوں میں پٹرول کی باقاعدہ سپلائی یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو فائدہ نہیں نقصان ہوا‘ مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے‘ عوام نے ہمیں احتساب کے نام پر ووٹ دیا ہے۔
کابینہ اجلاس کی خبر میں عوام کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ سیاست کو کاروبارکیلئے استعمال کرنے والوں سے حساب لیاجائے گا‘ شوگر انکوائری کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، چینی کی قیمت میں ہر صورت کمی لائیں گے، یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی جنگ ہے جو بھی اس معاملے میں ملوث ہوگا اس کے خلاف ایکشن ضرور ہوگا۔ اجلاس میں سٹیل ملز ملازمین کو برطرف کرنے کے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ پولٹری کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی گئی۔ وفاقی وزیرمراد سعید‘ غلام سرور اوردیگر وزرا نے پٹرول کی قلت کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھا دیا۔ وزرا نے استفسار کیا کہ پٹرول بحران کون پیدا کر رہا ہے؟ اوگرا حالیہ بحران میں بحیثیت ریگولیٹر ناکام دکھائی دیتا ہے‘ کیا ملک میں 7 دن کا پٹرولیم سٹاک رہ گیا ہے‘ اس ضمن میں مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی اور ذمہ داروں کے خلاف اب تک ایکشن کیوں نہیں ہوا۔ کابینہ اجلاس کی یہ کہانی الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ساتھ تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہ کہانی یقینا سرکاری عہدیداروں نے رپورٹرز کو بتائی‘ لیکن کیا اس کہانی سے یوں نہیں لگتا کہ کابینہ نے خود اپنے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کر دی ہے۔ اس اجلاس کی کہانی سے ملک کے معاشی حالات کا بھی ایک خاکہ عوام کے سامنے آ گیا ہے۔ باقی جو کچھ بھی کہا گیا وہ سب معمول کے بیانات ہیں، دراصل جس نے جو کرنا تھا کر لیا اور اربوں روپے عوام کی جیبوں سے اڑا لے گئے۔
حکومت میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے، پہلے کہتے تھے حکمران کرپٹ نہ ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا، جب کچھ بھی ٹھیک نہ ہو پایا تو کہنے لگے‘ کپتان کرپٹ نہیں لیکن یہ قوم ہی اس قابل نہیں کہ اس کے لیے کچھ کیا جا سکے، کپتان نے تیل قیمتیں کم کردیں اور پاکستان کے بعض کاروباری مہنگائی کم کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت کی کسی بھی ناکامی اور کوتاہی کا تذکرہ کریں تو یہی راگ الاپا جائے گا کہ کپتان کو بہت کچھ کرنے کو تیار ہے اور کر بھی رہا ہے لیکن پاکستانی قوم ہی کرپٹ ہے۔ کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آنے والوں کا یہ جواب ایسا ہی ہے جیسے رادھا نے ناچنے کے لیے نو من تیل کی شرط لگا دی تھی۔
نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، میری تحقیق کے مطابق اس محاورے کا پس منظریہ ہے کہ رادھا، رادھیکا، رادھا رانی یا شریمتی رادھیکا ہندوؤں کی روایتی مذہبی داستانوں میں عورت کا اہم ترین کردار ہے جو شری رام کرشن کے ساتھ مل کر مدھو بن میں گنگا کنارے ناچتی تھی اور جس میں بہت سی گوپیاں بھی حصّہ لیتی تھیں۔ گوپیاں وہ گوالنیں تھیں جن کے گاؤں میں کرشن کی بچپن سے پرورش ہوئی تھی۔ کرشن کا ماموں اس علاقے کا ظالم راجا تھا، جسے جوتشیوں نے بتایا تھا کہ آٹھواں اوتار اس کی بہن کے گھر جنم لے گا اور اس کی حکومت ختم کر دے گا۔ اس سے بچانے کے لیے ماں باپ نے کرشن کی پیدائش کو چھپا کر ان کو پالنے کے لیے گوالوں کے حوالے کر دیا تھا۔ یہاں رادھا بھی ایک گوپی تھی۔ جو بعد میں دیوی بنا دی گئی۔ اس رات بھر کے رقص و موسیقی میں کرشن اور رادھا کلا کے کلیان دکھایا کرتے تھے اور ہر ممکن و ناممکن چیز کی کلا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے رادھا کا ناچ ایک سب سے انوکھی چیز بن گیا۔ کہتے ہیں کہ کسی راجا نے رادھا کو اپنے محل میں ناچ دکھانے پر مجبور کرنا چاہا، مگر رادھا کا ناچ صرف کرشن کے لیے ہوتا تھا۔ وہ راجا کو انکار بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ دشمنی پر اتر آئے گا۔ اس لیے اس نے راجا سے کہا کہ جس ناچ کی آپ نے فرمائش کی ہے اس کے لیے تو چپّے چپّے پر دیے روشن کرنے کی ضرورت ہوگی اور اتنے دیے جلانے کے لیے نو من تیل درکار ہوگا۔ نو من تیل کہاں سے آتا؛ چنانچہ رادھا کی شرط پوری نہیں ہوئی اور اسے ناچ نہیں دکھانا پڑا۔
ڈاکٹر شریف الدین احمد قریشی کی تصنیف ''کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ میں اس محاورے کا پس منظر ذرا مختلف بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شریف الدین احمد قریشی کے مطابق ایک رات کرشن جی نے اپنی محبوبہ رادھا سے ناچنے کیلئے کہا۔ رادھا نے معذرت کی، مگر کرشن جی ناچنے کے لیے مسلسل اصرار کرتے رہے۔ رادھا جی کو جب یہ محسوس ہوا کہ کرشن جی کسی طرح ماننے والے نہیں، تو انہوں نے کرشن جی سے کہا، ٹھیک ہے! میں ناچوں گی، آپ پہلے نو من تیل کے چراغ جلوائیے کیونکہ میں ایسی ویسی نہیں ہوں، آپ کی محبوبہ ہوں۔ اس لیے میری بھی کچھ حیثیت ہے۔ کرشن جی یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ، نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔
اب تحریک انصاف کو وعدے تو پورے کرنا ہیں لیکن اس کے لیے سازگار ماحول بھی عوام کو ہی تیار کرنا ہوگا، خود ہی کرپشن ختم کرنا ہوگی، خود ہی چینی چوروں کا محاسبہ کرنا ہوگا، پولٹری ریٹ بڑھانے والوں کو سزا بھی دینا ہوگی، پٹرول کی مصنوعی قلت سے اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالنے والوں کو نکیل بھی خود ہی ڈالنا ہوگی، عوام جب یہ سب کچھ کر لیں گے تو حکومت انہیں خوابوں میں دکھائی جنت یعنی ''نیا پاکستان‘‘ میں داخل کر دے گی۔