لاہور میں امراض قلب کے ہسپتال پر وکلا نے دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی۔ وکلا کے اس دھاوے کے دوران مریض صدمے کا شکار ہوئے، علاج میں رکاوٹ آئی، کئی مریضوں کے علاج کے لیے جاری پروسیس رک گیا، چار مریض جان سے گئے۔ ایمرجنسی میں اس قدر توڑ پھوڑ ہوئی کہ ہسپتال کے آپریشنز دو دن کے لیے رک گئے۔ ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے بعد چند گرفتاریاں ہوئیں تو وکیلوں نے اس پر بھی اعتراض اٹھا دیا اور ہڑتال پر چلے گئے۔
اس سارے معاملے میں امراض قلب کے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کی وائرل ویڈیو کو جواز بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر قصوروار ہیں یا وکیل؟ معاملہ اب عدالتوں کے پاس ہے۔ انتظامیہ کی نا اہلی سے حالات خراب ہوئے اور نقصان کو کس حد تک روکا جا سکتا تھا؟ اس سوال کا جواب بھی عدالتی کارروائی میں مل جائے گا۔ ہمارا مقصد اس سارے معاملے میں سوشل میڈیا کے کردار اور جتھوں کی حکمرانی کے بڑھتے رجحان پر بحث ہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور سے پہلے عوامی غیظ و غضب کی لہر کا کئی ہفتے اور مہینے چلنا ممکن نہ تھا۔ سوشل میڈیا نے بہت کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا عوامی غیظ و غضب کو بڑھانے اور پھیلانے میں ایک تیز رفتار گاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو ایک طاقت مہیا کر دی ہے اور عام آدمی اپنا غصہ نکالنے کے لیے اس طاقت کو حملے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تیونس میں ایک خوانچہ فروش کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد عرب دنیا میں حکومتوں کے خلاف ایک لہر اٹھی جسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا۔ یہ لہر سوشل میڈیا کی وجہ سے تھی، جس نے تیونس میں ہونے والے بظاہر ایک چھوٹے سے واقعہ سے ایسی آگ لگائی کہ پوری عرب دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی۔
سوشل میڈیا پر ہونے والے سروے، اٹھائے گئے ایشوز کو عوام کی رائے کا نام دیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر عوام کا مطلب وہ نہیں جو عام سیاسی حالات میں استعمال ہوتا تھا۔ سوشل میڈیا پر عوام کا مطلب ہے لوگوں کا ایک گروہ، جو کسی خاص ایشو میں اس قدر دلچسپی رکھتا ہے کہ اسے دوسروں تک پھیلانے میں سرگرم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح سیاست میں استعمال ہونے والی عوام کی اصطلاح سوشل میڈیا نے بدل کر رکھ دی ہے۔
سوشل میڈیا دنیا بھر کے مختلف ایشوز پر چیخ و پکار کرنے والا ایسا طبقہ ہے جسے کسی نہ کسی بات پر شکایت رہتی ہے اور اس شکایت پر وہ چپ بیٹھنے یا عقلی دلائل تلاش کرنے کی بجائے شور مچاتا ہے۔ اس شور میں سوشل میڈیا پر موجود سنجیدہ اکثریت کی آواز، نقار خانے میں طوطی جیسی ہے۔ اس شور مچانے والے طبقے میں اکثریت ان کی ہے جو ذاتی زندگی سے مطمئن نہیں اور توجہ کی خواہش رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے عوام کو نہ صرف با اختیار کیا ہے بلکہ ان کے حوصلے بھی اس قدر بلند کر دیئے ہیں کہ وہ روایتی میڈیا کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ غیر مصدقہ اطلاعات اور خبروں کو پھیلا کر روایتی میڈیا کو بے حسی کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے۔ ان غیر مصدقہ اطلاعات اور خبروں کو بنیاد بنا کر ٹویٹر اور فیس بک پر مظاہرے اور احتجاج منظم کئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب سیاست اور سیاست دانوں کو گالی دینے، نظام کو جڑ سے اکھاڑنے، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا تختہ الٹنے، اداروں کی ساکھ بگاڑنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر حقیقت سے انکار کا رویہ انتشار پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
سوشل میڈیا کا ایک اور خوفناک پہلو جتھوں کو پروان چڑھانا ہے بلکہ سوشل میڈیا ایک طرح سے جتھوں کے استعمال کی ہی شے بن گئی ہے۔ فیس بک پر فرینڈز اور ٹویٹر پر فالوورز ایک طرح کا جتھہ ہیں۔ ایک تصویر یا کہانی ایک بٹن پریس کرتے ہی سینکڑوں بلکہ لاکھوں افراد تک پہنچ جاتی ہے‘ حتیٰ کہ آپ کوئی تصویر یا خبر شیئر نہیں کرتے‘ اس کے باوجود وہ تصویر یا خبر آپ کی فیڈ میں آ جاتی ہے کیونکہ آپ کا کوئی فیس بک فرینڈ یا ٹویٹر پر جسے آپ فالو کر رہے ہیں وہ اسے شیئر یا پسند کرتا ہے۔ کوئی تصویر یا خبر شیئر کرنا مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ جعلی خبروں اور فوٹو شاپ تصویروں کو ایک منظم طریقے سے پھیلانا ہے۔ کسی جعلی خبر یا فوٹو شاپ تصویر کو کوئی مشہور شخصیت یا کوئی اور ٹویٹر پر بنا جتھہ ٹویٹ کرتا ہے تو اس کا سیکنڈز میں لاکھوں لوگوں تک پہنچنا یقینی ہو جاتا ہے۔
امراض قلب کے ہسپتال کے ڈاکٹر عرفان کی ویڈیو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کے جتھے نے اس ویڈیو کو پھیلایا۔ یہ ویڈیو ڈاکٹرز کے مطابق وکلا کے ساتھ صلح سے پہلے کی ہے لیکن اس کے وائرل ہونے میں جو وقت لگا اس نے معاملے کو الجھا دیا۔ وکلا نے ڈاکٹر عرفان کی گفتگو کو توہین اور اپنی کمزوری سمجھا اور طاقت دکھانے چل پڑے۔ وکلا نے طاقت دکھانے کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے جتھے کا سہارا لیا۔ ایک رات پہلے ہی وکلا نے امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوے کا پلان شیئر کر لیا تھا۔ سوشل میڈیا نے کام آسان بنایا اور پھر جتھے کی روانگی کے مناظر سوشل میڈیا پر لائیو شیئر ہوئے تو جو جتھے کی روانگی میں پیچھے رہ گئے تھے انہیں بھی وہاں پہنچنے کی فوری تحریک ملی۔
لاہور میں ڈاکٹرز اور وکیلوں کے جھگڑے کی کہانی نے سوشل میڈیا کے ذریعے باقی شہروں کے ڈاکٹرز اور وکلا کو بھی مشتعل کر دیا۔ اصل کہانی جو تھی وہ دب گئی اور سوشل میڈیا پر جتھوں نے معاملے کو طاقت اور کمزوری، برتری اور بالا دستی کا مسئلہ بنا دیا۔ اس سارے معاملے میں سوشل میڈیا نے فریقین کو ہی منصف بنا دیا اور جتھے نے پھر اپنے تئیں انصاف کیا۔ سوشل میڈیا کسی بھی جتھے کو کم سے کم وقت میں اکٹھا ہونے اور ٹارگٹ پر حملہ آور ہونے، چاہے وہ حملہ زبانی ہو یا جسمانی، کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا دراصل جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔
ان تمام باتوں کا مقصد سوشل میڈیا پر پابندی لگوانا نہیں۔ سوشل میڈیا کو تہذیب اور اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو بات کہنے سے روکنا مقصد نہیں، کہنا یہ ہے کہ کچھ بھی سوشل میڈیا پر پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیں، کسی تصویر یا خبر کو پھیلانے سے پہلے اس کے ممکنہ اثرات کو جانچ لیں۔ سوشل میڈیا رابطوں کا بہت زبردست ذریعہ ہے لیکن آزادیٔ اظہار کے کچھ معیار اور پیمانے خود سے بھی طے کرنا ہوں گے اور حکومتوں کو بھی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ سوشل میڈیا پر جتھوں کی ذہنیت ختم کرنا ہو گی۔
ان گزارشات کا مقصد بس اتنا ہے کہ آئندہ کوئی بھی پوسٹ کرنے سے پہلے یاد رکھیں کہ چند لمحوں کی خوشی کے لیے کی گئی شرارت ایک ایسی چنگاری بن سکتی ہے جو دوبارہ لاہور کے امراض قلب میں ہونے والے سانحہ سے بھی بھیانک نتائج دے سکتی ہے۔ ڈاکٹر عرفان کی شاعری اور ہانکی گئی بڑ اگر ہسپتال کی چاردیواری کے اندر رہتی تو اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا۔
حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کرے اور قواعد و ضوابط بنائے۔ ان قواعد و ضوابط کا مقصد آزادیٔ اظہار پر قدغن نہیں، انتشار کو روکنا ہونا چاہئے۔ اس کے لیے سوشل میڈیا پر صارفین کو نامعلوم رہنے کی جو سہولت دستیاب ہے‘ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ برطانیہ کے سابق وزیر سکیورٹی امور بین ویلس نے ایک اچھی تجویز دی تھی کہ سوشل میڈیا پر شناخت کا ایک نظام وضع ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا کمپنیاں اربوں ڈالر کما رہی ہیں انہیں بھی ذمہ دار بنایا جائے۔ سوشل میڈیا پر اپنے چہروں پر کسی کا چہرہ لگائے ان بے چہرہ افراد کی شناخت کا نظام نہ بنا تو معاشرے پر ڈر اور خوف کے سائے یونہی چھائے رہیں گے۔