"IYC" (space) message & send to 7575

مذاکرے میں کیا حرج ہے؟

سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اس فیصلے سے بہت پہلے اداروں میں خلیج پیدا ہونے کے اشارے مل رہے تھے۔ سیاست دان مصلحتوں کی وجہ سے اس موضوع پر بات سے گریز کرتے ہیں لیکن سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اداروں کے درمیان تصادم رہتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مصلحت آمیزی سے کام لینے کی بجائے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تو ترجمان پاک فوج نے فیصلے پر غم و غصے کا اظہار کر دیا۔ پاکستان میں آئین کی کیا حیثیت ہے، جمہوریت کے بارے میں کیا سوچ پائی جاتی ہے، عوام کے حق حکمرانی کا کس کو کتنا پاس ہے اور اقتدار کے لیے کشمکش کتنی پرانی ہے‘ اس سے سب آگاہ ہیں لیکن قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ واقعات دہرائے دیتا ہوں۔
جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی 'فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں: میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔ میں نے پوچھا ''کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟‘‘
''ہاں‘‘
''کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں‘‘؟
''نہیں‘ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں‘‘
میں نے سوچا‘ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔
اس گفتگو کے دو دن بعد سات اور آٹھ اکتوبر 1958 کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل کر کے اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
صدر سکندر مرزا کی طرف سے آئین معطل کرنے کے حکم نامے میں جو کچھ لکھا تھا کئی عشروں بعد بھی جمہوریت اور سیاست کے بارے میں وہی سوچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا ''میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بے رحم رسہ کشی جاری ہے، بد عنوانی اور ہمارے محبِ وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گر چکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہو گا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے جو ہمیں آج در پیش لا تعداد اور پیچیدہ مسائل حل کر سکے گی۔ ہمارے لیے چاند سے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔ یہی لوگ جنہوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، اپنے مقاصد کے لیے انتخابات میں بھی دھاندلی سے باز نہیں آئیں گے... یہ لوگ واپس آ کر بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جنہیں استعمال کر کے انہوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے‘‘۔
صدر اسکندر مرزا نے دوبارہ صدارت کے لیے ووٹ نہ ملنے کے خدشے پر آئین معطل کیا اور اسمبلیاں تحلیل کیں، لیکن اسکندر مرزا کو دوام حاصل نہ ہوا، ایوب خان نے مارشل لا کے 20 دن کے اندر اندر اسکندر مرزا کو پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ بھجوا دیا۔
آئین کی قدر و حیثیت کا اندازہ قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں درج ایک اور واقعہ سے بھی ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 22 ستمبر 1958 کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے انہیں بلایا۔ ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انہوں نے اس کتاب کی اشارہ کر کے کہا، تم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے؟ شہاب صاحب کا کہنا ہے کہ جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
اقتدار میں آنے والا سول حکمران ہو یا ڈکٹیٹر خود کو ناگزیر سمجھتا ہے اور اس کی نظر میں ملک و ملت کے مفاد کا سب سے بڑا پاسبان اس کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا اندازہ ایوب خان کی ڈائری کے ایک ورق سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا ''حال ہی میں برطانیہ سے واپس آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ جب وہ ایک ممبر پارلیمنٹ کے گھر گیا تو وہاں میری تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس ممبر پارلیمنٹ نے میرے دوست سے پوچھا کہ فرانس ڈیگال کے بغیر اور پاکستان ایوب خان کے بغیر کیا کرے گا؟‘‘
سول و فوجی کشمکش اور سوچ کا فرق کس قدر ہے؟ اس کو بھی ایوب خان کی ڈائری کے ایک ورق سے سمجھنا بہت آسان ہے۔ ایوب خان نے لکھا کہ ''جنرل کری اپا نے مجھے بتایا کہ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں تو بھارت کا کمیونسٹ پریس یہ اڑا دیتا ہے کہ وہ یہ مشورہ لینے جاتے ہیں کہ بھارتی فوج اقتدار پر کیسے قبضہ کر سکتی ہے۔ بے وقوف یہ نہیں سمجھتے کہ جنرل کری اپا ایک ریٹائرڈ جنرل ہے اور وہ چاہے بھی تو یہ نہیں کر سکتا۔ میں نے جنرل کو بتایا کہ اگر فضا سازگار ہو تب بھی سترہ صوبائی اور ایک مرکزی حکومت کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ وزیرِ دفاع چاون فوج کی مدد سے حکومت سنبھال لے۔ جنرل کری اپا کا خیال ہے کہ بعض بھارتی ریاستوں میں مارشل لا لگانے کی ضرورت ہے‘‘۔
حکومتوں اور اداروں کی لڑائی میں میڈیا کو برا بھلا کہنا آسان بھی ہے اور ایک رواج بھی، میڈیا کی سوچ پر تالے لگانے کا عمل نیا نہیں۔ ایوب خان کی ڈائری میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ایوب خان نے لکھا کہ ''امریکی سفیر نے پریس میں امریکہ مخالف جذبات کی شکایت کی ہے۔ میں نے ان سے اتفاق کیا ہے کہ بد قسمتی سے پریس کا جھکاؤ امریکہ کی مخالفت کی جانب ہے۔ میں نے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر اور پریس ٹرسٹ کے چیئرمین عزیز احمد سے کہا ہے کہ وہ اخباری مالکان اور ایڈیٹروں سے صاف صاف کہہ دیں کہ اس طرح کے منفی رویئے میں ملوث ہونے سے پہلے مجھے یہ یقین دلا دیں کہ ہم امریکی امداد کے بغیر گزارہ کر سکتے ہیں یا اس کا متبادل بتا دیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر وہ بے سر و پا باتیں کرنا بند کر دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یا تو بے وقوف ہیں یا ذہنی نابالغ۔ وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ملکی مفادات کا تحفظ کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔
سیاست میں مذہب کے استعمال کے ساتھ ساتھ غداری کا چلن کس نے ڈالا؟ محترمہ فاطمہ جناح کی مثال سب کے سامنے ہے کہ ایک آمر کے مقابلے میں الیکشن لڑنے پر بھارت کی ایجنٹ قرار پائیں۔ طاقت ور حلقے اختلاف کو بھی غداری بتاتے رہے اور اس سوچ کا کھلم کھلا اظہار کیا جاتا رہا۔ افسوس کے ساتھ ایک بار پھر مثال ایوب خان کی ڈائری کا ایک ورق ہے۔ ایوب خان نے لکھا ''ایک عربی کتابچہ میرے نوٹس میں لایا گیا جس میں پاکستان اور میرے بارے میں نہایت منفی باتیں کی گئی ہیں اور میری پالیسیوں کو غیر اسلامی بتایا گیا ہے۔ اور یہ اس شخص کے بارے میں لکھا گیا ہے جس نے اسلام کے لیے اتنا کچھ کیا ہے۔ کتابچے پر مصنف کا نام یا تاریخِ طباعت یا مقامِ اشاعت کچھ نہیں ہے۔ یہ کتابچہ غالباً دنیائے عرب میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جانا تھا۔ شبہ ہے کہ یہ مودودی کا کام ہے جو اس وقت علیل ہے۔ کوئی اور مسلمان ملک ہوتا تو اسے ... کی طرح مارا جاتا لیکن پاکستان ایک قانون پسند ملک ہے جس کا فائدہ غدار پورا پورا اٹھاتے ہیں‘‘۔
اداروں کے تصادم نے ملک کو ستر سال میں بہت نقصان پہنچایا، صورت حال آج بھی نہیں بدلی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کے ذریعے سیاست میں محاذ آرائی اور اداروں کی مداخلت روکنے کے راستے پر اتفاق کیا تھا‘ لیکن اس میثاق جمہوریت کو بعد کے حالات اور واقعات نے سبوتاژ کر دیا۔ اب وقت نئے میثاق کا ہے لیکن یہ میثاق صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ طاقت کے تمام مراکز کے درمیان ہونا چاہئے۔ عدالتی فیصلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں سیاسی جماعتوں نے مصلحت سے کام لیا نہ اداروں نے، اب مصلحت چھوڑ ہی دی ہے تو حالات کی بہتری کے لیے مذاکرے میں کیا حرج ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں