"IYC" (space) message & send to 7575

امریکہ ایران تنازع، اتحادی ممالک اور اقوام متحدہ

ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے تو خطے میں کشیدگی انتہائی حدوں تک پہنچ گئی۔ ایران نے انتقام کا اعلان کیا اور جنرل قاسم کی تدفین سے پہلے انتقامی کارروائی کی۔ اس کارروائی کو آپریشن سلیمانی کا نام دیا گیا۔ آپریشن سلیمانی میں ایران نے عراق میں دو امریکی فضائی اڈوں پر ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ پینٹاگون نے تصدیق کی کہ عراق میں دو فضائی اڈوں اربیل اور عین الاسد کو نشانہ بنایا گیا۔ فوری طور پر ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی؛ تاہم ایران کا دعویٰ ہے کہ ہیلی کاپٹرز میں لاشیں اور زخمی امریکی اڈوں سے نکالے گئے۔ امریکی صدر نے ٹویٹ کی کہ ''عراق میں واقع دو فوجی اڈوں پر ایران سے میزائل داغے گئے۔ ہلاکتوں اور نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے طاقتور اور مسلح فوج ہے۔ میں کل صبح اپنا بیان دوں گا‘‘۔
ایران کے آپریشن سلیمانی میں امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد کشیدگی کم نہیں ہوئی؛ تاہم دونوں فریق بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے، جو ایک اچھا شگون ہے۔ ایران امریکا کشیدگی میں امریکا کے اتحادیوں کا رویہ زیادہ قابل غور ہے۔ کینیڈا اور جرمنی نے عراق سے اپنے فوجی کویت منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل، ایران امریکا حالیہ کشیدگی میں فریق بننے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس میں اسرائیل کا کوئی ہاتھ نہیں ہے اور یہ امریکا کا کام ہے۔ ساتھ ہی نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کے معاملے سے دور رہیں۔ امریکی اتحادیوں کے رویئے میں ہمارے لیے بھی سبق پوشیدہ ہیں۔ امریکا ہمارا ایسا دوست ہے جو کبھی پاکستان کو برے وقت میں مدد دینے نہیں پہنچا، وہ بھارت کے ساتھ پینسٹھ کی جنگ ہو یا اکہتر کی لڑائی، کارگل ہو بھارت کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کا کوئی موقع۔ اس کے برعکس ہم نائن الیون کے بعد امریکا کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کا حق دیتے رہے اور جواب میں امریکا نے ہمیں ڈرون حملوں کا تحفہ دیا‘ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشتگرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ اب ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور امریکی اتحادیوں کی پالیسی کو بھی دیکھنا چاہئے۔
ایران امریکا جنگ عراق میں پراکسی جنگ کی صورت میں ہوگی۔ عراقی ملیشیا لیڈر اور سیاستدان مقتدیٰ الصدر نے مہدی آرمی دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوئوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس طرح اب یہ تنازع صرف ایران اور امریکہ کے درمیان محدود نہیں رہا بلکہ عراق بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں عراقی پارلیمنٹ نے امریکی افواج کے ملک چھوڑنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس کے بعد عراقی وزیراعظم نے امریکہ پر یہ واضح کردیا ہے کہ امریکی افواج کے عراق سے نکلنے کا وقت آچکا ہے۔ 
امریکا کے لیے ایک اور مشکل عراق کی سکیورٹی فورسز میں ایران نواز ملیشیاز کے ارکان کی موجودگی ہے۔ عراق سے امریکا فوج نکالتا ہے یا نہیں، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن عراق میں امریکی فوجیوں پر ان سائیڈر حملے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایران نواز مسلح گروہ بھی امریکیوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں گے۔ اگر امریکہ ایران کشیدگی جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے تو یہ امریکہ کیلئے دوسری جنگوں سے مختلف ہوگی۔ ایران اپنی حمایت یافتہ ملیشیا کے ذریعے عراق، شام اور یمن میں امریکی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل بردار بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں موجود امریکی افواج بھی ایران کے نشانے پر ہوں گی۔
جنرل سلیمانی کو قتل کرکے امریکا نے بین الاقوامی قوانین بھی پامال کئے۔ ماورائے عدالت قتل کے بارے میں اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی ایگنس کیلاماڈ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں 'خطرے کو بھانپ کر اپنے دفاع‘ کی تعریف بہت محدود ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب خطرہ فوری ہو، انتہائی شدید ہو اور اس خطرے کو ٹالنے کے کوئی دوسرے ذرائع نہ ہو اور نہ ہی سوچ بچار کا وقت ہو۔ اِس قسم کے واقعات میں اِن شرائط کے پورے ہونے کا امکان کم ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی اہلکاروں کی جانب سے آنے والے بیانات میں کہا گیا کہ جنرل سلیمانی فوری حملوں کی تیاری کر رہے تھے۔ امریکا کے محکمہ دفاع کے ابتدائی بیان میں لفظ 'فوری یا نزدیک‘ کو شامل نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ حملے کا مقصد ایران کی جانب سے مستقبل کے حملوں کو روکنا تھا کیونکہ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر جنرل سلیمانی عراق اور پورے خطے میں امریکی سفارتکاروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ امریکی حکومت اس بارے میں ابھی تک کوئی تفصیلات منظرعام پر نہیں لائی لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کانگریس کی اہم شخصیات کو انٹیلی جنس معلومات بتائی گئی ہیں۔ ان دستیاب معلومات کی روشنی میں یہی لگتا ہے کہ امریکا نے بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھا اور من مانی کی۔ ان حالات میں کسی ایک ملک پر ہونے والے حملے کی حمایت مستقبل میں مزید حملوں اور جنگوں کو جواز بخشے گی۔ایران مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر میدان جنگ بن چکا ہے۔ ایران اس جنگ کو اپنی سرزمین تک کھینچ کر لانے کے موڈ میں نہیں۔ امریکی صدر نے کانگریس کو اعتماد میں لیا نہ اتحادیوں کو جنرل قاسم کے قتل سے پہلے مشورے میں رکھا۔ اس صورتحال میں امریکی خود اپنی چال کا شکار ہو چکے ہیں۔ یورپی ملک ایران کے ساتھ مذاکرات اور جوہری مسئلے پر پہلے سے موجود معاہدے کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ مسلم دنیا کو یورپ کی ان کوششوں کا ساتھ دینا چاہئے۔
عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے انکشاف کیا کہ ایرانی جنرل اپنے قتل کے وقت ایران سعودیہ کشیدگی کے خاتمے کی تجاویز لے کر بغداد آئے تھے اور اسی روز ان سے ملاقات کرنے والے تھے۔ عراقی وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی صدر نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرے کے بعد ان سے ثالثی کی درخواست کی تھی‘ جس پر انہوں نے سعودی عرب کا ایک پیغام ایران پہنچایا تھا اور جنرل قاسم ایرانی قیادت کا جوابی پیغام لائے تھے لیکن کسی پیش رفت سے پہلے ہی امریکہ نے اُنہیں قتل کرا دیا۔ عراق کے وزیراعظم کا یہ انکشاف اہم ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے امریکا عرب دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکا کر وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔ مسلم اور بالخصوص عرب دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، اس لیے وہ اس آگ کو بھڑکنے سے روکیں، امریکی اتحادی عرب اس مسئلہ میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے مسلم ممالک کو متحد ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں، اگر کوئی کچھ کہتا ہے یا کسی کا مذاق اڑاتا ہے اور یہ بات کسی کو پسند نہیں آتی تو اگلا ڈرون بھیج دیتا ہے اور شاید وہ مجھے بھی نشانہ بنادیں۔ مہاتیر محمد نے جنرل سلیمانی کے قتل کے ساتھ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو بھی بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا۔ ان کی جانب سے اتحاد کا پیغام قابل ستائش ہیں لیکن جنرل قاسم کے قتل کو سعودی صحافی کے قتل کے ساتھ ملانا مناسب نہیں۔ مسلم دنیا کے اندرونی اختلافات کو ایسے بیانات بڑھاوا دیں گے، ایسی جذباتی بیان بازی سے گریز اور خاموشی زیادہ مناسب ہو گی۔ ایران امریکہ کشیدگی سے دنیا کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اس کی طرف سے معاملہ سلجھانے کیلئے کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد بین الاقوامی فورمز کی اہمیت گھٹانے کی دانستہ کوشش کی۔ امریکا نے اقوام متحدہ کے فنڈز روکے، ایرانی وزیر خارجہ کو سلامتی کونسل کے اجلاس کیلئے ویزا نہیں دیا گیا، اس کشیدگی میں ایک اور بڑا نقصان بین الاقوامی فورمز کا عملًا غیرفعال ہونا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مقاصد کی تکمیل بھی ہے۔ دنیا کو اس طرف بھی دھیان دینا ہوگا۔ ضروری ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ فوری مداخلت کرکے مشرق وسطیٰ میں بھڑکتی اس آگ کو پھیلنے سے روکے اور بین الاقوامی فورمز کی بے توقیری کا سدباب بھی کرے‘ ایسا نہ ہو مستقبل کے تنازعات میں باقی ملک بھی اقوام متحدہ اور کثیر فریقی فورمز کو ماننے سے انکار کردیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں