کپتان کے آبائی ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے معروف لوک فنکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے ایک پارٹی نغمہ گایا" جب آئے گا عمران‘ سب کی جان‘ بنے گا نیا پاکستان" اس نغمے کی دھن پر سر دھنتے عوام نے ایک خواب دیکھا ‘جسے تبدیلی کا نام دیا گیا۔ اس خواب میں رنگ بھرنے کے لیے ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کاوعدہ کیا گیا۔ کچھ نے کہا جب عمران خان کی حکومت بنے گی تو ڈالروں کی برسات ہو جائے گی‘ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پاکستان پہنچیں گے‘ حکومت بنتے ہی پاکستان کی سب معاشی مشکلات ختم ہو جائیں گی‘پاکستان کے بیرونی قرضے اتر جائیں گے۔قانون کی حکمرانی ہوگی‘ غریب امیر سب کو انصاف ملے گا۔
تبدیلی کے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے طاقتوروں نے بھی بھرپور ساتھ دیا‘ جہاں کہیں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ نظر آئی اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا‘سیاسی حریفوں کو الیکشن سے پہلے ہی مقدمات میں اس طرح الجھایا گیا کہ انہیں جان بچاتے ہی بنی۔ تبدیلی کا پہلا مرحلہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا‘ اب باری تھی خوشحالی کے سپنوں کو سچ کرنے کی‘ حکومت کے چھ ماہ مکمل ہوئے تو کہا گیا ‘ وقت ہی کتنا ہوا ہے‘ صبر کریں اور حکومت کو کچھ مہلت دیں۔ بے صبرے عوام اور ناقدین کو قرار نہ آیا تو کپتان آگے بڑھے اور کہا ‘ گھبرانا نہیں۔
حکومت بننے کے بعد کپتان کی حکومت نے احتساب کے نعرے پر شد و مد سے عمل شروع کیا‘ ہر قابل ذکر سیاسی حریف پر مقدمات بنائے گئے‘نیب کے مقدمات اور بکتر بند گاڑیوں میں پیشیوں سے بھی اپوزیشن کے حوصلے پست نہ ہوئے تومخالفین کو منشیات فروشی اور بغاوت کے مقدمات میں پھنسانے کی تیاری ہوئی‘تبدیلی چاہنے والے خوش نظر آئے کہ چلو احتساب تو شروع ہوا‘ لوٹی دولت واپس لانے کا کام بھی جلد ہوگا‘ احتساب کے مشیر نے میڈیا سکرینوں پر جلوہ گر ہو کر قوم کو مڑدے سنائے کہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں لوٹی دولت کا سراغ لگا لیا گیا ہے‘ معاہدے بھی طے پا گئے ہیں ‘ جلد قوم سے لوٹا گیا مال واپس خزانے میں آ جائے گا۔ احتساب کے مشیر یہ خوشخبریاں سناتے رہے‘ تالیاں بجتی رہیں‘ ٹی وی شوز پر احتسابِ اکبر کی تعریفوں کا غلغلہ بلند ہوا اور پھر اچانک وہ پس پردہ چلے گئے۔
اب حال یہ ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام کا تاثر پختہ ہو چکا ہے‘ حکمران جماعت کی اہلیت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے‘ صاف چلی‘ شفاف چلی اور دو سو معاشی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ حکومت بنانے کے دعویداروں نے ملک اور عوام کے ساتھ کیا کیا ؟ اس کی چند جھلکیاں پیش ہیں‘ چند جھلکیاں اس لیے کہ مثبت رپورٹنگ کا زمانہ ہے اس لیے بہت کچھ میڈیا میں نہیں آ رہا۔
راجن پور سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی سردار ریاض نے فلور آف دی ہاؤس پر کھڑے ہو کر الزام عائد کیا کہ پاکستان ریلوے میں راجن پور سے 21 نوکریاں فروخت کی گئی‘ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ میں نوکریاں بیچی گئیں ‘ سب فراڈ ہوا ہے‘ اس حوالے سے مکمل فہرست بھی پیش کرسکتا ہوں۔
حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا ٹی وی شوز میں دہائی دیتے پائے گئے کہ تبدیلی کا مطلب مہنگائی بن گیا‘ رشوت لینے والا پہلے پانچ ہزار میں مان جاتا تھا اب پچاس ہزار مانگتا ہے اور کہتا ہے تبدیلی آگئی‘عمران خان آ گیا ہے‘ رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں۔
حکمران جماعت کے اہم وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کر دی ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار اچھے آدمی ہوں گے ان کی نیت بھی اچھی ہوگی لیکن جب تک ڈیلیوری کا نظام نہیں بناتے کامیاب نہیں ہوسکتے‘ پنجاب حکومت نے صوبے کے 350ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 80ارب روپے جاری کیے ہیں ‘وزیرخزانہ کہتے ہیں لوکل گورنمنٹ کے 27ارب روپے جاری کردیئے ہیں‘ ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں ہمیں ابھی تک پیسے نہیں ملے‘ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کہتے ہیں رکاوٹیں ہیں فنڈز نکلنے میں مزید دو ہفتے لگیں گے‘ پنجاب میں بیوروکریٹک ایشوز زیادہ ہیں‘ صوبے کارکردگی نہیں دکھائیں گے تو گورننس نہیں ہوسکتی‘ پالیسی میکنگ اور نفاذ میں بہت بڑا خلا ہے‘پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے محکمے فعال نہیں ہیں۔
پنجاب کے تمام ایم پی ایز صوبائی حکومت کی کارکردگی پر نالاں ہیں‘ان کا نالاں ہونا بجا ہے ‘ کیونکہ صوبائی حکومت نے350ارب کے ترقیاتی فنڈز میں سے صرف 80 ارب جاری کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے حکومت کی جانب سے حج سستانہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ ہماری کرنسی کی صورتحال ایسی نہیں کہ ہم حج سستا کرسکیں‘سیاسی دباؤ ہے سارا کوٹہ سرکاری کردوں۔
قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران وزارت صنعت و پیداوار نے اعتراف کیا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں بہت زیادہ جعلی ملازمین ہیں‘ کارپوریشن میں یومیہ اجرتی ملازمین کو 17500روپے بھی نہیں دیئے جارہے۔ یومیہ اجرت والے ملازمین کو ایک تا دوہزار روپے کا راشن مفت دے کر متوازن کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
حکمران جماعت کی اہلیت اپنی جگہ‘ آنے والے دنوں میں عالمی معاشی حالات بھی اچھے نہیں۔ اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا کے ممالک میں شرح نمو سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال سب سے زیادہ معاشی ترقی بنگلہ دیش کی یعنی 8.1 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ آئندہ برس یہ کم ہوکر 7.8 تک رہ سکتی ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال بھارتی شرح ترقی 5.7 تک رہنے کا امکان ہے جو آئندہ برس 6.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی 3.3 فیصد رہنے کا امکان ہے جو کہ آئندہ برس کم ہوکر 2.1 رہنے کی توقع ہے۔
کپتان بھی صورت حال سے بے خبر نہیں‘ اسی لیے حال ہی میں انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار بھی کردیا‘ کپتان نے کہا کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ حکمرانوں کی بے بسی دیکھ کر مجبور و لاچار عوام کیا کریں ؟ ان کے پاس آپشن کیا ہے؟ اس کا جواب کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے رہائشی میر حسن اور اس کے گھرانے کی کہانی میں پوشیدہ ہے۔ میر حسن ایک ریڑھی بان تھا ‘ مہنگائی اور غربت کے مارے اس ریڑھی بان کا کام کئی مہینوں سے نہ ہونے کے برابر تھا‘ اس کے بچوں نے سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کا تقاضا کیا‘ مجبور باپ بندوبست نہ کرپایا تو پٹرول چھڑک کر خودسوزی کرلی۔ میر حسن نے تو قبر میں سکون کے فلسفے پر عمل کر لیا‘ کیا اب اس کی بیوہ اور پانچ بچوں کو بھی اسی مشورے پر عمل کرنا ہوگا؟ یہ اکیلے میر حسن اور اس کے خاندان کا قصہ نہیں‘ ملک کی بڑی آبادی کا یہی حال ہے۔
تبدیلی اور کپتان اب بدنام ہو رہے ہیں‘ اس بدنامی کا باعث کون ہے؟ ہم نام نہیں لیں گے لیکن ایک ادبی لطیفے کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔مشہور محقق اور عالم مولانا محمود شیرانی حیدرآباد دکن گئے ‘ ایک تقریب میں ایک صاحب نے ان سے کہا : شیرانی صاحب! آپ کی ایک نظم مجھے بہت پسند ہے۔'' کون سی نظم بھائی !‘‘ مولانا نے استفسار کیا۔ '' وہی جس کا مصرعہ ہے۔ بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہاہوں‘‘۔مولانا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے ‘ یہ نظم میری نہیں ‘ میرے نالائق بیٹے اختر شیرانی کی ہے ‘ وہ تو محض بدنام ہو رہا ہے ‘ میں اس کے کرتوت سے رسوا ہو رہا ہوں‘‘۔