ملک اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شدید مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہے۔ پوری دنیا میں معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں اور اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے؛ اگرچہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے بھی ملک میں معیشت اور روزگار کی صورتحال مثالی نہیں تھی لیکن اب جو بحران پیدا ہوا ہے اس کی مثال ہماری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چھوٹے دکاندار اور کاروباری طبقہ بھی شدید متاثر ہیں۔
کورونا وائرس پر قابو پانے کی حکمت عملی میں وفاق اور سندھ حکومت کے اختلافات نے صورتحال میں بظاہرایک نئے بحران کو جنم دیا ہے جو آئینی نوعیت کا ہے۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے حوالے سے ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 8 اپریل 2010ء کو آئین پاکستان میں 18ویں ترمیم قومی اسمبلی سے اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ آج اس ترمیم پر انگلی اٹھانے والی تحریک انصاف کے ارکان کی بڑی اکثریت اس وقت دیگر جماعتوں سے پارلیمان کی رکن تھی اور انہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے تھے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین‘ جو آج اس ترمیم پر تحریک انصاف کے ہمنوا نظر آتے ہیں، کی جماعت نے بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ 18ویں ترمیم پر یہ جھگڑا شاید ابھی شروع ہوا ہے، لیکن سیاست میں مستقل دلچسپی رکھنے والے قارئین کو یاد ہوگا کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ایک اعلیٰ شخصیت نے میڈیا پرسنز کے ساتھ بند کمرۂ ملاقات میں اس ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور نئی حکومت کی تشکیل بھی اسی ایجنڈے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس طرح 18ویں ترمیم کا جھگڑا پرانا ہے ، اگر تاریخ میں مزید چند برس پیچھے جھانکیں تو پتا چلے گا کہ جھگڑا اس سے بھی پرانا ہے اور اس کی جڑیں جنرل ضیا ء الحق کے دور سے ملتی ہیں ، جنہوں نے آئین کا حلیہ تبدیل کیا تھا اور پارلیمان کے کئی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے ان اقدامات کے خلاف بے چینی اور احتجاج کی لہر پیدا ہوئی، صوبائیت کو فروغ ملا، لسانی نفرتوں کی آندھی چلی، حقوق کے لیے چلنے والی یہ جدوجہد خاصی آگے تک چلی گئی۔
پھر جنرل مشرف کا دور آیا ، جنہوں نے عدالت سے من مانی ترامیم کا اختیار حاصل کر لیا اور آئین پاکستان کا حلیہ مزید بگاڑ کر رکھ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئین پاکستان کو اصل حالت میں بحال کرنے کی ٹھانی، رضا ربانی کی سربراہی میں پارلیمانی نمائندوں کی کمیٹی بنی جس نے متفقہ مسودہ تیار کیا، مسلم لیگ نے اس مسودے کی تیاری کے بعد ججوں کی تقرری کے کمیشن پر اختلاف کیا، مسلم لیگ ن کی تجویز پر کمیشن کا ایک نمائندہ بڑھا کر اسے سات رکنی کر دیا گیا اور 7واں رکن ریٹائرڈ جج کو بنانے پر اتفاق ہوا، یوں یہ ترمیم متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہوئی۔
18 ترمیم کی منظوری نے کئی جھگڑے کم کئے ، صوبائی حقوق کے لیے ہونے والی جدوجہد کو تسلیم کیا گیا اور صوبائیت کے نام پر جھگڑوں کو ختم کر دیا گیا، مضبوط وفاق کا تصور ختم کرکے وفاقی اکائیوں کو مضبوط کیا گیا جس میں وفاقی اکائیوں کو حق تلفی کا احساس نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی کے ساتھ بندھی رہیں ۔
18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 2002ء میں منظور ہونے والے ایل ایف او، 17ویں آئینی ترمیم، صوبوں سے متعلق کنکرنٹ لسٹ کو ختم کر دیا گیا، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھ کر ایک مستقل جھگڑا ختم کر دیا گیا، صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا۔ آئین کو معطل کرنے کو غداری کے زمرے میں شامل کر لیا گیا۔معلومات تک رسائی کو بنیادی حق قرار دیا گیا ۔ ریاست 5سے 14 برس تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی پابند قرار پائی۔ سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا۔
اس ترمیم میں طے پایا کہ صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل ہونے یا اپنی مدت پوری کرنے پر عام انتخابات منعقد کروانے چاہئیں اور وہ ہی نگران کابینہ تشکیل دیں گے ۔ وفاقی کابینہ کی تعداد پارلیمان میں اراکین کی تعداد کا 11فیصد رکھنے کی منظوری بھی دی گئی۔ اس فارمولے کے تحت حکومت نے کابینہ کو کم کرکے 42 وزراء تک لانا تھا۔ اس ترمیم میں کہا گیا کہ صوبوں میں بھی کابینہ 15 اراکین یا 11 فیصد جو بھی زیادہ ہو، پر مشتمل ہوگی۔ صوبائی وزرا اعلیٰ بھی وزیر اعظم کی طرح 5 سے زیادہ مشیر تعینات نہیں رکھ سکیں گے ۔ صوبائی گورنر اسی صوبے کا رہائشی تعینات کیا جا ئے گا۔ اس ترمیم میں طے پایا کہ وزیر اعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ‘ اراکین جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین شامل ہوں گے۔ کونسل کا کم از کم ہر 90روز میں ایک اجلاس ضرور منعقد کیا جائے گا۔ کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ ہونا چاہئے۔ وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا۔
اس ترمیم میں کچھ بھی ایسا نہیں جو قابل اعتراض ہو، لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ صحت اور تعلیم کے شعبے صوبوں کے پاس جانے سے تباہ ہو گئے ہیں، تعلیمی نصاب کا اختیار صوبوں کو دیکر معیار تعلیم خراب کردیا گیا ، دنیا کے کسی بھی آئین میں تعلیمی نصاب ایک ہی ہوتا ہے اور وہ وفاق کے پاس ہوتا ہے ۔ بظاہر صحت و تعلیم کے ایشوز بیان کئے جا رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ صوبوں کے فنڈز میں کٹوتی ہے ،اس ترمیم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ترمیم کے نتیجے میں صوبے زیادہ بااختیار اورامیرہو گئے ہیں جبکہ وفاق غریب۔ مثال کے طور پر صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں گویا سب لے دے کر وفاق کے پاس بہت کم وسائل باقی رہ جاتے ہیں۔ اب کو رونا وائرس کو جواز بنا کر ہی آئین میں ترمیم کی بات کی جا رہی ہے۔
آئین میں ترمیم کبھی بھی کی جا سکتی ہے اور پارلیمان اس کا اختیار کھتی ہے لیکن اس موقع پر ترمیم کی وکالت کرنے والے یا تو سیاسی حقیقتوں کا ادراک نہیں کر پا رہے یا پھر انہیں امید ہے کہ اس بار بھی سب کچھ ان کی من مرضی کے مطابق ہو جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں آئین میں چھیڑ چھاڑ کو صوبائی خود مختاری ختم کر کے وفاقی سسٹم لانے کے مترادف سمجھ رہی ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے 18ویں ترمیم پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔اس حوالے سے بلاول اور مولانا کا فون پر رابطہ ہوا ہے جس میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل 52ٹو ۔بی جس کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کو گھر بھیج سکتا تھا ختم ہو گئی ، اس ترمیم کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو گھر بھیجنے اور گورنر راج کے نفاذکے عمل کو خاصا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ، جو ارتکاز اختیارات کے ذریعے ملک کو ایک رکھنے کے فارمولے کے حامیوں کو بے چین رکھتا ہے ۔
مسئلہ 18 ویں ترمیم نہیں، اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونے کا ہے۔ صوبوں کو ملنے والے فنڈز پر نظر رکھنے کی بجائے ان فنڈز کے درست استعمال پر توجہ دی جائے۔ مشترکہ مفادات کونسل کو کاغذی حیثیت میں رکھنے کی بجائے اسے فعال کیا جائے اور اس کا سیکرٹریٹ بنایا جائے۔ تحریک انصاف کا منشور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا تھا۔ تحریک انصاف تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی پر اس قدر زور دیتی رہی ہے کہ ویلج کونسلیں بنا کر انہیں اختیارات دیئے جائیں، پولیس میں بھی امریکا کی طرح شیرف کا نظام لایا جائے ۔ اب اگر 18ویں ترمیم کو لپیٹ کر ارتکاز اختیارات کی کوشش ہو رہی ہے تو کیا اسے ایک اور یوٹرن نہیں کہا جائے گا؟؟