"IYC" (space) message & send to 7575

قیمتی جانیں اور سیاسی نذرانہ!

وفاقی کابینہ نے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بتایا کہ صنعتیں اور کاروبار کھولنے والوں کو ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ لاک ڈاؤن سے متعلق وزرائے اعلیٰ کی سفارشات بھی سامنے آ جائیں گی، عوام نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو کورونا وائرس سے بہت نقصان ہوگا۔ وزیر اطلاعات اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو رگیدنا نہیں بھولے اور کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی بری کارکردگی کی وجہ سے سندھ تک محدود ہو گئی، اب ڈر ہے کہ پی پی پی صرف لاڑکانہ تک محدود نہ ہو جائے۔
دوسری طرف پنجاب حکومت نے بھی کم کورونا کیسز والے شہروں میں کاروبار کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے متعلقہ محکموں سے حتمی پلان طلب کیا گیا ہے۔ بلوچستان حکومت نے 19 مئی تک لاک ڈاؤن میں توسیع کا اعلان کر دیا ہے جبکہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے متعلق حتمی فیصلہ این سی او سی کے اجلاس میں ہوگا۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلے سے اب تک وفاقی اور صوبائی حکومت سینگ پھنسائے ہوئے ہیں، دونوں طرف سے کورونا پر سیاست نہ کرنے کے بیانات اور وعدے بھی سامنے آتے ہیں اور ایک دوسرے پر حملے اور الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ اب جبکہ ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی یومیہ تعداد تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہے تو وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کر لیا ہے، یقینا سندھ حکومت نرمی کی حمایت نہیں کرے گی اور یوں الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا۔ 
وفاق اور صوبے میں وائرس پر قابو پانے پر اختلاف ایک لڑائی کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس سے وائرس پر قابو پانے میں تو کوئی مدد نہیں ملے گی لیکن غریبوں کی ہمدردی میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کے حامیوں اور کاروبار پر صحت کو ترجیح بنانے والوں میں ایک مباحثہ (بلکہ مناقشہ کہنا بہتر ہوگا) شروع ہو جائے گا اور قوم نام نہاد دانش کی گتھیوں کو سلجھاتے سلجھاتے نہ وائرس سے بچ پائے اور نہ کاروبار سے۔
ہم بھی اس بحث میں براہ راست الجھنے کی بجائے امریکا اور کینیڈا کی مثال کو سامنے رکھ کر نتیجہ عوام پر چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ امریکا اور کینیڈا کئی حوالوں سے ایک جیسے ہیں۔ کورونا وائرس سے بھی دونوں کو کئی حوالوں سے ایک جیسا خطرہ درپیش تھا۔ دونوں ملکوں میں ایک جتنی ہی معمر آبادی ہے۔ دونوں ہی مشرقی ایشیا میں اس وائرس کے گڑھ چین اور وائرس سے شدید متاثرہ یورپی ملکوں سے ایک جتنے فاصلے پر ہیں۔ اس سب کے باوجود کورونا کی وبا نے امریکا کو اس کے شمالی ہمسائے کی نسبت کئی گنا زیادہ متاثر کیا ہے۔ امریکا میں کینیڈا کی نسبت کیسز کی تعداد دوگنا اور اموات کی شرح تیس فیصد زیادہ ہے۔
اس فرق کے بارے میں کینیڈا کے پبلک ہیلتھ ماہرین سے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس وبا پر کینیڈا کا ردعمل امریکا کی نسبت کہیں زیادہ شدید تھا۔ کینیڈا میں وفاقی نظام حکومت ہے جو صوبوں کو اس وبا سے نمٹنے میں ان کی حکمت عملی میں مدد دے رہا ہے۔ امریکا میں ایک چیف ایگزیکٹو ہے جو ریاستوں کی حکمت عملی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ امریکا میں کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی جماعتی بنیادوں پر ہے اور وفاق کی سطح پر سیاسی نااہلی واضح ہے۔ کینیڈا میں تمام پالیسیوں کو پوری سیاسی قیادت کے اتفاق سے نافذ کیا گیا۔ امریکا اور کینیڈا کی اس صورت حال سے واضح ہے کہ سیاسی کھینچا تانی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے کس قدر مہلک ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے وبا پھوٹنے کے بعد مسلسل ایک ہی موقف اپنایا کہ وائرس سنگین خطرہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے وفاق کا مضبوط ردعمل اور حکمت عملی ضروری ہے۔ جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ سماجی فاصلے کے اصول لاگو کئے جانے سے پہلے وائرس کا شکار ہوئیں اور جسٹن ٹروڈو نے اپنے گھر کے لان میں سماجی فاصلے کو اپناتے ہوئے میڈیا بریفنگز دیں جبکہ وائٹ ہاؤس میں میڈیا بریفنگ کا حال سب جانتے ہیں۔ کینیڈا میں وفاقی حکومت نے وفاق کی تمام اکائیوں کو حفاظتی لباس مہیا کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی، ضرورت کے مطابق ہر صوبے کو طبی سامان دیا گیا جبکہ امریکا میں طبی سامان کی فراہمی سیاسی فیورٹ ازم کی بنیاد پر ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے صاف کہا کہ جو ریاستیں ان کی پالیسی پر چلیں گی انہیں فیڈرل فنڈز اور سامان ملے گا۔ صدر ٹرمپ نے ریاست کولیراڈو کی درخواست پر منگوائے گئے پانچ سو وینٹی لیٹرز ضبط کر لئے کیونکہ گورنر ڈیموکریٹ پارٹی کا تھا، پھر سو وینٹی لیٹر بھجوائے اور اس کا سہرا ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر کورے گارڈنر کے سر باندھا جو اس سال دوبارہ سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں صدر ٹرمپ کی اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست میری لینڈ کے گورنر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی ہزاروں کٹس نامعلوم مقام پر چھپا کر رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں صدر ٹرمپ کی پارٹی سے ہونے کے باوجود ٹیسٹ کٹس ضبط کر لئے جانے کا ڈر ہے۔
اس کے برعکس کینیڈا نے ٹیسٹنگ کٹس کی بڑے پیمانے پر خریداری کا کام وسط مارچ میں ہی شروع کر دیا تھا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ جلد سے جلد اور وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کئے جائیں۔ امریکا میں ٹرمپ نے ٹیسٹنگ کا انچارج اپنے داماد جارڈ کشنر کو بنایا جس نے گوگل کی ٹیسٹنگ ویب سائٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جو وجود ہی نہیں رکھتی۔ اپریل تک جارڈ کشنر نے پورے امریکا میں صرف پانچ ٹیسٹنگ سنٹر بنائے۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، کینیڈا میں وفاقی نظام ہونے کی وجہ سے صوبے اپنے طور پر فیصلوں میں آزاد ہیں۔ امریکا میں بھی کہنے کو ریاستیں فیصلوں میں آزاد ہیں لیکن بڑی ریاستوں میں ری پبلکن گورنرز نے پارٹی لائن اپنائی اور سماجی فاصلے اور لاک ڈاؤن پر عمل میں سختی نہ کی یا سرے سے ان فیصلوں پر عمل درآمد سے انکار ہی کر دیا۔ کینیڈا کے صوبے خود مختار ہیں لیکن کسی بھی صوبے نے وفاقی حکومت سے شکوہ نہیں کیا، خواہ ان میں لبرل کنزرویٹو حکومت ہے یا کسی دوسری جماعت کی۔ کینیڈا میں وائرس سے نمٹنے پر کہیں اختلاف نظر نہیں آیا۔ صوبہ اونٹاریو کا سربراہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت کا لیڈر ہے، جو خود ایک بڑے شہر کا رہائشی ہونے کے باوجود دیہی اور شہری تقسیم کو بنیاد بنا کر الیکشن جیتا اور دیہی علاقوں کی محرومیاں دور کرنے کا دعویدار ہے، لیکن اس نے بھی لاک ڈاؤن کو اشرافیہ کی چال نہیں کہا۔ 
امریکا اور کینیڈا کے صحت کے شعبوں کا موازنہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ امریکا میں ہسپتال نجی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور مہنگا علاج ہے جس کی وجہ سے امریکی شہری انشورنس کمپنیوں سے رجوع پر مجبور ہیں۔ صحت کا شعبہ چونکہ سرکار کے ذمے نہیں اس لیے بھی امریکی حکومت تیار نہ تھی۔ انشورنس کمپنیوں نے اتنی بڑی تعداد میں کیسز کی ذمہ داری کہاں لینا تھی، حال سب کے سامنے ہے۔ 
کینیڈا میں صحت کا شعبہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شہریوں کو ہسپتالوں میں کوئی بل بھرنا پڑتا ہے نہ انشورنس کمپنی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ۔اب بھی کینیڈین حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لیے الگ سے بجٹ مختص نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس فنڈز موجود ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ انہی فنڈز میں رہتے ہوئے وبا پر قابو پا لیا جائے۔ 
آج پاکستان کی سیاسی قیادت جو کچھ کر رہی ہے سب کے سامنے ہے، اشرافیہ کون ہے؟ غریب پرور کون ہے؟ صحت کی پالیسیاں کس کی درست ہیں؟ کارکردگی کا حساب بھی ہو جائے گا‘ ابھی ضرورت ہے تو ملک کو اس وبا سے بچانے کے سنجیدہ اقدامات کی۔ خدارا عوام کی قیمتی زندگیوں کو سیاست کی نذر نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں