"IYC" (space) message & send to 7575

کورونا وبا اور تعلیمی شعبے کیلئے فیصلے

کورونا وائرس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اور سب کچھ غیریقینی سا ہو گیا ہے۔ اس غیریقینی کی صورتحال میں کئی نقصانات اس طرح کے ہو رہے ہیں جن کا ازالہ شاید ممکن نہ رہے۔ اس کی تازہ مثال پنجاب میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے متعلق نیا فارمولہ ہے۔ پہلے ایک میسج شیئر کرنا چاہتا ہوں جو پچھلے کئی روز سے کافی مقبول ہے اور کئی گروپوں میں شیئر کیا جا رہا ہے۔ کورونا کی موجودہ صورتحال میں ہرطرف سے حکومت پر دباؤ ہے۔ دکاندار کہتے ہیں: دکانیں کھولو، صنعتکار کہتے ہیں: صنعتیں کھولو، ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے: ٹرانسپورٹ کھولو لیکن آفرین ہے ہمارے طالب علموں پر کہ ان میں سے کسی نے بھی سکول، کالج یا یونیورسٹی کھولنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہماری وزارت تعلیم نے بھی عزت مآب جناب شفقت محمود کی سربراہی میں یہ فیصلے طالب علموں کے جذبات کو سمجھتے ہوئے ہی کئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے فارمولے کے مطابق پنجاب میں اس صورتحال میں تعلیمی بورڈز کے زیراہتمام ہونے والے تمام امتحانات منسوخ کر دیئے گئے ہیں اور طلبہ کو بغیرامتحانات اگلی جماعتوں میں پروموٹ کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ تجویز کے مطابق 9ویں جماعت کے تمام طلبہ کو بلا تخصیص 10ویں جماعت میں پروموٹ کیا جائے گا اور اگلے سال 10ویں جماعت میں حاصل شدہ نمبرز کے مساوی 9ویں جماعت کے نمبر دیئے جائیں گے۔ پریکٹیکل کے مجموعی نمبرز میں سے نصف نمبرز تمام طلبہ کو دیئے جائیں گے، پریکٹیکل کے باقی نصف نمبرز تھیوری کے حاصل کردہ نمبرزکے تناسب سے دیئے جائیں گے۔ 10ویں جماعت کے حالیہ تھیوری پیپرز کی مارکنگ کرکے رزلٹ کااعلان کیا جائے گا۔ بورڈز کی تجویز ہے کہ پریکٹیکل نہیں لئے جائیں گے اگر 10ویں کے پیپرز کی مارکنگ نہ ہوسکی تو 9ویں کے مساوی نمبرز دے دیئے جائیں گے۔
اسی طرح 11ویں جماعت کے تمام طلبہ کو 12ویں جماعت میں پروموٹ کردیا جائے گا جبکہ 12ویں جماعت کے موجودہ طلبہ کے نمبرز 11ویں کے نمبرزکے مساوی دیئے جائیں گے، طلبہ کو اپنے نمبرز بڑھانے کیلئے دوبارہ امتحان دینے کا موقع دیا جائے گا۔ دوسری طرف تعلیمی بورڈز کے پرائیویٹ سٹوڈنٹس کو پروموٹ نہ کرنے سمیت 10ویں اور 12ویں جماعت کے امیدواروں کو 4 سے 6 فیصد اضافی نمبرز دینے پر غورجاری ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم نے بورڈز سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سٹوڈنٹس کا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس برس ملک بھرکے 29 تعلیمی بورڈز اور 3 ٹیکنیکل بورڈز میں تقریباً 40لاکھ طالب علموں نے داخلے بھجوائے، ان میں سے 30 سے 35 فیصد طلبہ پرائیویٹ امیدوار کے طور پر، سپلی، اکٹھے امتحانات اور بہتر نمبروں کیلئے امتحانات دینے والے طالب علم شامل ہیں۔ نئے فارمولے کے مطابق ہر بورڈ کا گزشتہ تین سالوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا اور نمبروں کے تناسب کے حساب سے امیدواروں کو پروموٹ کیا جائے گا۔ وزارت تعلیم نے 11 مئی یعنی کل بروز پیر ایک اہم اجلاس طلب کرلیا ہے، ملک بھر کے تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں کو ویڈیو لنک پر اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی گئی ہے جس میں 9ویں اور 11ویں کے طلبا کے امتحانات لینے کے بارے میں بھی غور کیا جائے گا۔
کورونا وائرس سے پیدا شدہ حالات میں حکومتوں کو فیصلوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے سخت فیصلے لینا پڑ رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں دی گئی تجاویز بھی حکومت کی مشکلات اور سخت فیصلوں کی ہی ایک جھلک ہے۔ یہ تجاویز بہت غوروخوض کے بعد دی گئی ہوں گی لیکن ان کے مضمرات بہت زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ 9ویں جماعت کے امتحانات کے دوران بیمار تھا یا اس کے گھر میں ایسے حالات تھے جن کی وجہ سے وہ پوری توجہ نہ دے سکا تو کیا اب حکومت یہ چاہتی ہے کہ 10ویں میں بھی اسے اپنے نمبرز بہتر کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ آئیں اب اس کا اس کا الٹ کرکے دیکھتے ہیں، ایک بچہ 9ویں جماعت کے دوران بہترین تیاری کرتا رہا، اس نے خوب محنت کی اور اچھے نمبرز لئے‘ اب 10ویں جماعت کے دوران اس کا رویہ تعلیم کے حوالے سے بگڑ گیا ہے، اس کی دلچسپی پہلے جیسی نہیں رہی، لیکن حکومت اسے پچھلے سال کی محنت کے بدلے اس سال اضافی نمبروں سے نوازنا چاہتی ہے۔ کیا اس پالیسی یا تجاویز کو یوں لاگو کرنا عقلی معیار سے درست ہوگا؟
ایک اور بڑا مسئلہ غریب گھروں کے ان بچوں کا ہے جو محنت مزدوری کرکے گھر بھی چلاتے ہیں اور وقت نکال کر تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں‘ لیکن اب حکومت چاہتی ہے کہ پرائیویٹ داخلہ بھجوانے والے ان طالب علموں کو ایک سال پروموٹ نہ ہونے دیا جائے اور جب حالات موافق ہوں تو وہ بورڈ کے امتحان میں شامل ہوں اور اگلی جماعت میں جائیں۔ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا؟ کل امیدواروں میں سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر امتحان دینے والے ان 30 سے 35 فیصد طالب علموں کو ایک دم سے الگ کر دینا تو ایک طرف، ان میں شامل ایک بڑی تعداد میں غریب اور مجبور بچوں کو اس طرح سے ایک سال پیچھے دھکیل دینا کیا غریب دشمنی نہیں ہو گی؟ اس طرح کے کئی سوالات ان تجاویز سے جنم لے رہے ہیں۔ 
ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت ایف ایس سی پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ مکمل کرنے والوں کے میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کی پالیسی کیا ہو گی؟ اگر اس طرح بنائے گئے نتائج کی بنیاد پر ہی میرٹ لسٹ بنے گی تو میڈیکل اور انجینئرنگ کا معیار کیا رہ جائے گا؟ اس کا ایک جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کیلئے الگ سے داخلہ ٹیسٹ ہوں گے اس لیے مسئلہ نہیں ہوگا۔ بالکل درست کہا‘ لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اعشاریہ چار یا پانچ فیصد کے فرق سے طالب علم میرٹ لسٹ پر آنے سے رہ جاتے ہیں اور پھر وہی داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد ہوتی ہے اس کا کیا ہوگا؟میرٹ لسٹ اور داخلہ ٹیسٹ کا چکر سندھ کے پری انجینئرنگ داخلہ ٹیسٹ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ سندھ میں انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے 5 تعلیمی بورڈز ہیں اور دائود یونیورسٹی میں پری انجینئرنگ میں 60 فیصد یا اس سے زائد نمبر حاصل کرنے والے طلبا داخلے کیلئے درخواست دینے کے اہل ہیں۔
دائود یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے داخلہ ٹیسٹ برائے 2020-2019 نے سندھ کے تعلیمی بورڈز کے امتحانات اور معیار کی قلعی کھول دی ہے، جس کے تحت انٹرمیڈیٹ میں اے اور اے ون گریڈز لینے والوں کی بڑی تعداد داخلہ ٹیسٹ میں ناکام ہوئی۔ دائود انجینئرنگ یونیورسٹی اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیض عباسی کا کہنا ہے کہ تمام تعلیمی بورڈز سے کامیاب ہونے والے طلبہ کے بورڈز کے امتحانات میں حاصل کردہ نمبر اور انٹری ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں میں واضح فرق ہے۔ میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر بورڈز میں 70 فیصد یا اس سے بھی زائد نمبر حاصل کرنے والے طلبا کی اکثریت کی اس انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کی شرح زیادہ تھی۔ 
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے کئی طرح کے اندیشوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ اس لیے فیصلوں میں جھول نمودار ہو رہے ہیں، بغیر امتحان پروموٹ کرنے کی پالیسی بظاہر ووٹرز اور عوام کو خوش کرنے کیلئے یا پھر ایک اہم ذمہ داری سے اپنی جان چھڑانے کیلئے بنائی لگتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اصل مسئلہ ہجوم سے بچنا تھا تاکہ لوگ وائرس سے محفوظ رہیں۔ کمرہ امتحان ہی وہ جگہ ہے جہاں فاصلے کا اصول اپنایا جاتا ہے تاکہ نقل کو روکا جا سکے، حکومت کو امتحانات میں کوئی بڑی دشواری پیش نہیں آنا تھی، صرف اتنا بندوبست کیا جانا تھا کہ امتحانی ہال میں داخلے اور واپسی کے دوران بھیڑ نہ لگے اور طلبہ قطاروں میں فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے نکلیں۔ امتحان سے پہلے اور بعد میں ہال اور ڈیسک کو ڈس انفیکٹ کرنے کے انتظامات کئے جانے تھے، ماسک اور دستانوں کو لازمی قرار دیا جا سکتا تھا۔گیارہ مئی کو ملک کے تمام امتحانی بورڈز کا اجلاس ہونے جا رہا ہے ۔ امید ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی کمزور تعلیمی نظام کو مزید کھوکھلا کرنے کے فیصلوں سے اجتناب کیا جائے گا اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے قابل عمل فیصلے سامنے آئیں گے جن سے ناصرف طلبہ کو آگے بڑھنے کا مساوی موقع ملے گا بلکہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے اور نئی نسل کو محفوظ مستقبل دینے کے عزم کا بھی اظہار ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں