کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر وفاق اور سندھ میں اختلافات سب جانتے ہیں۔ ان اختلافات کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی‘ جہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور 18ویں ترمیم کا احسان بھی جتایا۔ اس سے پہلے کالموں میں 18ویں ترمیم پر اختلاف کی وجہ بیان کر چکا ہوں۔ 18ویں ترمیم پر اٹھنے والا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور سیاسی جماعتیں کورونا وائرس کی وبا بھول کر 18ویں ترمیم پر ایک دوسرے کے لتّے لے رہی ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تنقید کے جواب میں نا صرف سندھ فتح کرنے کی دھمکی دی بلکہ بجلی کے بل معاف کرنے کی تجویز پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سے یہ بھی پوچھا کہ آپ ہوتے کون ہیں بل معاف کرنے والے؟ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کو دھمکانے کے ساتھ ساتھ سندھ کے ساتھ زیادتی کے تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ سندھ کے ساتھ ہرگز امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا رہا، اس کو آبادی کے تناسب سے زیادہ سامان دیا، سندھ کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے نہ کریں گے، جیسے پنجاب میں لوہا منوایا اب سندھ میں ہم اپنا لوہا منوائیں گے، تیاری کر لو۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی علامت والی جماعت سے سندھ کی بو آرہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کی دھواں دھار تقریر کے جواب کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو سامنے آنا پڑا۔ بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ کی باتوں کا جواب اسی لہجے میں دیا اور طنز کیا کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ نے اپنا سیاسی لوہا کیسے منوایا، ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم بتا دیں کہ کس نے آپ کو وزیر اعظم بننے کا خواب دکھایا۔ انہوں نے کہا: وفاقی وزیر صاحب آپ نے ہماری جماعت کیوں چھوڑی؟ ہمیں سب پتا ہے، آپ اب بھی تحریک انصاف یا وزیر اعظم عمران خان کا نہیں اپنا سیاسی لوہا منوانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کس قسم کے الفاظ ہیں کہ مجھ سے یا کسی اور سے سندھ کی بو آرہی ہے؟ بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی سندھ میں لوہا منوانے کی بات واپس لیں یا مستعفی ہو جائیں‘ ہم کسی کو 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دونوں جماعتوں کی اس شعلہ فشانی پر عوام حیران ہیں کہ کورونا وائرس سے نمٹنے اور لاک ڈاؤن کے دوران بھوک سے مرتے عوام کو بچانے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانے کے بجائے پارلیمنٹ میں کس طرح کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ اس وقت وفاقی پول سے محاصل کی تقسیم کا ہے، یہی مسئلہ بار بار 18ویں ترمیم کو متنازع بنانے کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولہ شاید ایک بار پھر استعمال ہونے کو ہے، اس سے پہلے ایک دوسرے کو طاقت دکھائی جا رہی ہے، ایک دوسرے کے اعصاب کا امتحان لیا جا رہا ہے، کوئی 18ویں ترمیم کو احسان بتاتا ہے تو میری دانست میں اس کی وجہ محاصل کی تقسیم ہی ہے۔ صوبے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بازو مروڑ کر ان سے بھتہ وصول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بازو مروڑنے پر آواز بلند کی جائے تو صوبائیت کے طعنے شروع ہو جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں ہونے والے شور کے پیچھے کی کہانی کو دو خبریں زیادہ واضح کرتی ہیں۔ پہلی افواہ نما خبر یہ ہے کہ ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والی ایک شخصیت کو گورنر سندھ لگانے کی تیاری ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی احتساب کا ادارہ بھی طاقتوروں کے ہاتھ دینے کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ پہلے سے دیوار کے ساتھ لگی اپوزیشن کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر اس نے 18ویں ترمیم کی بنیاد پر قومی محاصل میں اپنے حصے پر سمجھوتہ نہ کیا تو جو کچھ انہیں میسر ہے اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے اور شکنجہ مزید سخت ہو جائے گا۔
دوسری خبر قومی مالیاتی کمیشن کی تاخیر سے متعلق اور پرانی تاریخوں سے تشکیل کا نوٹیفکیشن ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 10واں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل 23 اپریل 2020 سے موثر ہو گی۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کمیشن کے چیئرمین ہوں گے۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کمیشن کے ممبرز ہوں گے۔ پنجاب سے سابق گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ جبکہ سندھ سے ڈاکٹر اسد سعید قومی مالیاتی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق خیبر پختونخوا سے مشرف رسول اور بلوچستان سے جاوید جبار قومی مالیاتی کمیشن کے ممبر ہوں گے جبکہ وفاقی سیکرٹری خزانہ سرکاری طور پر ماہر کی حیثیت سے کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
حکومت 18ویں ترمیم کو ختم یا غیر مؤثر کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی‘ اس لیے وزارت خزانہ کی طرف سے قومی مالیاتی کمیشن کے لیے ایسے ٹی او آرز طے کئے گئے ہیں جو صوبوں کے لیے دستیاب محاصل کو پہلے ہی کم کر رہے ہیں۔ نئے ٹی او آرز کے تحت کسٹم ڈیوٹی کو وفاقی قابل تقسیم محاصل سے نکال دیا گیا ہے، امپورٹ ڈیوٹی کو بھی قابل تقسیم محاصل میں شمار نہیں کیا جا رہا، جس کے نتیجے میں قابل تقسیم وسائل کا حجم سکڑ جائے گا۔ پہلی مرتبہ ٹی او آرز کے ذریعے این ایف سی کو مینڈیٹ دیا گیا ہے جو صوبوں کے محاصل میں حصے اور ٹیکسوں کے امور کو طے کرے گا۔
وزیر خزانہ کی حیثیت سے جب وزیر اعظم خود اس کے رکن ہیں تو مشیر خزانہ کو کمیشن کا حصہ بنانا کسی بھی طرح آئینی نہیں، سرکار کے ملکیتی کاروباری اداروں کا نقصان پورا کرنے کو بھی مالیاتی کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل کرکے ان سرکاری کاروباری اداروں کو ناجائز فائدہ دینے اور صوبوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، سرکاری کاروباری اداروں کا نقصان پورا کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہرگز نہیں۔ پارلیمنٹ میں ہونے والا شور شرابہ اور دھمکیاں آئندہ بجٹ کی تیاری سے پہلے وسائل کی بندر بانٹ یا یوں کہئے کہ لوٹ مار کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اس کے لیے ہر سیاسی حربہ جائز سمجھا جا رہا ہے۔ اگر قومی مالیاتی کمیشن میں بات نہ بنی تو میرا اندیشہ ہے کہ18 ویں ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہو گی اور احتساب کا شکنجہ بھی تیز ہو گا۔
پارلیمنٹ میں دونوں طرف کے بنچوں پر عوام کے نمائندے بن کر بیٹھے لیڈر عوام کے غمخوار نہیں بلکہ ان کے اپنے کاروباری ایجنڈے ہیں جنہیں وہ اپنے مفادات کے مطابق پورا کرتے ہیں لیکن عوام کے دکھ درد پر یوں بیانات دیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان جیسا مسیحا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کروڑوں غریب فاقوں پر مجبور ہیں، بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر خود کشی کرنے والوں کے حالات اور خبریں بھی میڈیا میں آ رہی ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت حسب عادت لین دین میں مصروف ہے۔ آج کاروباری اداروں کے مفادات کے لیے مالیاتی کمیشن میں گڑ بڑ کرنے والے کوتاہ بین لیڈر یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ وقتی فائدے کے لیے کس طرح وہ آئین اور آئینی اداروں کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے کوتاہ بین لیڈروں پر یہ اشعار صادق آتے ہیں:
کاٹ کر جو راہ کا بوڑھا شجر لے جائے گا
ساتھ اپنے دھوپ کا لمبا سفر لے جائے گا
ایک صحرا بے یقینی کا ہے تا حد نظر
قافلہ سالار دیکھیں اب کدھر لے جائے گا
اپنے اپنے ہی گھروں کی فکر گر کرتے رہے
دیکھنا طوفان یہ سارا نگر لے جائے گا