معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد پاکستان کچھ عرصے کیلئے معاشی بے یقینی سے نکل گیا ہے۔ معیشت کا سیاست سے گہرا تعلق ہے ‘ بہت سے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا یہی ماننا ہے کہ ہماری معیشت سیاسی افراتفری کی نذر ہو کر تنزل کا شکار ہوئی۔ اس دلیل یا مفروضے کو سچ مان لیں تو اب ہماری سیاست میں پائی جانے والی بے یقینی کا خاتمہ ہونا ناگزیر ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل ہونے کے بعد بہت سے سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اب الیکشن کا وقت قریب ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کے اپنے وقت پر خاتمے کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ وقت پر الیکشن کروانا (ن) لیگ کیلئے اب اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے کے بعد ان شرائط پر عمل کرنے کیلئے حکومت کو مزید مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ اگر موجودہ حکومت کی مدت میں اضافہ ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے (ن) لیگ اپنا پولیٹکل سرمایہ کھوتی چلی جائے گی۔ اس لیے اب وفاق میں بھی نگران سیٹ اَپ کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ نگران سیٹ اَپ کیسا ہوگا؟ وزیراعظم کون ہوگا؟ اس پر بحث مباحثے کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے سیاسی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نگران وزیراعظم ایسا ہونا چاہیے جس کا سیاست سے تعلق ہو لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر سیاستدان متنازع بنا دیا گیا ہے تو کیا نگران وزیراعظم کی نگرانی میں ہونے والے الیکشن کے نتائج تمام سیاسی جماعتیں قبول کریں گی؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہونے والے ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت دھاندلی کا شور مچادیتی ہے۔
نگران وزیر اعظم کی تقرری کے حوالے سے آج کل ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق تبصرے کرنے میں مصروف ہے۔ کسی تجزیہ کار کی رائے ہے کہ مسلم لیگ (ن) نجم سیٹھی کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتی ہے تو کسی کی رائے میں سابق صدر آصف علی زرداری کے امیدوار معروف بزنس مین گوہر اعجاز ہیں۔ کچھ احباب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ گوہر اعجاز کو مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ شنید ہے کہ گوہر اعجاز نے زرداری صاحب سے کہا تھا کہ آپ اگراپٹما کو ریلیف دے دیں تو میں پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں 15ارب ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہوں۔ اسی لیے زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ گوہر اعجاز کو نگران وزیراعظم بنایا جائے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں صحافی محسن بیگ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ ان کے بارے میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ مقتدرہ‘ پیپلز پارٹی اور چوہدری صاحبان ان کے نام پر راضی ہیں۔ اب ان تینوں ناموں میں سے کسی ایک نام پر اتفاق ہوتا ہے یا مزید کوئی نیا نام سامنے آ سکتا ہے‘ اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں۔
یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا نگران سیٹ اَپ کو لمبے عرصے کیلئے کھینچا جا سکتا ہے؟ تو اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر آئین کو لپیٹنا ہے تو پھر جو مرضی چاہے کر لیں‘ ورنہ نگران سیٹ اَپ کے قیام کے دو یا تین مہینے بعد الیکشن ہو جانے چاہئیں۔ شنید ہے حالیہ دنوں دبئی کے اندر جو سیٹلمنٹ ہوئی‘ اس میں یہ بات بھی ہوئی اور ہو رہی ہے کہ الیکشن نومبر میں کروائے جائیں۔ اس کیلئے ممکن ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے چند دن پہلے اسمبلی توڑ دے۔ آئین کہتا ہے کہ اگر اسمبلیاں مقررہ مدت سے پہلے توڑ دی جائیں تو الیکشن 60کے بجائے 90دنوں میں ہوں گے۔ یوں الیکشن بہ آسانی نومبر تک جا سکتے ہیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا کہ اب (ن) لیگ کیلئے جلد الیکشن ضروری ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ پولیٹکل سرمائے کا کم ہونا اور دوسری وجہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی ہے۔ اگر نواز شریف وطن واپس آجاتے ہیں تو پھر (ن) لیگ کیلئے انتخابی مہم چلانا آسان ہو جائے گا۔ اور ظاہر ہے (ن) لیگ کو اس سے ایک بہت بڑا بُوسٹ ملے گا۔ فی الحال نواز شریف سعودی عرب میں ہیں اور وہاں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ ہلچل ثابت کرتی ہے کہ نواز شریف اب سنجیدگی سے وطن واپسی پر غور کر رہے ہیں۔ (ن) لیگ کے اہم رہنما‘ میاں نواز شریف کی واپسی اگست میں بتا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ (ن) لیگ دو مہینے سے ان کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ میاں صاحب ستمبر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد وطن واپس آئیں گے۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب جولائی یا اگست کے اندر ہی پاکستان واپس آجائیں گے۔ وہ جلد سے جلد کیوں واپس آنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں ''واقفانِ حال‘‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک چاہتے ہیں کہ نواز شریف واپس آئیں اور اگلی حکومت مسلم لیگ (ن) کی بنے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ بحرین اور قطر پاکستان کی مدد کریں گے۔ اور اس بار جو مدد کی جائے گی وہ کاروبار اور سرمایہ کاری کی شکل میں ہوگی۔
ادھر ماہرینِ قانون کے مطابق اب جبکہ نااہلی کی سزا پانچ سال ہونے کا قانون بھی بن چکا ہے‘ ایسے میں نواز شریف کی نااہلی کی مدت پوری ہو چکی ہے۔ اس نئے قانون کے تحت نواز شریف اورجہانگیر ترین دونوں کو فائدہ ہوگا۔ جہانگیر ترین بھی آنے والے دنوں میں الیکشن لڑ سکیں گے۔ دوسری ڈیل یہ ہے کہ نواز شریف جولائی کے اندر پاکستان واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں گے۔ اب ویسے بھی قوانین بدل چکے ہیں اور ان قوانین کے تحت انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور وہ بہت جلد اپنے کیسز سے رہا بھی ہو جائیں گے اور اس کے بعد وہ اپنی سیاسی مہم چلائیں گے۔ ان سب عوامل کے پیش نظر الیکشن اسی سال ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوتا چلا جار ہا ہے۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی الیکشن سے قبل (ن) لیگ سے اپنی کچھ شرائط منوانا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پانچ حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے۔ ان میں یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ قمر زمان کائرہ‘ ندیم افضل چن اور رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود کے حلقے شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ ان کے یہ پانچ اراکین ہر صورت قومی اسمبلی میں منتخب ہوں۔ اس کے علاوہ سندھ اور کے پی حکومت پر بھی کوئی ڈیل چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ الیکشن کے بعد میثاقِ معیشت کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے تو پھر اس چارٹر آف اکانومی پر ساری جماعتوں کے دستخط لے کر پاکستان کی معیشت کے سیٹ اَپ کو 20 سال کیلئے لاک کر دیا جائے گا تاکہ کوئی معاشی پالیسی کو چھیڑ نہ سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ملکی معیشت اور سیاسی غیریقینی کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کیلئے بلاتاخیر شفاف اور فوری انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔ بہت مشکل سے ہماری آئی ایم ایف سے ڈیل ہوئی اور اس ڈیل کی تاخیر کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام تھا۔ اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اپنی معیشت کو صحت مند بنائیں جس کیلئے ایک آزاد حکومت کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پھر ایک ایسی حکومت وجود میں آئے جس کو کام نہ کرنے دیا جائے اور پھر دھاندلی کا شور مچے۔ الیکشن کی شفافیت کو اس حد تک یقینی بنایا جائے کہ پھر کسی کو سلیکٹڈ کہہ کر نہ پکارا جائے۔ اگر اس بار بھی عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا تو پھر سیاسی نظام مزید مفلوج ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہماری معیشت کبھی سنبھل نہیں پائے گی۔