تجزیے تبصرے اپنی جگہ، مگرسچ یہی ہے کہ حکومت پر دبائو کم ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
بے شک معزز جج صاحبان اِس بات سے خوش نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں کی من چاہی تشریح کی جارہی ہے، انھیں بگاڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ اختلافی نوٹ پر سیاست کرنے پر اپوزیشن کی سرزنش بھی کی گئی ۔ادھر ڈان لیکس پر جو طوفان کھڑا ہوا تھا، اُس کی شدت میں کمی آئی ہے کہ جس پہر یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کا چرچا ہے، جس میں اِس ایشو کو افہام و تفہیم سے حل کر نے پر اتفاق ہوا ہے۔اور نظام کے لیے بہتر بھی یہی۔حالات بھی اِسی کے متقاضی۔
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا، اگرچہ آج کی اور 93ء کی سیاسی صورت حال میں خاصی مماثلت ہے، مگر اُس جیسے نتائج کا حصول ذرا دشوار ہے ۔ تب سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی حکومت بحال کر دی تھی،مگر اُن کے اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان تنائو ختم نہ ہوسکا۔ اپوزیشن منظم ہوگئی ۔آخر آرمی چیف کو درمیان میں آنا پڑا۔ صدر اور وزیراعظم دونوں رخصت ہوئے۔۔۔البتہ اِس بار سی پیک کی برکت، ملک میں جاری رد الفساد اور بکھری ہوئی اپوزیشن کے باعث 93ء جیسے حالات پیداہونا مشکل ہے ۔ پھر الیکشن بھی نزدیک ہیں۔اُدھر بھارت کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ افغانستان اس کا آلہ کار بن گیا ۔ چمن بارڈرپر ہونے والے حملے کا زخم جلد نہیں بھرے گا۔ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سراج الحق فرماتے ہیں؛ افغانستان میں ہندوستانی لابی مضبوط ہوگئی ہے۔فقط مضبوط؟ نہیں جناب، مضبوط ترین۔اِدھر کشمیر ایشو شاید پہلی بار دنیا کی نظروں میں آرہا ہے۔ تو ایسے میں داخلی انتشار سے اجتناب بہتر۔
الغرض حالات لاکھ بگڑ گئے ہوں، ہیں اب بھی میاں صاحب کے حق میں۔ خان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ ادراک البتہ انھیں نہیں ہے۔ ان کے حواری ادراک ہونے بھی نہیں دیں گے۔ جلسے جلسوں سے التباس قائم رکھیں گے۔ گو اب ان میں بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ کراچی کی ریلی کا حال سامنے ہے۔ اسے ''حقوق کراچی ریلی ‘‘کا نام دینے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا ۔ تھی وہ ''گو نواز گو ریلی‘‘ اور اسی کا تاثر دے رہی تھی۔اسی اثناء میں فاروق ستار گروپ اور آفاق احمد گروپ میں برف پگھلنے لگی ۔ دونوں طرف سے خیرخواہی کے بیانات آچکے ہیں۔ آفاق احمد نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جہاں یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی سے رابطے میں ہیں، وہیں یہ بھی کہہ دیا کہ تحریک انصاف کو کراچی پر مسلط کیا جارہا ہے۔گو اِس بات میں دم نظر نہیں آتا کہ تحریک انصاف ہر گزرتے دن کے ساتھ کراچی میں اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 22 اگست کے پاکستان مخالف نعروںسے آنے والی ڈرامائی تبدیلی، پی پی کی ناقص کارکردگی اور پی ٹی آئی کی 2013 کی اٹھان کے باعث اردو اسپیکنگ جماعتوں کے الحاق کا نہیںتو اتحاد کا امکان ضرورپیدا ہوگیا ہے۔یہ سوال ویسے ان صاحبان سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کی جنگ میں جو سیکڑوں افراد اپنی جان سے گئے، شہر قبرستان بن گیا، اُس کی قیمت کون ادا کرے گا؟
بات دُور نکل جائے گی، بتانا یہ مقصود تھا کہ خان کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ دوسری طرف پی پی گو الیکشن موڈمیں آچکی ہے، پنکھے ہاتھ میں اٹھا ئے، شہباز شریف کے نام کی تبدیلی کی مہم سے توجہ بٹوررہی ہے،مگر ہے وہ بھی مشکل۔ زرداری صاحب نے دعویٰ کیاہے کہ وہ ایوان بالامیں میاں صاحب کو اکثریت نہیں لینے دیں گے، مگر اِس دعوے کو پورا کرنا آسان نہیں۔ صرف چالوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتاجناب۔ ڈیل کی ضرورت ہے۔ البتہ اداروں اور زرداری صاحب کے درمیان مفاہمت ناممکن نہ بھی ہو، مشکل ضرور ہے۔ پھر الیکشن میں سرپرائز دینے کی پوزیشن میں بھی وہ نہیں۔ سندھ کی حالت سب کے سامنے ہے۔
سی پیک، ردالفساد، اپوزیشن کا متحد نہ ہونا، خان کا گرتا گراف، پی پی کی غیرمقبولیت، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات؛ بے شک ن لیگ پر دبائو کم ہوا ہے، مگر خطرہ پوری طرح ٹلا نہیں۔ پاناما کیس کے لیے چھ رکنی ٹیم کا اعلان ہوچکا۔یہی ٹیم خان کی سب سے بڑی امید ہے۔سرابرہ اس کے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیا ہیں۔ آ ئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈئیر کامران خورشید اس کا حصہ ۔ تحقیقات میں معاونت کے لیے ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے، اگر کوئی شخص ٹیم کے سامنے پیش ہونے یا کسی سوال کا جواب دینے سے انکاری ہوا، تو فوراًعدالت کو آگاہ کیا جائے ، تاکہ مناسب احکامات جاری کیے جائیں۔ ٹیم دوماہ میں تفتیش مکمل کرنے کی پابند ہے۔ یہ دو ماہ حکومت کے لیے کس قدر پریشان کن ثابت ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ لیگی وزرا کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔
اِس فقیر کی رائے یہ کہ مخالفین کے بجائے میاں صاحب کوماضی پر نظر رکھنی چاہیے۔ انھیں اپوزیشن نہیں، تاریخ سے خطرہ ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے، یہ تصور کلیشے نہیں۔۔۔ حقیقت ہے ۔ انسان ایک جیسے
حالات میں ہمیشہ ایک سے فیصلے کرتا ہے۔وہ خود کو دہراتاہے، اور یوں تاریخ کے چھاپا خانے سے یکساں فیصلے برآمد ہوتے ہیں۔ کچھ روز ادھر ہمارے ایک محترم دوست نے، جس کی سو لفظی کہانیوں کا ایک عالم معترف ،توجہ دلائی کہ ضیا دور کے بعد بننے والی تین سیاسی حکومتیں بیک وقت دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اورسینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھیں کہ جب جب وہ اس مرحلے کے قریب پہنچیں، اسمبلی توڑ دی گئی۔ ہاں،97ء میں مسند اقتدار تک پہنچنے والے میاں صاحب نے سینیٹ میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس کامیابی نے انھیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ نتیجہ تاریخ کا حصہ ہے۔ دھیان رہے کہ ن لیگ آج پھر اقتدارمیںہے۔حالیہ بحرانوں سے نمٹنے کی وہ قابلیت رکھتی ہے۔ سینیٹ کے اگلے انتخابات میں جیت کے امکانات روشن ہیں۔ اور مذکورہ بحث کی روشنی میں یہ معاملہ ذرا پر خطر ہے۔جمہوریت کا تسلسل آمریت پسندوں میں بے چینی پیدا کرسکتا ہے۔ اچھا، یہ بھی یاد رکھیںکہ 88ء کے بعد کبھی کوئی سیاسی جماعت لگاتار دو بار الیکشن نہیںجیت سکی۔ ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنے آن کھڑی ہوئی۔اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔ مارشل لا لگا۔ اوراگر ہم 88ء سے ذرا پیچھے جائیں، تواندیشے مزید بڑھ جاتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کے بعدمشرقی بازو کا اقتدا رسنبھالنے والی پیپلزپارٹی نے جب 77ء میں قبل از وقت انتخابات کروائے،پارلیمنٹ کی تین چوتھائی سیٹیں جیت کر کے لگاتار دوسری بار حکومت بنائی، توفقط 36سیٹیں لینے والی پاکستان نیشنل الائنس ، کچھ اندرونی کچھ بیرونی عناصر کی مدد سے، ایسی احتجاجی تحریک کو جنم دینے میں کامیاب رہی، جو نہ صرف مارشل لاپر منتج ہوئی، بلکہ اپنے عہد کے مقبول اور مضبوط ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔
یہ فرد ہے، جو خود کو دہراتا ہے، اور یوں تاریخ کے چھاپاخانے سے یکساں فیصلے برآمد ہوتے ہیں۔دبائو کم ضرور ہوا ہے، مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں ۔ میاں صاحب کو مخالفین سے زیادہ تاریخ پر نظر رکھنی چاہیے۔ ان کی اصل جنگ تاریخ سے ہے۔