"IKC" (space) message & send to 7575

لاش اب بھی وہیں پڑی ہے

ارادہ تو یہی تھا کہ ڈان لیکس سے جنم لینے والی صورت حال پر قلم اٹھایا جائے، مگر سڑک پر پڑی ایک لاش قلم کی روانی میں رکاوٹ بن گئی۔۔۔خواہش یہی تھی کہ ٹوئٹ کی واپسی پر عوام کے غیرمتوقع ردعمل کا تجزیہ کیا جائے، مگر فضائوں میں گونجتی گولیوں نے توجہ منتشر کر دی۔۔۔سوچا تھا، سیاسی بحران سے نکلنے کے بعدمیاں صاحب کے دورہ چین سے جڑے مستقبل کی منظر کشی کی جائے، مگر نذر آتش کی جانے والی بسوں کے شعلوں نے آنکھیں دھندلا دیں۔۔۔
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا، حالات لاکھ برے سہی، ہیں میاں صاحب کے حق میں۔ اور اسباب بڑے واضح تھے؛ سی پیک منصوبہ ، ملک میں جاری ردالفساد، ایران، افغانستان اور ہندوستان کا جارحانہ رویہ، اور پھر کمزور اپوزیشن۔ جی ہاں، کمزور اپوزیشن۔عمران خان اور زرداری صاحب چاہے جتنے دعوے کریں، مگر اس وقت اپوزیشن کے پاس وکلا تحریک جیسا کوئی پلیٹ فورم نہیں، جس سے چلائی جانے والی تحریک سے مشرف کی مضبوط حکومت لرز اٹھی تھی۔ کرپشن پر یہاں تحریکیں جنم نہیں لیتیں۔ ابھی وہ منزل دور ہے۔ پانچ بنیادی مسائل ہیں: ناخواندگی، ناانصافی، بے روزگاری، عدم تحفظ ، شعبۂ صحت کی بدحالی؛اُن کے موجودگی میں ایسی کسی تحریک کا امکان نہیں،جس کا تعلق شعور اور آگاہی سے ہو۔ جہاں مطالعے کا شوق دم توڑ دے، وہاں والٹیر اور روسو بے اثر ثا بت ہوتے ہیں۔ 
الغرض کئی سلگتے ہوئے موضوعات ہیں، مگر میں خواہش کے باوجود اُن پر نہیں لکھ سکتا کہ سامنے میرا شہر ہے۔ ڈان لیکس کے بعد کا شہر۔۔۔ جو بہ ظاہر ویسا ہی نظر آتا ہے، جیسے کل تھا؛پرشور، گنجان،شکستہ حال،آلودگی کا شکار۔ماحول ہی آلودہ نہیں، حال و مستقبل پر بھی کہرا چھایا ہے۔یہاں زندگی معمول پر آنے کی نوید سنائی جاچکی ہے ،لیکن حقیقتاً یہ سسک رہا ہے۔ تڑپ رہا ہے کہ اس کے سینے پر ایک زخم ہے، جسے مسیحابھول چکے ہیں۔ گھاؤ بھرنے سے رہ گیا ۔یہ گھائو 12 مئی کے دن کی دین ہے، جب پرویز مشرف مسند نشیں تھے، اور شہر میں ایم کیو ایم کا سکہ چلتا تھا۔(ویسے اس تاریخ سے جڑی بدبختی کی جھلک ہم 12 مئی 2004ء کو کراچی کے ضمنی انتخابات میںبھی دیکھ چکے تھے، جب بارہ سیاسی کارکن جان کی بازی ہار گئے تھے!)
جو شہر قائد کے مسائل کو سمجھتے ہیں، وہ تسلیم کریں گے کہ 12 مئی گزشتہ دو عشروں میں کراچی پر اترنے والا سب سے منحوس دن تھا۔ اُس نے فقط اُن40 گھرانوں کو سوگ کی آگ میں نہیں جھونکا، جو اُس روز گولیوں کا نشانہ بنے تھے، بارہ مئی نے اُس عفریت کو بھی جگا دیا، جو 86ء کے لسانی فسادات کے بعد گو سویا نہیں تھا، مگر نیم خوابیدہ تھا۔ وہ عفریت، جو خون کا پیاسا تھا، اورلسانی فسادات سے تقویت پاتا تھا۔ الیکشن2008 کے بعد سندھ میں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی حکومت قائم ہوئی ۔ ایک غیرفطری اتحاد۔بات تلخ، مگر سچ ہے کہ تینوں کا مفاد لسانی اختلافات کو بڑھاوا دینے سے جڑا تھا، اور اس کے لیے 12 مئی سے اچھا ایشو کیا ہوسکتا تھا۔
بدترین دہشت گردی کا شکار بننے والے خیبرپختون خوا سے بڑے پیمانے پر کراچی کی سمت ہجرت ہوئی۔ ا یم کیو ایم اور اے این پی؛ دونوں نے جسے سیاست کا موضوع بنالیا۔ طالبانائزیشن جیسے حساس موضوع کو غیرسنجیدگی سے برتا گیا۔ کراچی تقسیم ہونے لگا۔ نومبر 2008 میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔پی پی پی خاموش تھی۔ہاں، اُس وقت کے وزیر داخلہ لیاری گینگ وار کو اسلحے کے لائسنس دینے میں مشغول رہے۔بنارس کے غریب علاقے میں ایک دکان پر لگنے والا بینر اتنی اہمیت اختیار کر گیا کہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت نے لندن سے اُس بابت بیان دینا ضروری جانا۔اس تاثر کو تقویت دی گئی کہ انتہاپسند ہیئرسیلون اور سی ڈی کی دکانیں بند کر وا رہے ہیں۔ ادھر 26-27 نومبر کو ممبئی پر حملہ ہوا، ادھر کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر آپ 28 نومبر2008 کے اخبارات دیکھیں، تو گورنر عشرت العباد کی سربراہی میں متحدہ اوراے این پی کے درمیان چھ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کی خبر پہلے صفحے پر مل جائے گی،جس میں لسانیت روکنے کے لیے مشترکہ کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ادھرمارکیٹیں لوٹی اورگاڑیاں جلائی جارہی تھیں، آبادیوں پر حملے کیے جارہے تھے، لوگ قتل ہوئے، اور اُدھرسیاسی جماعتیں اجلاس اور بیانات سے کام چلا رہی تھیں۔ لسانی فسادات کے عفریت نے جو قہر ڈھایا، اُسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔کچھ عرصے خاموشی رہی۔ پھر2 اگست 2010 کو ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی، رضا حیدر کے قتل کے بعد12 مئی کا عفریت ایسا دہاڑاکہ شہریوں کی روح لرز گئی۔ فسادات منظم تھے۔ فقط چند گھنٹوں میں 35 افراد جان سے گئے۔اگلے چند دن میں سو سے زائد مظلوم افراد قتل ہو چکے تھے۔ گھر جلائے گئے، اعضا کاٹے گئے۔ تب بھی شہر میں آج کی طرح رینجرز تعینات تھی، مگر Political will نہیں تھی۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اطمینان سے کہہ دیا : ''کراچی میں فوجی آپریشن کا کوئی امکان نہیں!‘‘ان پانچ برسوں میں متعدد بار لسانی فسادات پھوٹے، غریب بستیوں کی سڑکیں گولیوں سے گونجتی رہیں اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی رہیں۔
ہاں، جب 2013 کے الیکشن قریب آئے، تب ایک دوسرے کو قاتل کہنے والی جماعتوں کے ترجمان ٹاک شوز میں نہ صرف اپنی مظلومیت کا پرچار کرتے دکھائی دیے، بلکہ ایک دوسرے سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا کرتے۔یاد رہے، اُس وقت طالبان کی جانب سے چندسیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔17 جنوری 2013 کو جب ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی منظر امام کا قتل ہوا، تو شہر میں سناٹا ضرور چھایا، مگر پہلے سا قتل عام نہیں ہوا۔
آج جب ان جماعتو ںکو 12 مئی کاسوگ مناتا دیکھتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ جن سے سوال ہونا چاہیے، وہی ذمے داروں کے تعین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انصاف کب ہوگا؟12 مئی کے قتل عام کو'' عوام کی طاقت ‘‘قرار دینے والے پرویز مشرف ''بیماری‘‘کے باعث ملک سے باہر ہیں۔ایم کیو ایم انتشار کا شکار ہے، اے این پی کا ووٹ بینک تحریک انصاف لے اڑی، اور پی پی پی کی توجہ کا محور پنجاب ۔ کراچی، کل کی طرح آج پھر لاوارث ہے۔ ایک زخم سانحۂ بلدیہ کا بھی ہے ، جو سانحۂ آرمی پبلک اسکول جتناہی کرب ناک تھا، مگر اُسے بھی بھلا دیا گیا ہے۔گو ابھی کراچی میں امن ہے، مگر یاد رکھیں، جب تک 12 مئی کے ذمے داروں کو سزا نہیں ہوگی، اس عفریت کے پھر جاگنے کا خطرہ موجود رہے گا۔ یہ ڈان اور پاناما لیکس سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس پر آپ کی معاشی شہ رگ کا مستقبل ٹکا ہے۔
گو آج سامنے ایک پرامن منظر ہے، شہر میںبہ ظاہرسب ٹھیک ہے، لیکن غور سے دیکھیں، تو احساس ہوگا کہ وہ لاش اب بھی وہیں پڑی ہے۔ اب بھی گولیاں گونج رہی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں