بے شک جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے، لیکن اگر اسے بدعنوانی کی دیمک لگ جائے، تو یہ نظام اپنی افادیت کھودیتاہے۔ پارلیمنٹ معتبر ترین ادارہ ہے، لیکن وہاں بیٹھنے والے اگراپنے مفادات کے اسیر ہوجائیں، تو یہ اعتبار سے محروم ہوجاتا ہے۔ جی ہاں، ووٹ تبدیلی کا اکلوتا ذریعہ ہے، لیکن جب منتخب نمایندے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہیں، تو اس ووٹ کو ردی بننے میں دیر نہیں لگتی۔
گو ان ستر برسوں میں نہ تو ناخواندگی کو شکست دی جاسکی، نہ ہی طبی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوئی۔نہ تو بے روزگاری ختم ہوئی، نہ ہی عدم تحفظ کے مسئلے کا حل تلاش کیا گیا۔ پھر ناانصافی کا عفریت بھی منہ کھولے کھڑا ہے، اس کے باوجود میرا ایمان ہے کہ جب کبھی جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کی جائے، قوم کے ہر باشعور فردپر لازم ہے کہ وہ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے، جب جب پارلیمنٹ کی حرمت پر آنچ آئے، وہ آواز بلند کرے، جب جب اس کے ووٹ کی اہمیت گھٹانے کا منصوبہ بنایا جائے، وہ احتجاج کا راستہ اختیار کرے۔۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج واقعی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ پارلیمنٹ کو غیرموثر کرنے کا منصوبہ ہے؟ووٹر کو بے وقعت کرنے کا ارادہ باندھ لیا گیا ہے؟ کیا واقعی نظام کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے یا یہ شوراغلاط پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے؟
اِس وقت سازشی نظریات زوروں پر ہیں۔ حکومتی بیانات میں کٹھ پتلیوں اور ماسٹر مائنڈ کا ذکر ہے۔ اُن کے حواری سرگرم ہیں۔ Spin Doctor مصروف عمل ہیں۔ آرا کا طوفان ہے۔ دھند دبیز ہوگئی ہے۔ حقیقت تک رسائی دشوار۔ ایسے میں لازم ہے کہ دلیل اور منطق کے سادہ اصولوں کو بروئے کار لایا جائے۔پہلی بات تو یہ کہ افراد نہیں، ادارے مقدس ہوتے ہیں۔ نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وزیر اعظم کے خاندان پر کرپشن کا الزام ہے، اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، تو موجودہ حالات میں یہ قابل فہم ہے۔ اپوزیشن کے اس تقاضے میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ کیا ماضی میں ہم نے ن لیگ کی جانب سے سول حکومتوں کے خلاف ایسے مطالبات نہیں دیکھے؟ کیا یوسف رضا گیلانی کے خلاف درخواست دائر نہیں کی گئی تھی؟ کیا میمو گیٹ اسکینڈل میں کالا کوٹ نہیں پہنا گیا تھا؟جی، ہماری آنکھوں نے یہ سب مناظر دیکھے۔ یہاں تک کہ منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا، مگر اِس کے باوجود۔۔۔ تب جمہوریت محفوظ تھی۔
میاں صاحب اگر استعفیٰ نہیں دیتے، تووہ اس کا استحقاق رکھتے ہیں۔ البتہ اس صورت میں عدالت کی جانب سے نااہلی کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔اسی جانب اٹک کے جلسے میں سراج الحق نے اشارہ کیا۔پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے دو ججزنے وزیر اعظم کو فوری طور پر نااہل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا،تین نے مزید تفتیش کا حکم دیا ۔ 20 اپریل 2017 کے فیصلے کے نتیجے میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جس کے قیام پر ن لیگ نے مٹھائی تقسیم کی، اور شریف خاندان نے موقف اختیار کیا کہ جو بھی فیصلہ آیا، وہ اُنھیں قبول ہوگا۔ مگر آج دو ماہ بعد۔۔۔ وہ فیصلہ قابل قبول نہیں رہا۔
وزیر اعظم نے استعفے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک عدالتی جنگ شروع ہونے کو ہے۔ خطرہ ہے، اس جنگ کا وہی نتیجہ نہ نکلے، جو یوسف رضا گیلانی کیس میں نکلا تھا۔ ہاں، یہ بھی ممکن ہے کہ گولی کنپٹی کے پاس سے گزر جائے، حکومت بحران سے نکل آئے، مگر فقط عدالتی جنگ تومسئلہ نہیں۔ ن لیگ کو ایک بڑی سیاسی جنگ بھی لڑنی ہے۔پی ٹی آئی دھرنوں میں ناکامی اور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے الزامات سے ابھرتی محسوس ہوتی ہے۔ پی پی پی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ادھر ایم کیو ایم پی ایس 114 میں لندن کی بائیکاٹ کال کو شکست دینے اور سعید غنی کی جیت کا نوٹیفکیشن رکوانے کے بعد دھیرے دھیرے اعتماد بحال کر رہی ہے، اسے قومی اسمبلی میں اپنی 24 سیٹوں کی اہمیت کا ادراک ہے، اور وہ 22 اگست کے جھٹکے سے نکل آئی ہے۔ جماعت اسلامی اور ق لیگ بھی اِسی جانب ہیں۔ شیخ رشید کے یہ پیش گوئی حقیقت کے قریب تر ہے کہ مشکل کی گھڑی میں وہ تمام موقع پرست ارکان اسمبلی کشتی سے چھلانگ لگا دیں گے، جومشرف کے جانے کے بعد ن لیگ کا حصہ بنے تھے۔
دست بستہ عرض ہے، وزیر اعظم کے استعفے سے نہ تو جمہوریت کمزور ہوگی، نہ ہی پارلیمنٹ کی حرمت پر کوئی آنچ آئے گی، بلکہ اگلے انتخابات سے قبل ساکھ بہترین بنانے کایہ موثر طریقہ ہے۔ ن لیگ کا نیا وزیر اعظم طاقت کا ڈیڈلاک ختم کرکے بحران کی شدت خاصی حد تک کم کر سکتا ہے، اور تحریک انصاف یہ کبھی نہیں چاہے گی، اس لیے اُس کی جانب سے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پاناما کیس کوسی پیک کے خلاف عالمی سازش قرار دینے کے انکشافات سے اجتناب بہتر۔ بالخصوص آرمی چیف کے حالیہ بیان کے بعد، جس میں سی پیک کو ہر صورت کامیاب بنانے کا عزم کیا گیاہے۔چین مطمئن ہے۔ فوج عدالت کے ساتھ کھڑی ہے۔
البتہ جس طرح سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اِس معاملے کا بھی ایک پہلو اور ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں طاقتور سول حکومت کا تسلسل ہنوز ایک خواب ہے۔ 77ء کے بعد کبھی کوئی سیاسی جماعت لگاتار دو بار انتخابات نہیں جیت سکی۔ اسی طرح کوئی جماعت دونوں ایوانوں(سینیٹ اور قومی اسمبلی) میں بیک وقت اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ جب جب یہ مرحلہ آیا، اسمبلی کسی بہانے توڑ دی گئی۔ 97ء میں ن لیگ نے کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ طے کر لیا تھا، مگر وہ اپنی بے پناہ قوت سنبھال نہیں سکی۔
الغرض ماضی میں سول حکومتوں کو گرانے کے لیے سازشیں کی گئیں، لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی کوئی سازش ہورہی ہے؟کہیں موجودہ بحران سازشوں سے زیادہ اُن غلط مشوروں کی دین تو نہیں، جن کی جانب چوہدری نثار نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اشارہ کیا۔ مشورے، جن پر عمل کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا، ہر پیشی کے بعد سپریم کورٹ کے باہر عدالت لگائی گئی، اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی۔ کہیں موجودہ بحران شریف خاندان کی جانب سے اپنے اثاثوں کی بابت میڈیا میں دیے جانے والے اُن بیانات کا نتیجہ تو نہیں، جو بعد میں ایک دوسرے سے متصادم معلوم ہونے لگے؟
اگر واقعی حکومت کے خلاف سازش ہورہی ہے، تو پھر ایک بری خبر ہے۔۔۔ اس سازش کے خلاف عوام کا احتجاج فقط سوشل میڈیا تک محدود رہے گا۔ کسی بڑی احتجاجی تحریک کا امکان نہیں ۔ اور اگر سازش کا مفروضہ غیر حقیقی ہے، توپھر یہ سارا ہنگامہ لاحاصل ثابت ہوگا۔