"IKC" (space) message & send to 7575

پاناما کے ہنگامے میں لکھا ایک خط

برائے توجہ،
چیئرمین پی ٹی آئی،
جناب والا، بعد آداب عرض ہے کہ اِن حالات میں جب پاناما کیس اختتامی مرحلے میں ہے، آپ کے وائس چیئرمین ''وزیر اعظم عمران خان ‘‘کے نعرے لگوا چکے ہیں، اورصحافی تواتر سے یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ آپ حلف لینے کے بعد پہلا اقدام کیا کریں گے ۔۔۔ایسے میں امکان تو نہیں کہ یہ ناصحانہ خط آپ کی فوری توجہ حاصل کرسکے، مگر راقم الحروف شجر سے پیوستہ رہنے والوں میں سے ہے۔ اس امید پر کہ دیر سے سہی یہ خط آپ تک پہنچ جائے گا، جو دل پر گزری ہے، رقم کیے دیتے ہیں۔
پہلے توپاناما کیس یہاں تک لانے پر مبارک بادقبول کیجیے ۔اِس سے آپ کی ساکھ، جسے آپ کے دشمنوں کے بہ قول دو دھرنوں کی ناکامی اور اسٹیبشلمنٹ کی پشت پناہی کے الزام نے خاصا متاثر کیا تھا، کچھ حد تک بحالی ہوگئی ہے۔ گو اس کا سارا کریڈٹ آپ کی پارٹی کو نہیں جاتا۔ دست بستہ عرض ہے، جوڈیشل ایکٹو ازم، جس کی طرح گذشتہ برسوں میں جسٹس (ر)افتخار چوہدری نے ڈالی تھی، اِس کیس کو یہاں تک لانے کا سبب بنا۔ عدلیہ نے موثر کردار نبھایا۔ جے آئی ٹی، جس پر ابتدا میں آپ کے حواریوں کو زیادہ اعتبار نہ تھا ، کام کر گئی۔ اِس کے باوجود آپ کی تعریف ہم پر قرض کہ آپ نے بیانات، الزامات اور احتجاج کے ذریعے اس ایشو کو زندہ رکھا۔آپ نہ ہوتے، تو شاید میڈیا اِسے بھول گیا ہوتا، اور میڈیا جیسے بھول جائے، وہ عوام کے ذہن سے بھی محو ہوجاتا ہے۔ ریموٹ اب آدمی کے ہاتھ میں کہاں رہا۔
اچھا،اب اگر آپ کے حریف استعفیٰ نہ دیں، اور کسی طرح نااہلی سے بھی بچ جائیں، تب بھی غم کیسا۔ آپ اُن کی سیاست کودھچکا تولگا ہی چکے ہیں۔ ایسا دھچکا، جس کا 2017 کے آغاز تک تصور بھی محال تھا۔ آپ کے مداح سرا کہتے ہیں، آپ نے خاندانی سیاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔کیا واقعی ایسا ہے؟اور پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ستر برس میں چار بار فوجی حکومت قائم ہوئی، جہاں 77ء سے کوئی پارٹی لگاتار دو بار الیکشن نہیں جیت سکی، جہاں کسی سیاسی جماعت کے لیے دو ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔۔۔ آپ کے اقدامات جمہوریت اور سول بالادستی پر کیا اثرات مرتب کریں گے، اِس بابت فی الحال کچھ کہنا مشکل۔ ہم دعا گو ہیںکہ انتشار کے اس عہد میں سب اچھا رہے۔البتہ ایک امر آپ کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگاجناب ۔ سیاسی نظام میں تبدیلی کا اکلوتا ذریعہ ووٹ۔ جمہوریت میں عوام ہی کا فیصلہ حتمی۔ کرسی اقتدار تک پہنچنے کے لیے آپ کو بھی اُسی راہ سے گزرنا ہوگا، جس سے ماضی میں پی پی اور ن لیگ گزرتی آئی ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں، بغلی راستے سے اقتدار میں آناسیاست داں کے لیے سم قاتل ہے۔ میاں صاحب جس عدالتی جنگ میں الجھے رہے، اس کے نتائج ن لیگ کے لیے تومنفی ہوسکتے ہیں، مگروہ آپ کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوں گے۔ آپ کو اپنے مخالفین سے الیکشن ہی کے میدان میں مقابلہ کرنا ہوگا۔خیرخواہوں کے اِس مشورے پر کان دھریں، پارٹی منظم کریں، بالخصوص گراس روٹ لیول پر۔
آپ کا یہ شکوہ درست کہ ہمارے انتخابی نظام میں کئی سقم ہیں۔ سب سے بڑی خرابی تو یہی کہ یہاں پیسہ بہائے بنا کوئی الیکشن نہیں جیت سکتا۔ پھر دھاندلی عام ہے، منظم بھی اور غیرمنظم بھی۔ آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی، اور خوب اٹھائی۔اوپر سے نیچے تک سب کو ہلاڈالا۔ چارحلقے کھلوا لیے۔ 2018 کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے آپ نے جو اقدامات کیے،اور جن'' بااثر شخصیات‘‘ سے گارنٹی لی، اُس کے لیے آپ کو سراہنے میں ہم کنجوسی نہیں کریں گے، مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ تبدیلی فوری نہیں ارتقائی عمل ہے۔ واقعات بتدریج رونما ہوں، تب زمین میں جڑیں پکڑ تے ہیں۔ اچانک تبدیلی فقط انقلاب سے ممکن ۔ اور انقلاب خون کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ، فرقہ واریت اور لسانی فسادات میں پہلے ہی بہت سے خون بہا چکے ہیں۔لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، تو انقلاب کے بجائے ارتقا کا انتخاب بہتر ۔طاہر القادری صاحب کے آپ سے اچھے روابط ہیں، اُنھیں بھی سمجھائیں کہ آئندہ چند ماہ میں اُن کا متحرک ہونا متوقع ہے۔ 
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب، جب کہ آپ 64 برس کے ہوچکے ہیں، وزیر اعظم بننے کے لیے وقت کم بچا ہے، 2018 آخری موقع ہے۔ ممکن ہے، کچھ دوستوں نے بھی اِس جانب اشارہ کیا ہو، مگر ہماری عرض ہے کہ اس بابت فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔جلدی کا کام شیطان کا۔ ماشا اللہ آپ ابھی صحت مند ہیں۔ ذرا ادھر دیکھیے، ڈونلڈ ٹرمپ 70 برس کی عمر میں سہولت سے دنیا کا طاقتور ترین آدمی بن گیا، اور اب مزے سے ٹوئٹر ٹوئٹر کھیلتا ہے۔
ٹوئٹر سے یاد آگیا، اس ویب سائٹ کو برتتے ہوئے ماضی میں آپ اور آپ کے رفقاکی جانب سے تھوڑی غفلت برتی گئی۔ بنا تصدیق پرانے فوٹو اور ویڈیوز شیئر کر دی گئیں، اورآپ کے حامیوں نے جلد اسے ٹرینڈ بنا دیا۔ یوں ایک ایسا ایشو کھڑا ہوگیا، جو حقیقت کی زمین میں جڑیں نہیں رکھتا تھا۔ آپ کے چاہنے والے کروڑوں میں ہیں، عالمی دنیا میں جو مقام اور شناخت آپ کو حاصل، کسی اور پاکستانی کا اس سے موازنہ ممکن نہیں۔ ایسے میں ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے۔ایک چینی کہاوت ہے: جو جتنا طاقتور ہے، اتنا ہی ذمے دار ہے۔ درخواست ہے، سوشل میڈیا کو برتیں، مگر بنا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔ 
الیکشن میں کامیابی کے لیے پارٹی کو مضبوط ضرور کیجیے،دوسری پارٹیوں سے آنے والوں کو خوش آمدید کہیں، بااثر اور کاروباری لوگوں کو جگہ دیں، مگر خود کو نظریاتی ساتھیوں سے دور مت ہونے دیں۔ بانی ارکان کو ترجیح دیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو تب آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، جب آپ سیاست میںاجنبی تھے۔ کل جب آپ مشکل میں ہوں گے، تب نظریاتی کارکن ہی سہارا بنیں گے۔ نظریاتی کارکنوں ہی کی وجہ سے پی پی نے جبر کا دور اور بھٹوز کو کھونے کا صدمہ سہہ لیا۔ نئے اتحادی بھی تلاش کریں۔ سنا ہے، سندھ میں آپ ممتاز بھٹو سے رابطے میں ہیں۔ اُن کا سیاسی تجربہ کام آسکتا ہے۔وہ خود بھی آج کل سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اچھا،ایم کیو ایم پر بھی توجہ دیجیے۔ قومی اسمبلی کی سیٹوں کے لحاظ سے وہ ملک کی چوتھی بڑی جماعت ہے۔ مائنس ون کے بعد اب آپ کے لیے بھی قابل قبول، اوروں کے لیے بھی۔ بلوچستان بھی اِسی ملک کا حصہ ہے صاحب۔بڑا سیاسی خلا ہے۔ الغرض فقط پنجاب پر توجہ مرکوز رکھنامناسب نہیں۔ گو بھٹو صاحب نے بھی 70 کے انتخابات میں پنجاب فارمولا استعمال کیا تھا، مگر سند ھ کی زمین اُنھیں میسر تھی۔ توپی ٹی آئی کو بھی ایک ملک گیر پارٹی بنائیں۔ امپائر کو بھول جائیں۔
اگر اِس مکتوب میں کوئی بات ناگوار گزری ہو، تو درگزر کیجیے۔ آپ کا خیرخواہ۔ 
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ستر برس میں چار بار فوجی حکومت قائم ہوئی، جہاں 77ء سے کوئی پارٹی لگاتار دو بار الیکشن نہیں جیت سکی، جہاں کسی سیاسی جماعت کے لیے دو ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔۔۔ آپ کے اقدامات جمہوریت اور سول بالادستی پر کیا اثرات مرتب کریں گے، اِس بابت فی الحال کچھ کہنا مشکل۔ ہم دعا گو ہیںکہ انتشار کے اس عہد میں سب اچھا رہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں