ن لیگ کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔
گو یہ پہلا موقع نہیں۔ البتہ یہ ماضی کے ادوار سے زیادہ بحرانی ہے۔ جی، وفاق اور پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود آسیبی ڈیڈ لاک نے اِس جماعت کو نرغے میں لے رکھا ہے۔ سینیٹ میں نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے خلاف ترمیمی بل منظور ہو چکا ہے۔ اسحاق ڈار پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اُن کے اثاثے منجمد کر دئیے گئے ہیں۔ ادھر نیب اور حکومت میں لفظی جنگ شروع ہو گئی۔ ملتان میٹرو کرپشن کیس میں انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے۔ اپنی ہی حکومت میں میاں نواز شریف یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ن لیگ کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ غائب ہو رہے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف میں دُوریاں پیدا کرنا ن لیگ کے مخالفین کی اولین خواہش ہے۔ اور معاملہ فقط خواہش تک محدود نہیں۔ اِس کے لیے سازشیں بھی رچائی گئیں، پروپیگنڈے کو بھی کام میں لایا گیا۔ ان افراد کے‘ جو کچھ عرصے قبل مشرف کو چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوئے تھے، اڑان بھرنے کی بازگشت ہے۔ شریف خاندان میں اختلافات کا انکار کرنے والے وزرا کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ ہوں گی بھی نہیں۔ نثار اُن پر بھاری ہیں۔ جانشینی کلیدی معاملہ ہے۔ جس فاصلے کو شریف برادران نے اپنی خاموشی میں چھپا لیا، اُسے بچوں کے اظہار نے عیاں کر دیا۔ ''اداروں سے تصادم‘‘ وہ اکلوتا ایشو نہیں، جہاں مریم نواز اور حمزہ شہباز الگ الگ پیج پر نظر آتے ہیں۔ معاملہ زیادہ سنگین ہے۔
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا سیاسی جانشین کون ہو گا؟
اِس کا جواب راکٹ سائنس کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہ گتھی سلجھانے کو ماضی قریب میں ایک واضح مثال موجود۔ گو صورت حال سو فی صد یکساں نہیں، مگر خاصی مماثلت ہے۔ یہ مخدوم امین فہیم کا تذکرہ ہے۔ اگر بے نظیر بھٹو کی شہادت سے کسی کو صحیح معنوں میں نقصان پہنچا، تو اُنھیں پہنچا۔ تب پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی میں معاملات لگ بھگ طے پا چکے تھے۔ محترمہ معزول چیف جسٹس کے گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کے اعلان سے پیچھے ہٹ گئیں۔ انتخابات قریب تھے، اور ق لیگ کی شکست یقینی تھی۔ ن لیگ کی طاقت میں یکدم اضافہ ہونے لگا۔ اس وقت تک عمران خان کا ستارہ نہیں چمکا تھا۔ ایسے میں یہ پیپلز پارٹی ہی تھی، جو پرویز مشرف کو، جو وردی اتار چکے تھے، صدر برقرار رکھ سکتی تھی۔ محترمہ کی الیکشن مہم زوروں پر تھی، اور مخدوم امین فہیم، جو سندھ اور پارٹی، دونوں میں اثر و رسوخ رکھتے تھے، ہر گزرتے دن کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب کے قریب ہوتے جا رہے تھے۔
اور پھر۔۔۔ 27 دسمبر 2007ء کو راول پنڈی میں محترمہ کو قتل کر دیا گیا۔ اِس ایک واقعے نے پاکستان کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ منصوبہ تلپٹ ہوا۔ پرویز مشرف کو مشکل حالات میں ملک چھوڑنا پڑا۔ آصف علی زرداری ملک کے صدر بنے، اور افتخار چوہدری کی بحالی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا؛ البتہ سب سے زیادہ نقصان مخدوم امین فہیم کو ہوا۔
وہ محترمہ کی جانب سے نامزد کیے جانے کے باوجود، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہونے کے باوجود اور آصف علی زرداری کے وعدہ کے باوجود۔۔۔ وزیر اعظم بننے سے محروم رہے۔
وقت اور حالات نے چند لمحوں میں محترمہ کے جانشین کا فیصلہ کر دیا تھا۔ آصف علی زرداری ایک وصیت اور ''پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے کے ساتھ منظر میں داخل ہوئے۔ بلاول چیئرمین ٹھہرے، خود اُنھوں نے شریک چیئرمین کا منصب سنبھالا۔ جہانگیر بدر پہلے شخص تھے، جنھوں نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ بھٹو ازم نے کام دکھایا۔ مخدوم امین فہیم دھیرے دھیرے غیر متعلقہ ہونے لگے۔ آنے والے دنوں میں اُنھوں نے پارلیمنٹ میں زرداری صاحب کو اُن کا وعدہ یاد دلایا، کچھ سخت بیانات داغے، یہ خبر بھی اڑی کہ ان کی قیادت میں ایک فارورڈ بلاک بننے کو ہے، مگر سب خاک ہوا۔ ناراض امین فہیم مرکزی دھارے کی سیاست سے دور ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے وہ جمہوری حکومت بنائی، جو پہلی بار پانچ برس پورے کرنے والی تھی۔ افتخار چوہدری کے معاملے میں میاں صاحب آصف علی زرداری سے ناراض ہوئے، تو انھوں نے اُسی ق لیگ کو، جسے وہ قاتل لیگ کہا کرتے تھے، ساتھ ملا لیا۔ چند برس بعد مخدوم صاحب کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا۔ معافی تلافی ہوئی۔ وہ واپس آئے، مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔
تو صاحب، اگر وقت اور حالات میاں صاحب کے جانشین کا فیصلہ کریں، تو یہ فیصلہ مریم نواز کے حق میں ہو گا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ فیصلہ ہو چکا، توغلط نہ ہو گا۔ 2013ء میں میاں صاحب کے مسند سنبھالنے کے بعد ہی اس کے اشارے ملنے لگے تھے۔ گو چوہدری نثار بچوں کو غیر سیاسی ٹھہراتے ہیں، مگر پاناما کیس اور این اے 120 کی انتخابی مہم نے اِس امر پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔ حمزہ شبہاز، اگر ہم یہ مان لیں کہ ن لیگ Good Cop, Bad Cop نہیں کھیل رہی ہے، تو اداروں سے تصادم کی بابت تو اختلافی موقف پیش کرتے ہیں، مگر ساتھ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے اپنے لیے خدمت کا شعبہ چنا ہے۔
تو یہ مریم نواز ہیں، جو بلاول بھٹو کے مانند اپنی پارٹی کی قیادت سنبھال سکتی ہیں۔ ہاں، یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اُن کی طرز سیاست سے ن لیگ کو نقصان پہنچا، مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ میاں نواز شریف کی خاموشی نے مریم نواز کے ہر اقدام کی توثیق کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مریم نواز کی سیاست دراصل نواز شریف کی سیاست ہے۔ جب تک وہ سیاست میں موجود ہیں، نواز شریف سیاست میں موجود ہیں۔
تو اگر وقت اور حالات میاں صاحب کے جانشین کا فیصلہ کریں، تو یہ فیصلہ مریم نواز کے حق میں ہو گا۔ اس راہ میں کوئی اصولی اور اخلاقی رکاوٹ نہیں۔ البتہ ہم معروضی حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، جو میاں صاحب کے راستے میں ہول ناک، بے انت صحرا کے مانند پھیلے ہوئے ہیں۔ احتساب، انکوائریاں، مقدمات، پیشیاں؛ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات کٹھن ہوتے جا رہے ہیں۔ مخالف قوتیں چاہے آنکھوں کے سامنے ہوں، چاہے غیر مرئی، اُنہی کا پلڑا بھاری ہے۔ بے شک شہباز شریف، مخدوم امین فہیم کے مانند، وزیر اعظم نہیں بنے۔ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم اور خود کو پارٹی سربراہ بنوا کر میاں صاحب ایک بڑے بحران سے نکل آئے، مگر سمندر میں ابھی کئی بھنور ہیں۔ نیب، الیکشن کمیشن؛ ایک معمولی سا واقعہ، قلم کی خفیف سی جنبش بھی انتہائی مضر ثابت ہو سکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ''ٹیک اوور‘‘ کے لیے کسی ٹرپل ون بریگیڈ کی ضرورت نہیں۔ جی، ریاض پیرزادہ کے بیان کو کسی سازش سے جوڑنا آسان ہے، مگر معروضی حقائق کو نظر انداز کرنا مشکل۔ کیا یہ مشورہ اُن مشوروں سے زیادہ مضر ہے، جن کی جانب خود شہباز شریف بھی چند روز پہلے اشارہ کر چکے ہیں؟
مارچ 2009ء میں جب وکلا تحریک عروج پر پہنچی، اور میاں صاحب کی قیادت میں ہزاروں افراد نے دارالحکومت کی سمت پیش قدمی شروع کر دی تھی، تب یک دم مائنس ون فارمولا کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ یعنی سسٹم جوں کا توں رہے، بس آصف علی زرداری مائنس ہو جائیں۔ زرداری صاحب تو کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نکل آئے، لیکن کیا میاں صاحب خود کو مائنس ہونے سے بچا سکیں گے؟ کیا سن 70ء کے بعد پہلی بار کوئی پارٹی لگاتار دو الیکشن جیت سکے گی؟ فیصلے کا لمحہ قریب آتا جا رہا ہے۔