فرقہ وارانہ کشیدگی کا سیاسی پہلو

یہ بات عقل و فہم سے بالا تر ہے کہ دو بھائی ، جن کا ایک خالقِ کائنات، ایک کتاب اور ایک پیغمبر ﷺ پرایمان ہواور دیگر مذہبی معاملات پر بھی ان کے درمیان بہت کم اختلافات ہوں اور پھر بھی وہ عقیدے کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہانا رواسمجھیں! اہلِ تشیع اور اہلِ سنت والجماعت کے درمیان مذہب کے بنیادی معاملات پر کوئی فرق نہیںہے تو پھر اتنی نفرت کیوں ہے؟ کوئی منطق ان کے درمیان اختلافا ت کی تائید نہیںکرتی لیکن اسلام کے ابتدائی ایام میں اُبھر آنے والے اختلافات نے اسلامی معاشرے کو منقسم کر دیا، چنانچہ دونوں بڑے فرقے ایک دوسرے سے متحارب رہے ہیں۔ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان فرقوں کے درمیان قدیم زمانے سے جاری کشمکش میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کر سکوں اور نہ ہی میں اس کا مجاز ہوں۔ یہ بات صرف اسلام تک ہی محدود نہیں، دیگر مذاہب میں بھی فرقہ بازی اور خونریز لڑائیاںہوئی ہیں۔ یورپ میں عیسائی فرقوں، کیتھولک او ر پروٹسٹنٹ ،کے درمیان ہونے والی جھڑپوںکی یاد ابھی تک لوگوں کے حافظے سے محو نہیںہوئی۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ عیسائیوں میں مذہبی جذبات کی شدّت میں کمی آنے کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی دم توڑ چکی ہے لیکن مسلمانوںنے ابھی جذبات کو منطق کے تابع کرنا سیکھنا ہے۔ بہت زیادہ خون بہا کر بھی وہ اس بات کا فیصلہ نہیںکر پائے کہ اسلام کی کون سی تشریح درست ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ترکی میں عثمانی خلافت ، جب عرب و عجم کے وسیع علاقے اسی خلافت کے تابع تھے، نے شیعہ سنی جھگڑے کو اُبھرنے نہیں دیا۔ اگرچہ استنبول کے زیر ِ نگیں بہت سے علاقوں میں اہلِ تشیع کے ساتھ امتیاز برتا جاتا تھا لیکن ان دونوں مسالک میں کھلی جنگ کبھی نہیںہوئی تھی۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوںنے بھی ان دونوں فرقوںکو لڑنے کی اجازت نہ دی۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جب نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا اور اسلامی ریاستوں نے آزادی پائی تو دیکھنے میں آیا کہ جن ریاستوںکے سربراہ سیکولر نظریات رکھنے والے تھے، چاہے وہ آمر تھے، اُنھوں نے اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خرابیوںکے باوجود فرقہ وارانہ کشیدگی کا جنّ بوتل سے آزاد نہ ہونے دیا۔ عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی، شام کے اسد اور مصر کے حسنی مبارک نے اپنے اپنے ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کودبائے رکھا۔ ایسا کرتے ہوئے حکمران خاندان نے اپنے مخالف فرقے کو سر اٹھانے کا موقع نہ دیا۔ تاہم اب ان ممالک میں صورت ِ حال تبدیل ہورہی ہے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے اور اس دور میں بہت سے سیاسی اُفق تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ان د ونوں فرقوں کے درمیان پایا جانے والا سیاسی تنائو شاید اتنا قابلِ تشویش نہ ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد کو شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ مخالف فرقے کو دباکر اُن کی ’’اسلامی ‘‘ حکومت قائم ہو سکتی ہے۔اگرچہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا لیکن ، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، جدید دور میں ایسا نہیںہوا۔ حتیٰ کہ ایران اور عراق کے درمیان لڑی جانے والی طویل جنگ بھی فرقہ وارانہ بنیادوںپر نہیںتھی۔ اس کے محرکات سیاسی اور جغرافیائی تھے، تاہم بدقسمتی سے اس جنگ نے بھی ان دونوں فرقوںکے پیروکاروںکے درمیان بداعتمادی کے جذبات کو گہرا کر دیا۔ جب امریکہ نے 2003ء میں عراق پر حملہ کیا تو صدام حسین کی بعث(Bath) پارٹی کے خاتمے کے بعد اہلِ تشیع اقتدار میں آ گئے۔ اس نے ایران کو سیاسی طور پر تقویت دے دی۔ دراصل خلیجی جنگ کو مشرقِ وسطیٰ کے خطّے میں ایرانی اثرو رسوخ میں اضافے کا باعث دیکھا گیا۔ جب شام میں ’’عرب بیداری ‘‘ کی لہر پیدا ہوئی تو ترکی، سعودی عرب اور قطر (سنی ممالک ) نے اسی حمایت کی کیونکہ ان کو ایران کو اپنی حد میں رکھنے کا موقع ملتا نظر آیا۔ عالمی تناظر ، جو کہ خالصتاً سیاسی ہے، مغربی قوتوںنے بھی اسد مخالف گروہوں کے ہاتھ مضبوط کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تاہم یہاں مغربی طاقتوںسے اندازے کی غلطی ہوگئی ہے۔ بشار الاسد کے خلاف حمایت کرتے ہوئے اُنھوںنے در اصل دوسرے گروہوں کو تقویت دے دی ہے۔ اب شام کے زیادہ تر علاقے اُن کے قبضے میں جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغربی طاقتیں اسد مخالف گروہوںکو بھاری ہتھیار ، جیسا کہ میزائل، دینے میں نہایت احتیاط سے کام لے رہی ہیں کہ مبادا یہ ہتھیار اسرائیل مخالف گروہوں کے پاس پہنچ جائیں ، یا ان سے اسرائیلی اور یورپی طیاروں کو نشانہ بنایا جائے۔ ایران اور حزب اﷲ اس کوشش میںہیںکہ بشار الاسد کے اقتدار کوقائم رکھا جائے۔ وہ جانتے ہیں کہ مضبوط فوج رکھنے والے دمشق میں ایک سنی حکومت ان دونوںکو مشکل میں ڈال دے گی۔ اسی دوران شام میں سیکولر قوتوںکو انتہا پسند قوتوں نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ شام کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنا پر دولخت نہ ہوجائے۔ اس سے خطّے میں ناقابلِ بیان افراتفری پھیل جائے گی۔ اس سے ایک ’’چین ری ایکشن‘‘ شروع ہونے کا خدشہ ہے اور اس کا سب سے پہلا شکار لبنان ہو گا جہاں کی حکومت کمزور اور متحارب گروہ طاقتور ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں حالیہ فرقہ وارانہ بنیادوںپر ہونے والی خونریزی کا تعلق ہے تو یہ اس کشیدگی کا نیا پہلو ہے۔ برِّ صغیر میں گرچہ شیعہ سنی اختلافات موجودرہے لیکن اس طرح وسیع پیمانے پر خونریز ی کبھی نہیںہوئی تھی۔ عاشورہ پر کچھ جھگڑے ہوتے، مناظرے ہوتے‘ مخالفت میں کتابیں لکھی جاتیں، لیکن وہ سب باتوں کی حد تک تھا۔ اسی برِّ صغیر نے عطااﷲ شاہ بخاری کے جلسے بھی سنے ہوئے ہیں، اور اسی مٹی سے میر انیس ، دبیر اور جوش ملیح آبادی نے جنم لیا ہوا ہے۔ یہ ایک زندہ روایت تھی لیکن آج پاکستان کی زمین لہو رنگ ہو چکی ہے۔ اس کے عوامل کو ایک خاص پس ِ منظر میں دیکھنا غلطی ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا تو اپنی والدہ کے ساتھ مجالس میں جایا کرتا تھا۔ مجھے وہاں جاکر خوشی ہوتی تھی کیونکہ میں بہت اچھی اچھی چیزیں کھا سکتا تھا۔ جب میں سکول میں گیا تو مجھے شیعہ سنی اختلاف کا علم نہ تھا۔ اُس وقت اُس کی ’’ضرورت ‘‘ بھی نہ تھی۔ میرے بہت سے دوست تھے، اُن میں سنی بھی تھے، شیعہ بھی تھے، اسی طرح عیسائی اور پارسی بھی تھے(کراچی نے یہ اچھا وقت بھی دیکھا ہوا ہے)۔ افسوس، ہم بہت دور آگئے ہیں۔ کیا ہم بچوں سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟ وہ مل کرکھیلتے ہیں، لڑتے ہیں، پھر ایک ہوجاتے ہیں۔ کاش ہم اپنے بچوں کی برین واشنگ نہ کریں اور ہمیں اس بات کی سمجھ آجائے کہ کسی دوسرے کا عقیدہ درست ہے یا غلط، یہ ہمارا سر درد نہیںہے۔ وہ خود اس کا جواب دیتا رہے گا۔ بہت دیر سے یہی بات مغربی دوست ہمیں سمجھانے کی کوشش کررہے تھے لیکن ہم نے ایک نہ سنی۔ پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے لیکن شاید ابھی واپسی کے دروازے بند نہیںہوئے ہیں۔ آیئے ، امن کی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں