صدر اوباما کی وعدہ خلافی

اُن لوگوںکو، جو ابھی تک یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ مسئلہ فلسطین پر متوازن اور معتدل راہ اپنائے گا‘ صدر اوباما کے اس خطے کے حالیہ دورے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ رملہ (Ramallah) میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران جب اُن سے اسرائیل کی طرف سے مغربی پٹی پر تعمیر و توسیع کی پالیسی جاری رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے سوال سے پہلوتہی کی کوشش کرتے ہوئے مبہم جواب دیا۔ اسرائیل کی اس پالیسی کو ’’پریشان کن ردِ عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ یہ ایک ’’معمولی‘‘ مسئلہ ٔہے اور جب (اگر) پُرامن مذاکرات ہوں گے تو اس کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے توسیع پسندی دراصل غزہ سے گاہے بگاہے فائر کیے جانے والے راکٹوںکا ردِ عمل ہے۔ اس پر فلسطین کے صدر محمود عباس نے اپنے مہمان کو یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی کم از کم تیرہ قراردادیں ان بستیوںکو غیرقانونی قرار دے چکی ہیں۔ اس کے برعکس، جب اوباما دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملے تو وہ بہت پُرجوش اور واضح تھے۔ اُنھوں نے اپنی تقریر میں وہ سب کچھ کہا جو اسرائیل سننا چاہتا تھا: امریکہ ان کا دائمی حلیف ہے اور وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے سب کچھ کرے گا۔ یہ سب کچھ صدر اوباما کی 2009 ء میں قاہرہ میں کی گئی تقریر کے متن کے برعکس ہے۔ اُس تقریر میں امریکی صدر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مزید بستیوںکی تعمیر روک دے ۔ اُنہوں نے فلسطین کی ایک واضح ریاست کے قیام پر بھی زور دیا؛ تاہم اُس تقریر کا اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا اور اُس نے مزید زمین پر قبضے کی پالیسی جاری رکھی۔ اب اسرائیل بیت المقدس کے نزدیک اُس علاقے میں بستی تعمیر کرنا چاہتا ہے جہاں تعمیر شدہ گھر مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے کو جدا کر دیںگے۔ اس سے فلسطین کی مجوزہ ریاست اپنے دارالحکومت سے دور ہو جائے گی۔ اگرچہ باقی مہذب دنیا نے اسرائیل کے اس اقدام کی کھلے الفاظ میں مذمت کی لیکن امریکی صدر نے صرف اتنا کہنا ہی کافی سمجھا ہے کہ اسرائیل کا یہ منصوبہ ’’قیام امن کے لیے مددگار نہیںہو گا‘‘۔ اس بات کی تفہیم کرنے کے لیے کہ صدر اوباما اسرائیلی خواہشات کے سامنے سرنگوں کیوں ہو گئے ہیں، Pew Institute کی طرف سے حالیہ دنوں میں کیے جانے والے سروے کا جائزہ لینا مناسب رہے گا۔ اس سروے کے مطابق 64 فیصد امریکی اسرائیل کے حامی ہیں۔ رپبلکن پارٹی کی صفوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے والوںکی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ صدر اوباما کو ایک کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے امریکہ کو اُن جنگوں سے دور کرنے کی کوشش کی ہے جن میں اُن کے پیش رو بش نے ملک کو الجھا دیا تھا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے ایران پر حملہ کرنے کے لیے تل ابیب اور امریکی انتہا پسند نظریات رکھنے والوں کے متواتر مطالبات کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ مزید یہ کہ وہ شام میں بھی کھلی مداخلت کرنے سے باز رہے؛ تاہم ان ’’پُرامن‘‘ اقدامات کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ اندرونی حالات تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکی معیشت ان جنگوںکی وجہ سے دبائو کا شکار ہے اور داخلی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے اوباما چاہتے ہیں کہ کچھ ری پبلکن ارکان کم از کم بجٹ بنانے میں تو اُن کی حمایت کریں کیونکہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں اپوزیشن جماعت کو اکثریت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نیتن یاہو کے ساتھ سخت لہجہ اپنانے کے متحمل نہیںہو سکتے تھے۔ اس طرح فلسطین کی قسمت امریکی داخلی سیاست کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں؛ تاہم ان برسوں میں علاقائی سیاست کے حوالے سے ایک مفروضہ تبدیل ہو رہا ہے، یہ کہ اب امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے تیل پر زیادہ انحصار نہیں کرتا ہے۔ اس سے پہلے اس خطے کے لیے پالیسی بناتے ہوئے واشنگٹن ان عوامل کو مدنظر رکھتا تھا لیکن تیل اور گیس کے لیے ’’مشرق کی طرف جھکائو‘‘ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اب امریکہ کو عرب دنیا کی اتنی ضرورت نہیں رہی۔ ان عوامل کے علاوہ عرب دنیا میں پھوٹنے والی بیداری کی لہر بھی امریکہ کے لیے غیریقینی صورت حال پیدا کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے اب زیادہ تر امریکی کھلے عام اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگرچہ اب مصر میں ایک اسلامی جماعت اقتدار میں ہے لیکن صدر مورسی معاشی طور پر بڑی حد تک امریکی تعاون کے دست نگر ہیں۔ وہ امریکہ سے سالانہ دو بلین ڈالر امداد وصول کریں گے۔ اس کے علاوہ امریکی فوج بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ایسی پالیسی نہیں بنانے دے گی جس کی رو سے اسرائیل کو جدید ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ شام میں افراتفری ہے۔ وہاں حالات کے معمول پر آنے میں ابھی خاصی دیر ہے۔ ایران اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور دیکھ رہا ہے کہ اس کا حلیف بشارالاسد گزرنے والے ہر دن کے ساتھ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ایران بھی پابندیوںکی وجہ سے معاشی کمزوری کا شکار ہے۔ احمدی نژاد کا اعتماد ایک طرف لیکن ایران اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوسری طرف ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حماس اپنے جنون پر قابو پا کر الفتح کے ساتھ مل کر قابل ذکر قوت کا روپ دھارنے سے قاصر ہے۔ اس کی طرف سے راکٹ باری سے اسرائیل کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا، اُلٹا فلسطین کے لیے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ اسرائیل خود بھی قیام امن کا خواہش مند نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ جو علاقہ اُس نے1967ء میں حاصل کیا تھا اُسے ہاتھ سے نہ جانے دے اور فلسطینیوں کو دبا کر رکھے۔ ’’امن کے لیے زمین‘‘ کا فارمولہ صرف ایک سراب ہے۔ گزشتہ چھیالیس برسوں میں اسرائیل دیکھ چکا ہے کہ وہ جتنی چاہے زمین پر قبضہ کر لے، اقوام متحدہ نرم الفاظ میں اس کی مذمت کے سوا کچھ نہیںکر سکتی۔ باقی دنیا بھی مذمت کے علاوہ اور کچھ نہیںکر نا چاہتی۔ امریکہ پر الزام لگاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلم دنیا کے اپنے معاملات بھی بہت اُلجھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اپنے مقاصد میں بہت واضح ہے، اُس نے ہر قیمت پر فلسطین کی زمین پر قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اس نے اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے اس کی غیر مشروط حمایت جاری رکھنی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تمام اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت کرتی ہے لیکن زبانی دعووںکے سوا کوئی بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے۔ کچھ دولت مند عرب ریاستیں فلسطین کو کبھی کبھار کچھ رقم دے دیتی ہیں لیکن وہ اپنا سفارتی دبائو ڈال کر امریکہ کو اسرائیل کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش نہیںکرتیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسرائیل نے غزہ کو ایک جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ چنانچہ ہمیں امریکی صدر کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کہ وہ اپنے الفاظ سے کیوں پھر گئے ہیں۔ اُنھوں نے وہی کچھ کیا جو ایک امریکی صدر کر سکتا ہے۔ اپنی عمدہ تقاریر کے باوجود وہ دیگر امریکی صدور سے مختلف نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں