انتخابات اور اخلاقیات

اچھاہوا میں اگلے ماہ ہونے والے انتخابات لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتاورنہ سخت نظریات رکھنے والے کسی ریٹرننگ آفیسر کے سامنے اسلامیات کے امتحان میں ناکامی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ پریس میںا ٓنے والی رپورٹس کے مطابق جب اویس مظفر ٹپی، جس کو صدر زرداری کے سوتیلے بھائی کے طور پر جانا جاتا ہے اور جن کا حکومت ِ سندھ میں خاصا اثر ورسوخ ہے، اپنے کاغذات ِ نامزدگی جمع کرانے گیا تواُن سے اسلامی تاریخ اور رسومات پر دقیق سوالات پوچھے گئے۔ خوش قسمتی سے وہ جواب دے گیا ورنہ سندھ کی اگلی اسمبلی میں اُس کی موجودگی کا امکان معدوم ہوجاتا۔ ٹپی انتخابات میں ہارے یا جیتے، میری بلا سے، لیکن اگر اُسے ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے پوچھے گئے سوالا ت کا جواب نہ دینے پرنااہل قرار دیا جاتا تو میں اس پر شدید احتجاج کرتا۔ ایک سرکاری افسر کا کیا کام ہے کہ وہ سیاسی نمائندوں کی مذہبی علوم پر دسترس کی جانچ کرے ؟میں بھی شاید اپنے دوست کالم نگار ایازامیر کی طرح ریٹرننگ آفیسر کو نظریہ پاکستان کے بارے میں مطمئن کرنے میں ناکام رہتا۔ہو سکتا ہے کہ ووٹ دیتے وقت کچھ لوگوں کے ذہن میں ہو کہ امیدوارکے مذہبی نظریات کیا ہیں لیکن یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے کہ وہ امیدوار کی اہلیت کے لیے اس طرح کے پیمانے وضع کرے۔ یہ بات اور بھی تعجب خیز ہے کہ یہ سب کچھ فخرالدین ابراہیم ،جو اپنے لبرل نظریات اور اعلیٰ ظرفی کی وجہ سے مشہور ہیں، کی زیر ِ قیادت ہورہا ہے ۔ اس وقت آئین کے آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کے حوالے سے ملک میں مچا ہوا شور اُس منافقت کی غمازی کرتا ہے جو پاکستان میں کافی عرصے سے پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ دونوں آرٹیکلز انتخابی امیدوار کے اخلاق اور مذہب کے بارے میں علم کی جانچ کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنی اسمبلیوں میں فرشتوں کو بٹھانا چاہتے ہیں؟ یہ بات میرے فہم سے بالا ہے کہ کس طرح کسی شخص کی مذہب کے ساتھ وابستگی، جو سراسر ایک ذاتی معاملہ ہے، اُسے ایک اچھا عوامی نمائندہ بناتی ہے؟ اگر یہ عوام کی خواہش ہوتی جیسا کہ جمہوریت میں عوامی خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے تو پھر وہ پہلے ہونے والے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتے دکھائی دیتے۔لیکن ہم سب جانتے ہیںکہ ہمارے ملک میں مذہبی جماعتیں کبھی مضبوط سیاسی پوزیشن حاصل نہیں کر پائیں۔ شاید ہماری تاریخ میں ایک مرتبہ ہی وہ صوبوں میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آئی ہیں ،2002 ء میں جب اُنہوںنے بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں حکومتیں بنائی تھیں۔ تاہم وہ کامیابی عوامی حمایت سے زیادہ جنرل (ر) مشرف کے کسی منتر کا نتیجہ تھی۔ چنانچہ جب سخت گیر رویّوںکے حامل رہنما عوام کے سامنے جاتے ہیں تو ان کو پذیرائی نہیں ملتی۔ اب تک ہونے والے قومی سطح کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو کل ڈالے گئے ووٹوں کا پانچ فیصد سے زائد کبھی حاصل نہیںہوا ۔ کیا اس سے پاکستانی ووٹر کی ترجیحات کا اندازہ نہیںہوتا ؟وہ علماء کرام کا احترام کرتا ہے اوراخروی زندگی کے معاملات میں ان پر بھروسہ کرتا ہے لیکن سمجھداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے وہ سمجھتا ہے کہ ان علما ء کو سڑکیں، پل، بجلی کے منصوبے بنانے کے علاوہ تجارت، معیشت، تعلیم وغیرہ جیسے دنیاوی کاموں میں ملوث نہ کیا جائے ۔ اُن کا خیال ہے کہ ان دنیاوی کاموںکے لیے مرکزی سیاسی جماعتیں بہتر رہیں گی۔ جب سے ہمارے مذہبی رہنمائوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ہے ، پاکستانی ووٹر کی یہ سوچ تبدیل نہیںہوئی۔ چنانچہ ہمارے ملک میں اسے ایک سیاسی حقیقت سمجھ لیںکہ سیاست دانوں کا کام ریاست کے معاملات چلانا جبکہ مذہبی طبقے کا کام مذہبی معاملات میں رہنمائی کرنارہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مدرسہ طلبہ کو معیشت اور انتظامی امور میںمہارت نہیں سکھاتا۔ اس سے یہ خیال کرنا درست نہیںہے کہ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے ان کاموں میں استادانہ مہارت رکھتے ہیں، تاہم وہ اپنے معاملات میں قدرے لچک دار ہوتے ہیں اور مذہبی نظریات کا پرچار نہیںکرتے ۔ برٹش کونسل کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اٹھارہ سے بیس سال کے 5,000 پاکستانی نوجوانوں میںسے 29 فیصد نے جمہوریت، 32 فیصد نے فوجی حکمرانی اور 38 فیصد نے شریعت کے نفاذ کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار خاصے حیرت انگیز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی طویل عرصے سے اسلامی نظام کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں لیکن جب ووٹ دینے کا موقع آتا ہے تو وہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے۔ یہ تضادات ایک منقسم معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جس کے مفادات اور ترجیحات میں بہت فرق ہے۔ اگرچہ میڈیا بھی نیکی اور پرہیزگاری کی باتوںسے گونجتا رہتا ہے لیکن یہاں موجود مہمان اور میزبان کا عملی زندگی میں ان دونوں صفات سے متصف ہونا لازمی نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ شریعت کے حامی دکھائی دیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کا کردار اور مشاغل ان کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے، اسی طرح کئی لوگ زبانی جمع خرچ کے طور پر’’ دختر ِ انگور‘‘ کی مذمت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کے ڈرائنگ روم اسی کے دم قدم سے بارونق رہتے ہیں۔ بظاہر اس ملک میں ہرقسم کا جوا اورشرط لگانا ممنوع ہے لیکن عملی طور پر سب کچھ ہوتا ہے اور ہم منافقت کے گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کا اصل مقصد ، اگر کوئی ہے، بددیانت افراد کو عوامی نمائندگی کے حق سے روکنا ہے۔ اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیںہے، تاہم ہمارے ہاں سمگلر، قرض ہڑپ کرجانے والے اور بدعنوان لوگ بلاروک ٹوک اسمبلیوں میں آجاتے ہیں۔ وہ کس چھلنی میں سے گزر کر آتے ہیں؟جہاں تک موجودہ کارروائی سے بدعنوان افرا د کا راستہ روکے جانے کا تعلق ہے تو یہ بات قابل ِ تعریف ہے، لیکن اسے نیکی و بدی جانچنے کا ترازو نہیں بنا لینا چاہیے ۔ یہ صرف رائے دہندگان کا کام ہے کہ وہ سیاسی نمائندوں کے کردار کی جانچ کریں۔ الیکشن کمیشن اور اس کے افسران اس بات کا فیصلہ نہ کریں کہ کون انتخاب لڑے گا اور کون نہیں۔ ان کی کارروائی کا دائرہ کار قرضہ جات ، ٹیکس اور بلوں کی عدم ادائیگی اور تعلیمی اسناد کی صحت تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ یقینا عوامی نمائندوں کو ایماندار ہونا چاہیے لیکن نیکی اور پرہیزگاری جانچنے کا پیمانہ کیسے طے کیا جائے ؟ ان صفات کو کیسے جانچا جائے؟ کیا ہم ان باتوں پر کبھی غور کریں گے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں