جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ، این ٹری کی ’’گرینڈ نیشنل ریس ‘‘ شروع ہو چکی ہے۔ میںنے ہفتے کے اخبارات کے سپورٹس کے صفحات پر نظر دوڑاتے ہوئے کچھ معلومات حاصل کیں۔ ان حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ، میںنے سوچا کہ ’’Tarquinias‘‘ نامی گھوڑا 66-1 پر مناسب رہے گا، گارڈین کے گھوڑوںکی ریسوں کی رپورٹنگ کرنے والے نمائندے کا بھی یہی خیال تھا۔ یہ ریس ہر سال منعقد ہوتی ہے اور میں انگلینڈ کی اس مقبول ترین ھارس ریس میںا پنی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اس پر چند پائونڈز ضرور لگاتا ہوں۔ اس کے لیے میں عام طور پر کم معروف گھوڑوں کا انتخاب کرتا ہوں۔ اس ریس کا فاصلہ ساڑھے چار میل ہوتا ہے ۔ تیس رکاوٹوںکے ساتھ یہ ایک دشوار راستہ بن جاتا ہے، چنانچہ مشہور اور نامی گرامی گھوڑے اس میں کم ہی جیت پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کسی گمنام گھوڑے پر رقم لگانا پسند کرتا ہوں۔ موجودہ ریس کے لیے مجھے ’’Tarquinias‘‘کے امکانات روشن نظر آتے تھے، لیکن اگر میں اس کی بجائے کسی اور کا انتخاب کرتا تو وہ ’’Auroras Encore‘‘ ہوتا۔ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میر ی خوش قسمتی ہوتی کیونکہ یہی گھوڑا فاتح قرار پایا جبکہ جس گھوڑے ’’Tarquinias‘‘ پر میںنے رقم لگائی ہوئی تھی، ساتویں نمبر پر آیا۔بہرحال وہ ان گھوڑوں میں سے ایک تھا جو ریس کے اختتام پر رنگ میں موجود رہے، کیونکہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ جن گھوڑوں پر میری نگاہ ِ انتخاب پڑتی تھی، اُن میں سے اکثر پہلی رکاوٹ بھی عبور نہیں کر پاتے تھے۔ ہم سری لنکا ، ویت نام اور پاکستان میں کم وبیش چھ ماہ گزارنے کے بعد چند دن پہلے انگلینڈ آئے ہیں۔یہاں کا موسم خاصا سرد ہے۔ جب میں ہیتھرو ائیرپورٹ سے باہر آیا تو دل چاہا کہ اس وقت میں کراچی میں ہوتا۔ یہاں ہوائی اڈے سے لے کر ہمارے گھر، جو کہ ڈیویزز (Devizes) میں ہے ، کا راستہ ویران اور بے کیف تھا۔ اس مرتبہ تقریباً تمام یورپ میں ہی سرد ترین موسم ِ سرما تھا۔ ہمارے دوست ہمیں ای میلز پیغامات کے ذریعے خبردار کر رہے تھے کہ ابھی یہاں آنے کا فیصلہ مؤخرکر دیں۔ گزشتہ چند برسوں سے ہم جان بوجھ کربرطانیہ میں موسم ِ سرما گزارنے سے احتراز کر رہے تھے۔ ہم یہاں موسم ِ بہار میں آتے تھے لیکن اس مرتبہ قسمت نے ساتھ نہ دیا اورہم مارچ میں اس وقت یہاں آئے جب یورپ گزشتہ پچاس برس کے سرد ترین موسم سے نبرد آزما تھا۔ موسم کی سختی کے علاوہ چھائی ہوئی ا س ویرانی کے پیچھے حکومت کی طرف سے فلاحی رقوم میں کمی کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ عوام کوصحت، رہائش، بے روزگاری الائونس اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دی جانے والی امداد میں بتدریج کمی لائی جارہی ہے۔ برطانیہ کے پنشن کے امور کی نگرانی کرنے والے سیکرٹری آئن ڈنکن سمتھ اس ضمن میں مزید کٹوتیوں کا اعلان کررہے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بائیں بازو کے سیاسی حلقے شدیدمشتعل ہیں جبکہ اخبارات اپنے اداریوں اور مضامین میں اسے غیر منصفانہ قرار دے رہے ہیں۔ چانسلر جارج اوسبرن سے لے کر حکومت کے دیگر ترجمانوں تک کا موقف ہے کہ وہ بے کاری اور کاہلی کے خاتمے کے لیے حقیقت پسندی پر مبنی پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ اس وقت فلاح و بہبود کے نام پر بعض افراد 26,000 پائونڈز سالانہ حاصل کررہے ہیں اور یہ رقم اُس تنخواہ سے بھی زیادہ ہے جو بعض افراد ملازمت کے آغاز میں حاصل کرتے ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ بہت سے افراد ریاست کی طرف سے ملنے والی امدادی رقوم کا منفی فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن یقینا مستحقین کی تعداد بھی کم نہیںہے۔ ایک اور متنازعہ ٹیکس ریفارم ’’بیڈ روم ٹیکس ‘‘ ہے۔ اس کے مطابق اگر رفاہی امداد حاصل کرنے والے کسی شخص کے گھر میںکوئی فالتو بیڈروم ہو تو اُسے ملنے والی رقم میں چودہ فیصد کمی کر دی جائے گی۔ اس ریفارم کا مقصد یہ تھا کہ لوگ چھوٹے گھروں میں رہیں تاکہ بڑے اور خوشحال خاندانوں کے لیے زیادہ جگہ میسر آ سکے۔ تاہم اس اقدام پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنے چھوٹے گھر بہت کم ہیں جہاں کوئی فالتو بیڈروم نہ ہو۔ اس طرح بہت سے لوگ اس ریفارم سے متاثر ہوں گے۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے لوگوںنے حال ہی میں اپنے گھروں میں تبدیلیاں کرکے گنجائش میں اضافہ کیا ہے، چنانچہ اب ان پر اس طرح دبائو ڈالنا مناسب نہیںہے۔ برطانوی فلاحی نظام دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ شروع میں اس کا مقصد غریب اور بے روزگار افراد کی کفالت کرنا تھا۔ ’’نیشنل ہیلتھ ‘‘ پروگرام کے تحت اس فنڈ سے لاکھوں افراد صحت کی سہولیات مفت حاصل کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے برطانوی حکومت معاشرے کے غریب اور متاثرہ افراد کی نگہداشت کرنے میں سب پرسبقت لے گئی۔ تاہم ان رفاہی اقدامات کی قیمت یقینا بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ آج عوام پر کیے جانے والے اخراجات کا تیسرا حصہ صرف پنشن یافتہ ، بے روزگار اور بے گھر افرادکی کفالت اور صحت کی مفت سہولیات پر خرچ ہوتا ہے۔ تاہم معاشی انحطاط کے اس دور میں کنزرویٹو پارٹی کی حکومت رفاہی منصوبوں کو فراہم کی جانے والی رقوم میںکمی لانے پر مجبور ہے ۔ اگرچہ بہت سے لوگ حکومت کے ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے قومی بجٹ پر پڑے دبائو میں کمی ہو گئی، لیکن ان اقدامات کے مضمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لوگ اس بات پر بھی طیش میں ہیں کہ اُن کو دی جانے والے رقوم میں تو کٹوتی کی جارہی ہے لیکن بنکار، جو اس معاشی بحران کے ذمے دار ہیں ، سے کوئی باز پرس نہیںکی جارہی ۔ اخبارات میں ایسی کہانیاں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ یہ ’’کنگال ‘‘ نواب گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر بھاری رقوم حاصل کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج انگلینڈ میں سرد موسم اور معاشی بحران کی وجہ سے دوکانوںکی رونقیں ختم ہوچکی ہیں۔ ہمارے علاقے ڈیویزز میں بہت سی جانی پہچانیں دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ فی الحال مجھے نوادرات کی ایک دکان کھلی دکھائی دی ہے۔ فلاحی رقوم میںکمی لانے کا منصوبہ ایک غیر معمولی واقعے سے شروع ہوا۔ گزشتہ سال ایک گھر میں لگنے والی آگ میں چھ بچے جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کے والد مائیک فلپوٹ نے اپنی بیوی میریڈی اور ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا تھا کہ وہ گھر کو نذر ِ آتش کرکے بچوںکو بچا لیں گے۔ اس کا مقصد فلپوٹ کی سابقہ محبوبہ ، جو پانچ بچے چھوڑ کر فرار ہو گئی تھی، پر الزام لگانا تھا کہ آگ اُس نے لگائی ہے۔ تاہم یہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ اُن کو بچوںکو باہر نکالنے کا موقع نہ مل سکا۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب وہ گرفتار ہوتی تو وہ اُسے مجبور کرتے کہ وہ بچوں کی نگہداشت خود کرے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ فلپوٹ سترہ بچوںکا باپ ہے اور اُس نے کئی سال سے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ وہ ان بچوں کی نگہداشت کے نام پر پچاس ہزار پائونڈز سالانہ وصول کرتا ہے۔ الزام ثابت ہونے پر اُسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر دائیں بازو کے میڈیا نے شور مچانا شروع کر دیا کہ فلاح وبہبود کے تصور کو پامال کیا جارہا ہے۔ مشہور اخبار ’دی ٹائمز ‘‘ نے لکھا کہ فلاحی رقوم صرف اُن خاندانوں کو فراہم کی جائیں جن کے بچوں کی تعداد دو سے زیادہ نہ ہو۔ اس وقت زیادہ تر برطانوی طبقے اس رائے کے حامی ہیں۔ اگر اس کو منظور کر لیا جاتا ہے تو اس سے پاکستانی خاندان بھی متاثر ہوںگے کیونکہ ان کے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔