مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ میرے پرانے دوست اقبال احمد، جن کی یاد اب بھی ستاتی ہے، کو وفات کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ایوارڈ دیا ہے کیونکہ اُنھوں نے مشرقی پاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں، جن میں بہت سا جانی نقصان ہوا، کے خلاف اصولی موقف اپنایا تھا۔ افسوس، ابھی اقبال احمد کی اپنے وطن، پاکستان، میں اُس طرح پذیرائی نہیںہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ اب جبکہ برقی میڈیا پر اُن کا نام گردش میں آیا تو مجھے یاد آیا کہ نوے کی دہائی میں جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت تھی، تو میں اور اقبال احمد اکثر محترمہ کی طرزِ حکمرانی پر باتیں کرتے رہتے تھے۔ اقبال احمد کا کہنا تھا کہ محترمہ میں ’’تصورات کی کمی‘‘ ہے۔ میں جواب دیتا کہ ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو تصورات رکھنے کی بجائے انتظامی صلاحیتوںسے مالا مال ہو کیونکہ ہمیں خوابوں کی نہیں، ان کی تعبیر کی ضرورت ہے۔ تاہم اقبال احمد، جو خود بھی تصورات کی دولت سے مالامال تھے، مجھ سے اختلاف کرتے۔ یہ بحث رات گئے تک جاری رہتی۔ اس بات کو آج دو عشرے بیت چکے ہیں، لیکن یہ بحث ابھی تمام نہیںہوئی۔ عمران خان ہمیں ایسے پاکستا ن کے بارے میں تصورات پیش کر رہے ہیں جو بدعنوانی، جبر اور غیرملکی امداد سے پاک ہو گا۔ ان کے پاکستان میں، ہر کسی کو انصاف حاصل ہو گا، لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی۔ دوسری طرف نواز شریف محنت اور منظم اصولوں کی بنیاد پر بہتر انتظامیہ اور خوشحالی کی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اُن کا یہ دعویٰ نہیںہے کہ وہ اس نظام میں انقلابی تبدیلی لاتے ہوئے اس کی تطہیر کر دیںگے بلکہ یہ کہ وہ اسی کے اندر رہتے ہوئے اچھا نظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پی پی پی کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے: نہ تصورات اور نہ نظم و نسق کا وعدہ۔ ان کا واحد دعویٰ یہ ہے کہ پی پی پی پاکستان کی واحد وفاقی جماعت ہے جس کی جڑیں پاکستان کے تمام صوبوں میں پائی جاتی ہیں؛ تاہم یہ معروضہ پاکستان کے مسائل میں گھرے ہوئے شہری کو متاثر کرنے کے لیے کافی نہیں۔ ووٹرز کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ پی پی پی حکومت آئینی مدت پوری کرنے والی پہلی حکومت بن گئی ہے۔ وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس مدت کے دوران اُنھوں نے کیا پایا ہے؟ اس سوال کا جواب پی پی پی کے پاس یہ ہے کہ اُنھوں نے اٹھارہویں ترمیم منظور کر کے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا ہے۔ اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے، لیکن لوگ اس عمل کا اپنی زندگی پر کوئی واضح اثر نہیں دیکھتے۔ عوام کے لیے سب سے تشویشناک معاملہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت ِ حال اور فروغ پاتی ہوئی بدعنوانی ہے۔ آج کے پاکستانی کے لیے ’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ اُس طرح متاثر کن نہیں جتنا ساٹھ کی دہائی میں تھا۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتیں بھی میدان میں ہیں۔ اُن کے پاس بھی عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے تصورات کی کمی نہیں۔ ان کی دنیا میں آئین کی بجائے مقدس کتاب کی حکمرانی ہو گی۔ اس میں خلیفہ حکمرانی کرتا ہے اور کسی نہ کسی طریقے سے عام انسانی زندگی اسلام کے ابتدائی دور کے مطابق ڈھل جائے گی۔ تاہم یہ مذہبی رہنما یہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیسے ہو گا اور کس طرح یہ ملک بیک جنبش قلم تمام برائیوں اور مسائل کے گرداب سے نکل آئے گا۔ اس سے پہلے ضیا دور میں بھی اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی حکومت سازی کا موقع ملا۔ ان کے دور حکمرانی کے بارے میں کسی کو بھی مغالطہ نہیں ہے اور کوئی بھی ان کے دور کی واپسی نہیںچاہتا۔ بہرحال وہ اسی تصورکو لے کر میدان میں عوام کے سامنے موجود ہیں تاہم اب’’ ووٹ کے بدلے جنت لیں‘‘ کے نعرے سے عوام متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ جماعتیں کسی نہ کسی حکمران جماعت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ عام دنیا میں تصورات رکھنے والے لوگ عملی لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکتے لیکن ہماری یہ مذہبی جماعتیں بارہا ثابت کر چکی ہیں کہ مذہبی تصورات اپنی جگہ، وہ دنیا سے اتنے بھی دور نہیں جتنے لگتے ہیں۔ عمران خان بھی سیکولر جماعتوں کی بجائے مذہبی جماعتوں کی سنگت میں اپنے لیے آسانی محسوس کریں گے۔ ایک چیز جو ان جماعتوں کے درمیان مشترک ہے، یہ ہے کہ ان کے پاس انقلابی اور جدت پسند نظریات کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی نہیں جانتا کہ وہ اگلے سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا پالیسی اپنائیں گے؟ امریکی انخلا کے مضمرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک مثبت افغان پالیسی ہماری جماعتوںکی اولین ترجیح ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے زیادہ تر انتخابی امیدوار امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا ان کے پاس اپنے بڑے ہمسائیوں کے حوالے سے کوئی نئے تصورات پائے جاتے ہیں؟ وہ واشنگٹن کے ساتھ کیسے تعلقات رکھیں گے؟ داخلی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے سب سے بڑے دشمن، آبادی میں بلاروک ٹوک اضافے، کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے کی روادار نہیں۔ ہم آبادی کے لحاظ سے اس علاقے میں سب سے فزوں تر قوم ہیں۔ یہ ہاتھی (کثرت آبادی) ہمارے خیمے میں گھس آیا ہے اور قہر یہ ہے کہ یہ ہمیں نظر بھی نہیں آتا۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہم بہت سے مسائل کا شکا ر ہیں، جیسا کہ پانی کی کمی، بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ۔ درحقیقت پاکستانی سیاست کا مقصد ملک و قوم کے لیے بہتر پالیسی سازی نہیں بلکہ صرف اقتدار کا حصول ہے۔ یہ درست ہے کہ اقتدار کے بغیر پالیسی سازی بے معنی ہے لیکن ہمارے سیاست دان صرف اپنے لیے، نہ کہ عوام کے لیے، طاقت کا حصول چاہتے ہیں۔ پی پی پی کی سابقہ حکومت کے ابتدائی دور میں ایک ٹی وی پر ہونے والی بحث میں بدعنوانی کے حوالے سے اس جماعت کے ایک اہم رکن کا کہنا تھا۔۔۔’’اب ہماری باری ہے‘‘۔ یہ جملہ ہماری سیاست کی اصل ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں صرف دو رہنما ملتے ہیں جو تصورات رکھنے والے تھے: ایک ضیاء الحق اور دوسرے ذوالفقارعلی بھٹو۔ اگرچہ دونوں کے تصورات میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن ایک قدر مشترک تھی۔۔۔ اُن دونوں نے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ دونوں کو کچھ جزوی کامیابی ملی اور دونوں نے ہمارے لیے مسائل کا وہ انبار چھوڑا جس سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں۔ باقی باتوں کو چھوڑ دیں، ان دونوں کی طرف سے کیے گئے تعلیمی تجربے کے منفی اثرات ابھی زائل نہیں ہوئے ہیں۔ بھٹو نے تعلیم کو قومیا لیا جبکہ ضیاء نے اس کو اسلامی بنا دیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں لاکھوں بچے سرکاری سکولوں اور دینی مدرسوں میں نہایت ناقص تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بھٹو نے بیوروکریسی کو سیاست میں استعمال کیا، ضیا نے نظریات کی ترویج کے لیے۔ چنانچہ کیا ہمیں ایک تصوراتی لیڈر کی ضرورت ہے یا ایک بہتر منتظم کی؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک اچھے ایڈمن کی ضرورت ہے۔