دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ہمارا مبہم رویہ

گزشتہ ہفتے بوسٹن میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں صرف تین افراد ہلا ک ہوئے لیکن یہ سانحہ ابھی تک امریکہ کی خبروں میں نمایاں ہے۔ صدر اُوباما نے اس حملے کی مذمت کی اور ایف بی آئی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کا زمین کے آخری گوشے تک پیچھا کریںگے۔ اس کے برعکس اگر ہمارے ملک میں دہشت گردی کے حملے میں تین افراد کی جان چلی جاتی تو شاید اس کی رپورٹ ہمارے اخبارات کے تیسرے یا چوتھے صفحے پر لگتی۔ جہاں تک مجرموںکو ڈھونڈنے کا تعلق ہے، پولیس یہ کیس درج کر لیتی تو غنیمت ہوتا۔ دہشت گردی کے حوالے سے یہ رویے مختلف کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں، جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، یکساں سنجیدہ نہیں۔ جب امریکہ میں انٹیلی جنس کی ناکامی سے 9/11 کا سانحہ رونما ہوا تو امریکی حکومت نے سکیورٹی کے ڈھانچے میں ردوبدل کیا، قوانین تبدیل کیے اور دہشت گردی کو کچلنے کے لیے جارحانہ اقدامات کیے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ’’ہوم لینڈ سکیورٹی ایکٹ 2002 ‘‘ نے بہت سے انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو سلب کر لیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بوسٹن میں ہونے والے بم دھماکے سے پہلے 9/11 کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ہاں، 2009 میں ’’فورٹ ہڈ شوٹنگ‘‘ کا واقعہ پیش آیا۔ کئی آپریشن کیے گئے جن میں ایف بی آئی اور مقامی پولیس نے کچھ مشتبہ افراد کو گرفتارکر لیا جن میں سے اکثر مسلمان ہیں اور ان میں سے کچھ نے ان حملوںمیں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وائر ٹیپ اور ای میلز کا سراغ لگاتے ہوئے امریکی خفیہ اداروںنے دہشت گردی کی گئی کارروائیوں کو روکا بھی ہے۔ اس چوکسی کے نتیجے میں امریکہ میںعملی طور پر دہشت گردی کا بڑی حد تک سدباب ہو گیا ہے۔ بوسٹن میں ہونے والی کارروائی پر بہت خوف اور غصے کی جذبات پائے جاتے ہیں؛ تاہم حکومت اس کیس کی تفتیش کے لیے جتنے وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ دہشت گردوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی اور جب وہ پکڑے جائیں گے‘ عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔ اس صورت حال کا پاکستان کے ساتھ کیا موازنہ؟ یہاں دہشت گردی کے حوالے سے رد عمل نہایت افسوسناک ہوتا ہے۔ دو عشروں سے پاکستانی عوام مذہب کے نام پر خونریزی کرنے والے قاتلوںکے منظم گروہوںکے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ مجرم اپنے افعال پر ندامت کی بجائے فخر کا اظہا ر کرتے ہیں اور ان کی طرف سے بڑے فاتحانہ انداز میں دشمنوں (پاکستانیوں) کا سر قلم کرنے کی ویڈیوز نیٹ پر دکھائی جاتی ہیں۔ یہ قاتل اپنا کھیل کھیلنے میں آزاد ہیں، ریاست خاموش تماشائی بنی کچھ بیانات جاری کرتی رہتی ہے۔ خفیہ ادارے یا تو نااہل ہیں یا ان کی ترجیح باہم متضاد ہوتی ہے۔ اگرچہ ہمارے بہادر مگر کم تربیت یافتہ پولیس اہلکار اور فوج کے جوان ہزاروںکی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ادارے مل کر حکمت ِ عملی بنانے اور کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے سابق وزیرِ داخلہ کسی بھی گھنائونی دہشت گردی کے بعد بڑے اطمینان سے کندھے اچکاتے ہوئے اس کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دیتے تھے۔ ان کے دور میں ملک بھر میں اہل ِ تشیع کو چن چن کر ہلاک کیا گیا لیکن کوئی قاتل گرفتار نہ ہوا۔ امریکہ میں ایف بی آئی کو دہشت گردی کی کارروائیوں پر رد ِعمل کے لیے بنیادی طور پر آئینی حق حاصل ہے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی وفاقی فورس نہیں جو خود کوئی کارروائی کرنے کی مجاز ہو۔ ہمارے اداروںکے درمیان رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کارروائی کرنے کے لیے ایک کھچڑی سی پکی ہوتی ہے، چنانچہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اتفاقاً کوئی مشتبہ شخص گرفتار ہو جاتا ہے، اُس کے قبضے سے ناجائز اسلحہ برآمد ہوتا ہے تو بھی عدالت شواہد کی کمی کے باعث اُس کو سزا نہیں سناتی اور وہ بری ہو جاتا ہے۔ اس طرح اُسے گرفتار کرنے والے اور گواہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اب وہ اُس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اس کے دل میں رحم نامی کوئی چیز نہیںہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہادی کلچر اور تشدد تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ جب کسی ملک میں اس کے شہریوں کو یا ریاستی خودمختاری کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو ریاست پورے وسائل کے ساتھ حرکت میں آتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیںہوتا۔ اب جبکہ دہشت گردی کی وجہ سے اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہے، ہم ابہام کا شکار ہو کر بے حس و حرکت بیٹھے ہیں یا نیم دلی سے کارروائی کرتے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ فوج اور پولیس کے جوان بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جانوںکے نذرانے پیش کر رہے ہیں لیکن یہ بھی غلط نہیںکہ ہماری اعلیٰ قیادت اس مسئلے پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ بیانات کی حد تک اس مسئلے پر ناقابل یقین حد تک ہم آہنگ دکھائی دیتہ ہے لیکن دراصل وہ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے مشکل مسئلے میں الجھ گئی ہے۔ طالبان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروںکو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ان کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوںکی رائے ایک جیسی نہیں۔ اسی طرح طالبان بھی کچھ جماعتوں میں تفریق کرتے ہیں۔ اُن کی دھمکی زیادہ تر سیکولر جماعتوں، جیسے ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی کے لیے ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے لیکن طالبان مذہبی جماعتوںکے علاوہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کو کسی حدتک قابل ِ قبول سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ان قاتلوںکے خلاف یک جہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد اُن کی طرف سے آنے والے مذمتی بیانات محض رسمی ہوتے ہیں۔ کچھ صوبوں میں تو مبینہ طور پر بعض سیاسی جماعتوں کو کچھ انتہا پسند تنظیموںکی انتخابی حمایت بھی حاصل ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی انتہا پسند تنظیم کے ساتھ روابط رکھنے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی لیکن پاکستان میں ایسا نہیںہوتا۔ اس مسئلے پر ہمارے سیاست دانوںکے ساتھ ساتھ میڈیا بھی انتشار کا شکار ہے۔ عمران خان جیسے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی دراصل اس خطے میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکی کارروائیوں کا رد ِ عمل ہے۔ چنانچہ امریکہ اور ڈرون حملوں کی آڑ میں ہمارے رہنما طالبان کو ان کارروائیوںسے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک میںکوئی سیاست دان یہ کہہ کر عوامی عتاب سے نہیں بچ سکتا کہ دہشت گردی عالمی حالات کا نتیجہ ہے اور پکڑے جانے والے مجرم بے گناہ ہیں۔ دنیا میںکوئی ملک پاکستان سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر نہیںہوا لیکن افسوس، ہم اس مسئلے پر متواتر ابہام کا شکار ہیں۔ ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لیے نہ کوئی حکمت ِ عمل ہے اور نہ ہی ہم اس کے لیے بطور قوم کمربستہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں