شام میں شورش جمود کا شکار

آج کل مغربی سیاست دان اور صحافی حضرات شام کو موضوع بنائے ہوئے ہیں ، اور اس کی ضرورت بھی ہے کیونکہ گزشتہ دو سالوںکے دوران اس خونریز خانہ جنگی میںسترہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ابھی تک اس کا خاتمہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم جو کچھ بھی کیا جانا ہے، ظاہر ہے کہ اس میں امریکہ کو آگے آنا پڑے گا، لیکن صدر اوباما فی الحال امریکی افواج کو اس پیچیدہ اور خطرناک محاذ پر بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ امریکہ کے داخلی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی دستوںکو بیرونی دنیا سے بھی واپس بلانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اسی لیے اُنھوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل اور ریپبلیکنز کے دبائو کو بھی برداشت کرتے ہوئے خود کو کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھا ہے۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ شام عالمی افق پر شعلئہ جوالہ بن چکا ہے ، اس لیے مغربی ممالک کی ہٹ لسٹ پر ہے ۔ جب بھی بشار الاسد کے فوجی شہریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں تو صدر اوباما پر اقدامات کے لیے دبائو بڑھ جاتا ہے ، تاہم بشار الاسد کی فوجوں کے خلاف لڑنے والے باغی دستوں کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے، اس لیے امریکی انتظامیہ بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ حال ہی میں ایک شامی باغی کی طرف سے سرکاری فوج کے دل کو چاک کر کے اُسے کھانے کی وحشیانہ ویڈیو منظر ِ عام پر آنے سے مغربی دنیا کے لاکھوں افراد کے دل شامی باغیوںسے متنفر ہو گئے ہیں۔ تاہم مغربی ممالک کے درالحکومتوں میں شام کی اسلامی قوتوں کی پیش قدمی سے خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں۔ جبھات النصرا (Jabhat al-Nusra)، جو عراق میں سرگرم ِعمل القاعدہ سے منسلک ایک گروہ ہے، کے منظر ِ عام پر آنے سے مسٹر اسد کے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ اس حکومت کے باغی دراصل انتہا پسندجہادی ہیں اور مغرب اُن کی حمایت کرکے سخت غلطی کررہا ہے۔ شام میں اسلامی گروہوں کے تقویت پکڑنے کی وجہ دو عرب ممالک سے ملنے والا اسلحہ اور مالی امداد ہے۔ شامی صدر کو ملک میں اصلاحات نافذ کرنے پر راضی کرنے کی بار ہاکوششوں میں ناکامی کے بعد ترکی بھی پریشانی کا شکا رہے اور اب وہ ہزارہا شامی مہاجرین، جن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، کو پناہ دینے سے گریزاں ہے۔ یہ بات حیران کن دکھائی دیتی ہے لیکن اسلامی گروہوں کو ملنے والی امداد ترکی کے راستے سے ہی پہنچتی ہے۔ اسی طرح اردن بھی باغیوں کی مدد کررہا ہے۔ بہت سے تحفظات رکھتے ہوئے، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک باغیوں کو غیر فوجی ہتھیار ، ادویات اور رقوم کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسال سے شام کی صورت ِ حال جوں کی توں ہے۔ حقیقت ہے کہ اس دوران شامی افواج نے کچھ پیش قدمی کرتے ہوئے باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ شامی باغیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کی صفوںمیں اتحاد کی کمی ہے۔ اسلامی انتہا پسند بھی میدان میں موجود ہیں لیکن وہ باغی افواج کے ساتھ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر ملکی ناقدین بشار الاسد پر دبائو ڈالتے ہیںکہ وہ باغیوںکے ساتھ مذاکرات کریں تو وہ کہتے ہیں ۔۔۔’’کس کے ساتھ ؟‘‘اور یہاں مسٹر اسد کا موقف درست ہے کیونکہ اکثر باغی گروہ حکومت کے ساتھ متحارب ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ اُن کے ایجنڈے میں یک سوئی نہیں ہے۔ وہ لبرل باغی جنھوںنے عرب بیداری کی لہر کے دوران شامی آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی، کو اسلامی انتہا پسندوں نے مار بھگاتے ہوئے اُن کی جگہ لے لی ہے۔ اس پر مستزاد، اسلامی گروہ بھی اتحاد سے عاری ہیں۔ مثال کے طور پر جبھات النصرا‘ القاعدہ کی طرح ایک عالمگیر اسلامی مملکت کا قیام چاہتی ہے لیکن احرار الشام ، جو کہ سلفی مکتبہ ٗ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، شام میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ان کے علاوہ مقامی طور پر بہت سے گروہ میدانِ کارزار میں ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کی معاونت اور بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف ہی لڑنے لگتے ہیں۔ اس طرح شامی بغاوت شورش میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کا مقصد آئل فیلڈز پر قبضہ کرنا ہے کیونکہ یہاںسے آمدن حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ زیادہ طاقتور گروہ اسی میدان میں زور لگا رہے ہیں۔ شام میں خام تیل کو قدیم طریقوںسے صاف کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ہمسایہ ممالک میں فروخت کرکے نقد ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ یہ کام اب حکومت کی بجائے بہت سے طاقتور گروہ اپنے طور پر کر رہے ہیں۔ اسی طرح سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے اگنے والی فصلوں کو اپنے تصرف میں لے لیا جاتا ہے۔ یہ بھی دولت کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس طرح شام کی خانہ جنگی بہت الجھ گئی ہے۔ معروف اخبار ’’اکانومسٹ ‘‘ کے مطابق ، جبھات النصرا جیسے گروہ تیل یا فصلوں پر قبضہ کرکے دولت کماتے ہیں اور پھر وہ اس دولت سے انتظامیہ تشکیل دے کر اس علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تاہم یہ رپورٹس بھی ہیں کہ مقامی کمانڈر اس صورت ِ حال سے فائدہ اٹھا کراپنی دولت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اب مغربی ممالک کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا تعین کیسے کریں کہ جو اسلحہ وہ بشار الاسد سے لڑنے والے باغیوں کو دیں گے وہ اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھ نہیں لگ جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ عرصہ قبل انفرادی طور پر لڑنے والے جنگجو اسلامی گروہوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں کیونکہ ان گروہوں کے پاس مالی وسائل زیادہ ہیں(اس کی وجہ پہلے عرض کر چکا ہوں)۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے سے پہلے اُن کی تربیت کی جائے۔ بہرحال اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جو جدید ہتھیار ان کو فراہم کیے جائیںگے، وہ آخر کار کن کے ہاتھ لگ جائیںگے۔ امریکیوںکو یاد ہے کہ افغانستان پر سوویت یونین پر قبضے کے دوران مجاہدین کو جو جدید ہتھیا ر فراہم کیے گئے تھے ، اب وہی اُن کے فوجیوںکے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ شامی افواج کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروںکے استعمال کا ہوّا کھڑا کرکے امریکہ کو اس میدان میں اتارنے کے لیے اشتعال دلایاجا رہا ہے۔ بشار الاسد اتنے احمق ہرگز نہیںہیں جو امریکہ کو اپنی سرزمین پر کارروائی کرنے لیے بھڑکا بیٹھیں، اس لیے لگتا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات میں صداقت نہیںہے۔ ہاں کچھ مقامات پر ان کو استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ تصدیق نہیںہوپائی کہ کیا کسی مقامی کمانڈر نے ایسا کیا تھا یا اس کی اجازت دارلحکومت کی طرف سے آئی تھی۔ اسرائیل کی طرف سے دمشق کے نزدیک فضائی بمباری نے باغیوں کو شرمندہ کر دیا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے مدد لے رہے ہیں۔ اگرچہ تل ابیب نے کہا ہے کہ اُسے اپنے ہمسائے میں ہونے والی خانہ جنگی میں کودنے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ آخر کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ اسد کا تختہ الٹتے ہوئے حزب اﷲ کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے ، دوسری طرف اُسے کئی عشروں تک شامی بارڈر کی طرف سے امن بھی نصیب ہوا ہے۔ اگر اسد کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے تو اس وقت اسلامی انتہا پسند اقتدار پر قبضہ کر لیںگے۔ اس کے بعد اسرائیل کا رد ِ عمل کیا ہوگا؟ شام کے خلاف یو این کی قرار داد پاس ہونے میں رکاوٹ ڈالنے پر روس نے مغرب کی کسی اپیل پر کان نہیں دھرا۔ ماسکو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح لیبیا میں شہریوں کو بچانے کی کوشش کا واحد مقصد معمر قذافی کو منظر ِ عام سے ہٹانا تھا۔ اس وقت جب کہ لیبیا بھی شورش زدہ ہے، ماسکو کا نکتۂ نظر اتنا بھی غلط نہیںہے۔ اس کے علاوہ ماسکو نے شام میں اپنے دفاعی مفادات، جو کہ نیوی کے بیس کی صورت میں ہیں، کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ خانہ جنگی مزید پیچیدگی اختیارکرتی جائے گی۔ اس وقت سفارتی محاذ پر کوئی کوشش نہیں نظر نہیںآتی جبکہ ملک میں اسلامی گروہ مزید تقویت پکڑرہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کی طرف سے مداخلت کی خواہش بھی دم توڑ جائے گی‘ یوںشام میں امن کی صبح طلوع ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں