اندھیرے میں تیرچلانے سے کیا حاصل؟

ایک امریکی شہری ، بل،انٹر نیٹ پر پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے پاکستان کے حالات کے بارے میں واقفیت رکھتا ہے۔ کئی سالوں سے ہمارے درمیان ہونے والی ای میلز کا تبادلہ ہمیں ایک طرح کا فاصلاتی دوست بنا چکا ہے۔ اُسے یقینا اس بات پر سخت حیرانی ہوئی تھی کہ جب کوئٹہ میں نوجوان طالبات کی بس پر حملہ کرتے ہوئے اُنہیں خون میں نہلا دیا گیا تو پاکستان میں حکومتی سطح پر ایک پتہ بھی نہ کھڑکا۔ اس پر اُس نے ای میل میں کہا۔۔۔’’اگر ایسا واقعہ امریکہ یا کسی اور نارمل ملک میں پیش آیا ہوتا تو تمام حکومتی ایجنسیاں اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے اس حملے کا ارتکاب کرنے والی تنظیموںکا تعاقب کرتیں اور اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتیں جب تک ان کے تمام اراکین گرفتار یا ہلاک نہ ہوجاتے؛ تاہم پاکستان میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔‘‘ بل کو دہشت گردی کی اس گھنائونی کارروائی میں ملوث تنظیم کے خلاف کارروائی ہوتی اس لیے نظر نہیں آتی کیونکہ پاکستان کوئی نارمل ملک نہیں ہے۔ کئی سالوںسے بہتے لہونے ہمارے دل اتنے سخت کر دیے ہیںکہ ہم اس طرح کی لرزہ خیز اوردل دہلا دینے والی کارروائیوں کوبھی معمول سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اُس دن بہت کم وقت میں دو خود کش حملے کیے گئے، ایک طالبات کی بس پر اور دوسرا بولان ہسپتال پر۔ ان دونوں حملوںکی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی نے قبول کی ہے۔ اس سے پہلے رات کے وقت بلوچ لبریشن آرمی زیارت میں قائداعظم ؒ کے زیر ِ استعمال رہنے والی تاریخی عمارت تباہ کر چکی تھی۔ بلوچستان کئی سالوں سے عملی طور پر پہرے میں رہا ہے، اس لیے یہ بات کہنا بر محل ہو گا کہ ہمارے سکیورٹی اداروںکو ان دونوں تنظیموں کے ذرائع اور ان کی پشت پناہی کرنے والوںکا علم ہے۔ یہ بات بھی پریس میں تواتر سے کہی جاتی ہے کہ کچھ ادارے بلوچ قوم پرستوں کو ’’غائب ‘‘ کر دیتے ہیں، لیکن وہ شہریوںکو تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ان حملوںکے بعد وزیر ِ داخلہ چودھری نثار علی خاں نے تشددکی کارروائیوں کی پیش بندی کرنے میں ناکامی پر خفیہ اداروں پر اپنا غصہ نکالا۔ پریس رپورٹس کے مطابق، قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (Nacta) تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس کے لیے ابھی ضروری قانون سازی نہیںہو سکی۔ اسے ابھی تک سینٹ نے منظور نہیںکیا ہے۔ یہ بل دراصل پچھلی حکومت نے پیش کیا تھا اور اس کا مقصد وفاقی اور صوبائی سکیورٹی اداروںکے درمیان ہم آہنگی اور ربط پیدا کرنا تھا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ دہشت گردی جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں کی مربوط کوشش اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن عقل حیران ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے، جب کہ ملک اس مسئلے کا شکارہے، ایسا ربط پیدا کیوں نہیں کیا جاسکا ہے؟جب رحمن ملک وزیر ِ داخلہ تھے تو وہ کہا کرتے تھے (اکثر خود کش حملوںکے بعد) کہ اُنھوںنے صوبوں کو اس حملے کی اطلاع دے دی تھی لیکن اُن کی وارننگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف یہ کہہ دینا کہ دہشت گردی کی کارروائی ہوگی، کافی نہیںہے۔ کارروائی کرنے کے لیے پولیس کو درست معلومات درکار ہوتی ہیں جبکہ سول اداروں کو بہت کم معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تمام دنیا میں خفیہ اداروں اور جاسوسوں میں رقابت پائی جاتی ہے اور 9/11کو ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے پیچھے بھی یہی وجہ کارفرما تھی کہ سی آئی اے نے اہم معلومات ایف بی آئی کو فراہم نہیں کی تھیں۔ ہمارے ملک میں حاصل ہونے والی اہم معلومات کو اس خدشے کے پیشِ نظر ظاہر نہیں کیا جاتا کہ کہیں یہ معاملہ عدالت میںنہ چلا جائے اور اُن کے معلومات کے ذرائع فاش نہ ہو جائیں۔ ایک اور مسئلہ بھی صورت ِ حال کو پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ بعض ادارے معلومات اگلوانے کے جو بھی حربے اختیار کریں، اُن سے پوچھ گچھ نہیںہوسکتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کا کوئی بس نہیں چلتا۔ وہ صرف کچھ معلومات کے لیے درخواست کر سکتے ہیں، جو ضروری نہیں کہ اُنہیں ملے۔ دہشت گردی کے خلاف مربوط کارروائی کو جو مسئلہ مزید پیچیدہ بناتا ہے وہ یہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی گروہ ملک کے کسی اور حصے، فرض کریں کراچی یا وزیرستان‘ میں کارروائی کرتا ہے تو اس کی تحقیقات کے لیے تینوں صوبوں کی الگ الگ ایجنسیاں کام کریں گی اور ان کے دفتری طرز عمل کے باعث معلومات حاصل کرنا اور ان کا باہم تبادلہ کرنا ناممکن ہے۔ اس سے بھی مشکل بات یہ ہے کہ گرفتار شدہ افراد کو سزا دلانے کے لیے اداروں کے پاس ایسا مواد موجود نہیںہوتا جسے عدالت درخور ِ اعتنا گردانے۔ 9/11 کے بعد امریکہ میں ہوم لینڈ سکیورٹی قائم کی گئی۔ دہشت گردی کے حوالے سے تمام معاملات اس کے سپرد کر دیے گئے۔ عام طور پر ایف بی آئی سنگین نوعیت کے جرائم کی تحقیقات کرتی ہے، خاص طور پر اُن جرائم کی جن کا ارتکاب ایک سے زائد ریاستوںمیں کیا گیا ہو۔ برطانیہ میں بھی سکاٹ لینڈ یارڈ دہشت گردی کے منصوبوں کی تحقیقات کے لیے تمام معاملات اپنے ہاتھ میںلے لیتی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتاہے۔ تاہم پاکستان، جو دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے، میںابھی تک ایسا کوئی ادارہ نہیںہے جو تمام کارروائیوں کو مربوط کر سکے۔ چنانچہ وزیر ِ داخلہ کے سامنے کرنے کے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ تمام اداروںکی طرف سے حاصل کردہ معلومات کو یکجا کیا جائے اور اس کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔ حملے ہونے کے بعد مذمتی بیانات جاری کرنے سے مسئلہ حل نہیںہوگا ۔ جب بھی کوئی حملہ ہو، اس کے ذمہ داروں اور ہمدردوںکے خلاف بلا تخصیص کارروائی ہونی چاہیے۔ عدلیہ کو بھی دہشت گردی کی بیماری کو جڑ سے اکھاڑنے میں اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ یہ سب کچھ کہنا آسان ہے ، کرنا انتہائی دشوار ہے۔ اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ اگر امن و امان حکومت کی ذمہ داری ہے تو تمام صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ جب تک دفاعی اور سول ادارے باہم اشتراک سے کارروائی نہیںکرتے، شہری دہشت گردوںکی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ اس وقت ہمارے اقدامات اندھیرے میںتیر چلانے کے سوا کچھ بھی نہیںہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں