اوباما۔۔۔ دعوے اور حقیقت

کئی عشروں سے سیاسی معاملات کو قریب سے دیکھتے اور اس پر لکھتے ہوئے میںاس کے بارے میں ’’صحت مندانہ قنوطی‘‘ رویہ اختیار کر چکا ہوں۔ اس رویے سے اخذ کردہ اصول یہ ہے۔۔۔ ’’سیاست دانوں کو اُن کے افعال، نہ کہ اقوال، سے جانچا جائے۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ جھوٹ بولنا ان کے ڈی این اے میں شامل نہ ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ سیاست دان ہمہ وقت اس لیے درغ گوئی سے کام لیتے ہیں کہ یہ ان کی ’’پیشہ ورانہ ذمہ داریوں‘‘ میں شامل ہے۔ جب میںنے اپنے انگریز دوستوں کو بتایا کہ اُن کی حکومت عراق میں ڈبلیو ایم ڈیز (وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار) کی موجودگی کے حوالے سے جھوٹ بول رہی ہے تو وہ ششدر رہ گئے۔ مجھے اس بات پر قطعاً حیرت نہ تھی کہ اس ملک سے یہ ہتھیار نہیں ملیں گے؛ تاہم میرے انگریز دوست اس بات پر شدید غصے میں تھے۔ وہ دن اور آج کا دن،برطانیہ کو عراق جنگ کا حصہ بنانے کے لیے جھوٹ بولنے پر انگریزوں نے مسٹر ٹونی بلیئر کو معاف نہیں کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے مسٹر بلیئر کوئی انوکھا کام نہیںکررہے تھے۔ اُنھوںنے وہی کچھ کیا تھا جو سیاست دانوںسے درکار ہوتا ہے۔۔۔ یعنی اپنی عوام سے جھوٹ بولنا۔ تاہم جب مسٹر اوباما اقدار میں آئے تو مجھے اعتراف کرنے دیجیے کہ میںنے اپنے شک کے جام ِ جمشید کی فعالیت کو معطل کردیا اور دنیا کے لاکھوں لوگوں کی طرح سمجھا کہ آخرکار ایک مسیحا سیاسی افق پر ابھر آیا ہے جو امریکہ کو اس کے اندورنی خوف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جارحانہ رویوں کو لگام دے کر صدر بش کی احمقانہ مہم جوئی، جو9/11 کے بعد شروع کی گئی، کا خاتمہ کردے گا۔ مجھے سب سے پہلے مسٹر اوباما کا اُس وقت پتہ چلا جب 2004ء میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں جان کیری کو نامزد کیا گیا۔ اُس وقت میں سینٹ انڈریوز، کینیڈا ، میں ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھا اس اجلاس کی اکتادینے والی کارروائی دیکھ رہا تھا۔ جب بارک اوباما، جو اس وقت ایک گمنام سینٹر تھے (کم از کم امریکہ سے باہر وہ گمنام ہی تھے)نے بولنا شروع کیاتو سامعین کو اپنی فصاحت و بلاغت سے سحر زدہ کر دیا۔ جب اُنھوںنے ذکر کیا کہ امریکہ میں رہنے والے غریب ترین افراد کو بھی بہترین مواقع فراہم کیے گئے ہیں تو وہ دراصل اس ملک میں صدیوںسے جبر کے شکار استحصال شدہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اُس وقت مجھے بھی بہت سے دیگر افراد کی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ نوجوان، ذہین اور پرکشش شخص بہت آگے تک جائے گا۔ جب وہ 2008ء میں صدارتی امیدوار بن کر سامنے آئے تو دنیا بھر کے لاکھوں افراد نے اُن کا خیر مقدم کیا۔ اس وقت عالمی سطح پر اوباما کا سحر اس قدر غالب تھا کہ اگر غیر امریکیوں کو بھی ووٹ دینے کا حق دیا جاتا اُوباما اربوں ووٹ لے جاتے۔ ان کی مقبولیت کی وجہ ذاتی کشش کے علاوہ یہ تھی کہ ہر جگہ لوگ صدر بش کی شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے تنگ آچکے تھے۔ چنانچہ اُن حالات میں وائٹ ہائوس میں کسی عقلمند، رحم دل اور سوچ سمجھ رکھنے والے شخص کا اقدار سنبھالنا ایک نعمت سے کم نہ تھا۔ ان سب باتوںسے فزوں تر یہ احساس تھاکہ امریکی ایک سیاہ فام صدر منتخب کرنے جارہے ہیں۔ اس کامطلب یہ تھا کہ امریکہ صدیوں کی نسل پرستی اور عصبیت سے نکل رہا ہے۔ یہ احساس جاگزیں تھا کہ ایسا صدر، جو ایک مخصوص پسِ منظر سے ابھر کر آیا ہو، صدر بش اور دیگر سفید فام صدور کی نسبت زیادہ ہمدرد اور نرم خو ہو گا۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ اُن کی پہلی مدتِ صدارت تک ہم یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ سابقہ تلخ تجربات کی جگہ امید کا سورج ضرور جگمگائے گا۔ امریکی سیاست پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے اس میںکوئی مغالطہ نہ تھا کیونکہ اوباما کی کامیابی کی صورت میں صورت ِ حال یکسر تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس دوران ہم نے خود کو یہ سمجھاتے ہوئے مزید بے وقوف بنایا کہ اوباما پہلی مدت کے دوران صرف اس لیے کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں کہ اُنھوںنے دوسری مدت کے لیے کامیابی کے لیے طاقت کے مراکز کو ناراض نہیں کرنا ہے۔ اب 2013ء ہے اور مسٹر اوباما کی دوسری مدت کا دوسرا سال ہے۔ مسئلہ فلسطین کو انصاف اور غیر جانبدار ی سے حل کرنے اور اس طرح کے بہت سے اور وعدے ہوامیں تحلیل ہو چکے ہیں۔ اب حال یہ ہے ، جیسا کہ اوباما نے اسرائیل کے حالیہ دورے میں کہا کہ اُنھوںنے کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسرائیل کے تحفظ کا خیال رکھا ہے۔ فلسطینیوںکے زخموںپر نمک چھڑکنے کے لیے وہ غزہ کے مغربی کنارے پر علامتی طور پر بھی نہیں گئے۔ وعدوںکی طرح تبدیلی اور امید کا پیغام بھی اپنی موت مر چکا ہے۔ سارہ پالن طنزیہ انداز میں پوچھتی ہیں۔۔۔’’آج کل آپ کے لیے تبدیلی اور امیدوں بھرا موسم کیسا جارہا ہے‘‘؟ ’’ابزرور‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون ،’’میںنے بارک اوباما کو سکیورٹی صدر بنتے دیکھا‘‘ میں پال ہیرسن لکھتے ہیں۔۔۔’’بہت سے لوگوںکا خیال تھا کہ مارٹن لوتھر کنگ کے ’امریکی خواب‘ کی تکمیل مسٹر اوباما کے ہاتھوںہو گی؛ تاہم 2013ء میں ڈرون حملوںکی بہتات، قتل وغارت، جاسوسی، خفیہ عدالتوں کے قیام اور صحافیوں اور دیگر اعلیٰ شخصیات کے فون ٹیپ کرتے ہوئے مسٹر اوباما کی جلد کا جوبھی رنگ ہو، اُن واقعات کے آئینے میں ان کا کردار واضح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ اگر مسٹر اوباما کی کامیابیوںکی بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اُنھوںنے عراق سے فوجیں واپس بلا لیں اور اگلے سال وہ افغانستان سے بھی انخلا کرنے والے ہیں۔ اُنھوںنے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے اسرائیل اور بہت سے امریکیوںکے دبائو کو برداشت کیا ہے۔ اسی طرح، فی الحال وہ شام میں فوجی مداخلت سے باز رہے ہیں، بلکہ شامی باغیوںکو ہلکے ہتھیار دینے کے معاملے میں بھی بہت احتیاط سے کام لیا جارہا ہے۔ چنانچہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ امریکہ کے اندورنی معاملات میں تو ایک سکیورٹی صدر ثابت ہوئے ہیں، لیکن بیرونی دنیا کے لیے اُن کے اقدامات محتاط اور عملیت پسندی کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اُنھوںنے امریکیوںکی جانوںکو خطرے میں ڈالنے کی حماقت نہیںکی ہے۔ تاہم ڈرون حملوں میں اضافے اور حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ’’پرزم پروگرام‘‘ نے اُن پر ہونے والی تنقید میں شدت پید ا کردی ہے۔ 2008ء میں اوباما کی طرف سے کیے جانے والے وعدوں میں سے سب سے اہم گوانتاناموبے جیل کو بند کرنے کا تھا؛ تاہم صدر بش کا قائم کردہ یہ ’’بلیک ہول ‘‘ ابھی تک فعال ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ اس بدنام زمانہ جیل کے قیدیوں کو امریکہ میں لانے کی راہ میں اس کے ری پبلکن حریفوں نے روڑے اٹکائے ، لیکن اگر ان میں سیاسی قوت ِ ارادی ہوتی تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح مسٹر اوباما کا داخلی ایجنڈا بھی دنیا کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے بحرانوںنے ناکام بنادیا۔ان کے منصوبوںکے حوالے سے کانگریس بھی منقسم اور مفلوج نظر آئی۔ اتفاق ِ رائے پیدا کرنے کی کوشش نے ان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ وہ اس لبرل معاشرے کے اخلاقی قوانین کی اُس طرح پاسدار ی نہ کر سکے جس کی وہ تبلیغ کیا کرتے تھے۔ آج جب ان کے ادوار پر نظر جاتی ہے تو ان کو ملنے والے نوبل امن انعام کی بے قدری پر افسوس ہوتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ اُن کو سابقہ صدر کی شروع کردہ دو جنگیں ورثے میں ملی تھیں ، اس کے باوجودتوقع یہی تھی کہ وہ اپنے پیش رو کے برعکس مضبوط اور مثبت رویے کا مظاہر ہ کریںگے؛ تاہم اس موقع پر ایک بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اوباما صدر بش سے کئی ایک معاملات میں بہتر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں