اب جب کہ سنوڈن کے معاملے پر قدرے سکوت ہے، یہ وقت ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے اس کی اہمیت پر غور کریں۔ امریکہ کے PRISM اور اسی طرح کے برطانوی پروگرام Tempora کے حوالے سے دنیا کو آگاہی مل رہی ہے جبکہ دونوں ممالک کے افسران ایک جیسے بیانات دے رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جارہی ہے’’ اگر آپ کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ریاست آپ کی پیغام رسانی تک رسائی رکھتی ہو؟‘‘اُن کا کہنا ہے کہ اُن کا وسیع کمپیوٹر نیٹ ورک دراصل آپ کی ای میل کو نہیں پڑھتا اور نہ ہی آپ کی کالز کو سنتا ہے ، وہ صرف آپ کے ایڈریس، فون نمبر ، کال اور میلز کے اوقات اور دورانیے کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اس کے بعد اس مواد کومحفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ جب آپ سے متعلق کوئی مشکوک معاملہ سراٹھاتا ہے تو تب ہی اس مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ یہ یقین دھانی بہت حوصلہ افزا نہیںہے کیونکہ انتیس سالہ سنوڈن جیسے سسٹم مینیجرز خفیہ الیکٹرانک سگنلز کے ذریعے آپ کی ای میلز پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ سنوڈن کا اپنا بیان ہے کہ اگر اُن کے پاس صدر اوباما کا میل ایڈریس ہو تو وہ بڑی آسانی سے اُن کی میلز پڑھ سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ این ایس اے (نیشنل سیکورٹی ایجنسی)، جس کے پاس سی آئی اے سے بھی زیادہ بجٹ ہوتا ہے، اب باقاعدگی سے نجی آپریٹرز کو جاسوسی کے کام کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ سنوڈن ایک کنسلٹنگ فرمBooz Allen کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ وہ چودہ لاکھ امریکیوں میں سے ایک ہیں جو سراغ رسانی کے کاموں پر مامور ہیں۔ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے پاس خفیہ معلومات آئیںگی تو ان کے افشا ہونے کا خدشہ بھی لاحق رہے گا۔ اس کے علاوہ اگر این ایس اے نے اتنی بڑی تعداد میں افراد کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تو ان افراد میں سے کوئی نہ کوئی غیر ملکی حکومتوں یا کمپنیوں کے ساتھ بھی رابطے میںہو سکتا ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ جب ان ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تو اُنہیں رازداری رکھنے کے معاہدوں پر دستخط کرنا پڑتے ہوں گے لیکن مجھے شک ہے کہ ایسے معاہدے اُن افراد، جو معلومات کو افشا کرنے پر راضی ہوجائیں، کو نہیں روک پائیںگے۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ یہ سوشل نیٹ ورکنگ کا دور ہے اور اس میں پرائیویسی کی حدود سمٹ رہی ہیں کیونکہ جب لاکھوں افراد سوشل میڈیا، جیسا کہ فیس بک یا ٹوئیٹرز میں اکائونٹ بناتے ہیں تو اپنی بہت سی معلومات دوستوں بلکہ اجنبیوںکے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں۔ لوگ ریستورانوںمیں کیا کھاتے ہیں یا ان کے بچوں کے نئے دانت ابھی نکلے ہیں یا نہیں، جیسی معلومات ایک دریا کے بہائو کی طرح سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے، تو پھر اگر حکومت بھی ایسی معلومات، یا اس سے کچھ زیادہ حاصل کرتی ہے تو اس میں قابل تشویش کیا بات ہو سکتی ہے؟ تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیںہے۔ فرض کریں آپ ای میلز کے ذریعے طلاق کے ایک کیس کی تفصیل اپنے وکیل کو بھیج رہے ہیں اور اس میں سراسر نجی تفصیلات ہیں اور وہ تفصیلات حکومت کا جاسوس ریکارڈ کر لیتا ہے۔ اس پر حکومت آپ کو تسلی دیتی ہے کہ اس مواد کو نہیں پڑھا جائے گا جب تک بھیجے گئے یا وصول کیے گئے ایڈریس کے حوالے سے کوئی مشکوک سرگرمی سامنے نہ آئے۔ مان لیتے ہیں، آپ ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں لیکن فرض کریں آپ کا وکیل حکومت مخالف کسی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے اور جب اُس کا میل باکس کھنگالا جاتا ہے وہاں آپ کی میلز بھی موجود ہوںگی۔ امریکہ اور برطانیہ اس لیے سخت مشتعل ہیں کیونکہ اُن کو سنوڈن کے انکشافات کی وجہ سے بہت ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی سالوںسے واشنگٹن چین پر الزام لگا رہا تھا کہ وہ مغربی ممالک کے فوجی اور سرکاری نیٹ ورک کو ہیک کررہا ہے اور وہاں سے اہم معلومات چرارہا ہے۔ تاہم سنوڈن کے انکشافات کے بعد معاملہ یکسر الٹ گیا ہے۔ اب چین ببانگ ِ دھل کہہ رہا ہے کہ نجی زندگی کے تقدس کے تمام تر دعووں کے باوجود امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ہیکر ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سنوڈن کو جاسوس اور غدار قرا ر دے رہے ہیں۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے امریکی نقاد یہ بھول گئے ہیں کہ سنوڈن نے عوام کو پرزم پروگرام کے بارے میں آگاہی صرف ضمیر کے بوجھ سے مجبور ہو کر دی ہے کہ حکومت کا کوئی کام نہیں کہ وہ شہریوںکی ذاتی زندگیوں میں جھانکتی پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ جاسوسی کے اس سارے معاملے کو اب قانونی اور اخلاقی ، دونوں پہلوئوںسے دیکھا جارہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی شہریوں کی معلومات محفوظ ہوں لیکن باقی دنیا کے شہریوں کی نجی زندگی تو ان جاسوس اداروںکی نگاہ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی حکومتیں سخت سوال کررہی ہیں اور واشنگٹن کے پاس سوائے اس جملے کے کوئی جواب نہیں۔۔۔’’ ہم پر بھروسہ رکھیں، ہم یہ سب کچھ آپ کو محفوظ بنانے کے لیے ہی کر رہے ہیں۔‘‘اس دعوے کو تقویت دینے کے لیے واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اُس نے پرزم کی مدد سے دھشت گردی کے پچاس کے قریب منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔ تاہم تفصیلات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس دعوے کی تصدیق یا تردید مشکل ہے۔ برطانیہ کو اپنے یورپی اتحادیوں کے سامنے صفائی پیش کرنا پڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں این ایس اے کی طرز کے ادارے ’’جی سی ایچ کیو‘‘(گورنمنٹ کمیونیکیشنز ہیڈ کوارٹرز) بہت سے ممالک کے کیبل پیغامات کو ریکارڈ کر رہا تھا۔ جی ایٹ کانفرنس سے ٹھیک پہلے سنوڈن کی طرف سے انکشاف نے، کہ جی سی ایچ کیو پہلے ہونے والے اجلاسوں کے شرکا کی فون کالز اور ای میلز تک رسائی رکھتا تھا، ڈیوڈ کیمرون اور اُن کی انتظامیہ، جو جی ایٹ اجلاس کے میزبان ہیں، کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ابتدائی دور، جب یہ اتنا منظم نہیں تھا، میں خیال کیا جاتا تھا کہ پیغامات کی ترسیل کے لیے یہ آسان اور محفوظ ذریعہ ہو گا اور اس پر کسی ریاست کا کنٹرول نہیںہوگا لیکن جب یہ ہماری ذاتی اور کاروباری زندگیوں کا ناگزیر حصہ بن گیا ہے تو اب حکومتوں نے اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے طریقے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ چین اور ایران جیسی حکومتیں فلٹرز لگاکر اپنے شہریوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھتی ہیں اور اسے ایک خاص حد سے تجاوز نہیں ہونے دیتیں۔ سنوڈن کے انکشافات کا شکریہ کہ ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ حکومتوں کو علم ہو جاتا ہے کہ آپ نے کس ویب سائٹ کو وزٹ کیا ہے۔ جب میں اپنی کتاب ’’Fatal Faultlines‘‘ کے لیے تحقیقات کر رہا تھا تو میں نے انتہا پسندوں کی بہت سی سائٹس کو وزٹ کیا۔ اس میں اسلامی انتہا پسند بھی شامل تھے اور عیسائی بھی۔ این ایس اے یا جی سی ایچ کیو کے سرورز نے ان کو ریکارڈ کر لیا ہو گا کہ میں نے ان سائٹس کو وزٹ کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں، میں بھی تحقیقات کی زد میں آ جائوں، ہو سکتا ہے کہ یہ صرف میرا خدشہ ہی ہو۔ بہرحال، جب کوئی شخص بھی امریکہ یا برطانیہ میں اہم سرکاری ملازمت کے لیے درخواست دے گا تو اُس کی تمام الیکٹرانک زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہوگی۔