پاکستان میں، جہاں موسمِ گرما میں درجہ حرات بہت اونچا ہوتا ہے، تیس ڈگری فارن ہائٹ کو گرمی نہیں سمجھا جاتا اور جب اتنے ’’معتدل‘‘ موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ نہ ہو تو ہم دیسی لوگ اہل برطانیہ کو برملا کہہ سکتے ہیں کہ اس گرمی کی لہر، جس نے گزشتہ دو ہفتوں سے برطانیہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، کا کیوں رونا رو رہے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں زیادہ تر گھر اور فلیٹس گرم موسمِ کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائے جاتے ہیں بلکہ سرد موسم کے پیش نظر ان کے ڈیزائن میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اندر کی گرمی باہر نہ نکلنے پائے۔ یہاں دولت مند افراد کے گھروں میں بھی اے سی تو کجا چھت کے پنکھے بھی نہیں ہیں، اس لیے تیس درجے کی گرمی بھی بہت محسوس ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس گرمی سے اب تک سات سو ساٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گرمی کی حالیہ لہر کا گزشتہ سال کی گرم لہر سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ فرق صرف اس سے ہونے والی اموات کی تعداد میں ہے؛ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اموات کی کچھ اور وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ سچائی جو بھی ہو، یہ بات یقینی ہے کہ گرمی معمر افراد، خاص طور پر وہ جو تنہا رہتے ہیں، کے لیے بہت پریشانی کا باعث بن رہی ہے، کیونکہ تنہائی کے باعث وہ پانی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوان افراد‘ جو اپنی جلد کو برائو ن کرنے کے لیے سن باتھ لینے کے شوقین ہیں، بھی سورج کی گرم کرنوںکی وجہ سے سن سٹروک کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے شک دھوپ میں دور تک لیٹے ہوئے نیم برہنہ افراد، جن کی جلد سور ج کی تمازت سے سرخ ہو چکی ہو، اچھے نہیں لگتے ہیں۔ اسی طرح ٹیوب ٹرین کے بند ڈبوں میں پسینے میں نہائے ہوئے افراد کے پاس بیٹھنا بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ شہروں میں عمارتیں اور سڑکیں دن کے وقت حرارت کو جذب کر لیتی ہیں، اس لیے یہاں دیہات کی نسبت درجہ حرارت بلند ہوتا ہے۔ چنانچہ مجھے خوشی ہے کہ ہم ڈیویزز (Devizes) میں رہتے ہیں ، جو ایک مضافاتی قصبہ ہے اور ہم نقب زنوں کے خدشے کے بغیر اپنے دروازے اور کھڑکیاں کھلی چھوڑ سکتے ہیں۔ موسم وہ موضوع ہے جس پر بات کرنے سے اہل برطانیہ کبھی نہیں اکتاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کا موسم بہت غیریقینی ہوتا ہے۔ اس میں ہر روز تغیر دکھائی دیتا ہے اور بعض اوقات ایک دن میں ہی کئی مرتبہ اس میں تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ یہ ایک پسندیدہ عوامی موضوع ہوتا ہے اور ٹی وی اور ریڈیو پر موسم کی پیش گوئی کو بہت دلچسپی سے سنا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار Pakistan Times، جو اب بند ہو چکا ہے، میں موسم کے بارے میں ایک ہی لائن مسلسل شائع کی جاتی تھی۔۔۔’’ہر شہر میں موسم گرم اور خشک رہے گا‘‘ ہفتے کے اختتام پر اہل برطانیہ لاکھوںکی تعداد میں ساحلوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اُن کے لباس میں اختصار کا پہلو نمایاں ہے اور وہ ریت پر لیٹے یا پانی میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے اپنے آپ کو گرمی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ آج کل اخبارات بھی لوگوں کو مشورے دے رہے ہیں کہ وہ سن سٹروک سے بچنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں اور کون سے مشروبات اور خوراک کا زیادہ استعمال کریں۔ یہاں مجھ جیسے دیسی افراد، جو کہیں زیادہ گرم موسم میں پلے بڑھے ہیں، کے لیے انگریز وں کی موسم کے حوالے سے تنک مزاجی پریشان کن ہے۔ جب کئی ماہ تک موسم سرد اور بھیگا رہے تو وہ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ وہ سورج کی دھوپ نہیں تاپ سکے ہیں اور موسم بہار سے محروم ہو گئے ہیں لیکن اب جبکہ سورج چمک رہا ہے تو ان کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ یقیناً فطرت بھی ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتی۔ ایک بات طے ہے کہ اگرچہ کچھ لوگوں کی صحت خراب ہوئی ہے لیکن یہ موسم کاروبار کے حوالے سے سود مند ثابت ہوا ہے۔ کئی ماہ سے موسم سرما کے ملبوسات کی فروخت کے بعد اب گرمی میں پہننے والے ملبوسات بک رہے ہیں جبکہ بار بی کیو اور اس کا متعلقہ ساز و سامان بھی سٹوروں سے باہر نکل آیا ہے۔ گارڈین کے مائیک پاور لکھتے ہیں۔۔۔ ’’ سارے برطانیہ میں دھیمی آنچ کے کوئلوں پر بھنے ہوئے گوشت کی مہک پھیلی ہوئی ہے جبکہ گرم سورج چمک رہا ہے اور باغات کی باڑوںکے نزدیک لوگوں کے گروہ بھنے ہوئے گوشت کا مزہ لے رہے ہیں۔ بہت مزہ آتا ہے جب قصبوں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے لوگ زور و شور سے بحث کرتے سنائی دیتے ہیں کہ بار بی کیو کیسے بنائی جائے، بلکہ اس سے پہلے یہ کہ کوئلوں کو کیسے دہکایا جائے‘‘۔ یہ ہلکی پھلکی گفتگو، جس میں مرد حضرات خواتین کے فن طباخی کو در خور اعتنا نہ گردانتے ہوئے، اس ضمن میں اپنی مہارت کے گن گاتے ہیں، میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ میں خود بھی بار بی کیو کا ماہر ہوں اور میں جانتا ہوں کہ زیادہ تر آدمی بار بی کیو کے موقع پر خود کام کرنے کی بجائے اپنے اپنے گلاس مشروبات سے بھر کر دوسروں کو مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں حالانکہ اُنھوں نے زندگی بھر کچھ نہیں پکایا ہوتا۔ کچھ افراد نیم وا نظروں سے دیکھتے اور پیشانی مسلتے ہوئے بقراطی لہجے میں کہیں گے: ’کوئلوں کو قدرے ہلانے کی ضرورت ہے‘۔ میرا خیال ہے کہ کھلی جگہوں پر کوئلوں پر گوشت بھوننے سے ہمارے اندر کا قدیم انسان بیدار ہو جاتا ہے اور اس انسان کو اپنی ’’مردانگی‘‘ ثابت کرنے کی ضرورت رہتی ہے، چاہے اب مشورے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے نازک مواقع پر عام طور پر خواتین بار بی کیو سے دور رہتے ہوئے یہ بہانہ کرتی ہیں کہ اُنہیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ چنانچہ وہ دھوئیں وغیرہ سے دور رہ کر کوئلوں سے منہ کالا کرنے کی بجائے بھنے ہوئے کباب کھاتے ہوئے مردوں کے اناڑی پن پر ہنستی رہتی ہیں۔ آخر میں کچھ ذکر ومبلڈن ٹینس، برٹش اوپن گالف اور ایشز کرکٹ سیریز کا، جو گرم موسم کے باعث بارش سے متاثر نہیں ہوئے۔ گرمی کی لہر کے باوجود، نوجوان مختلف کھیلوں کا سامان خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت انگلینڈ ایشز سیریز کے ایک میچ میں اپنے حریف آسٹریلیا کو چت کر چکا ہے۔ کالم کی اشاعت تک ہو سکتا ہے کہ دوسرے میچ کا نتیجہ بھی اس کے حق میں ہی نکلے جبکہ اینڈی مرے ومبلڈن کپ جیت کر تاریخ رقم کر چکا ہے اور ایک برطانوی سائیکلسٹ کرس مروم ٹور ڈی فرانس میں سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔ موسم گرما کی ان تمام ہنگامہ آرائیوں کے ہوتے ہوئے سیاست بے کیف اور بور لگتی ہے۔ اس وقت سیاست پر یہاں میڈیا میں سے بڑی کہانی این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کے حوالے سے ہے۔ اس وقت ملک بھر کے چودہ ہسپتالوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے بارے میں رپورٹ ہے کہ غیرمعیاری ہیلتھ سروس کی وجہ سے ان میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس وقت اخبارات میں دھڑادھڑ کالم لکھے جا رہے ہیںکہ برطانیہ میں ہیلتھ کیئر کی سہولیات کس قدر غیرمعیاری ہیں۔ چونکہ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا ہے اس لیے یہ ساری چیخ و پکار کچھ دیر کے بعد تھم جائے گی۔ نوٹ: گزشتہ کالم میں، میں نے غلطی سے لکھ دیا تھا کہ الطاف حسین کی برطانوی شہریت کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2006ء میں ایک قانون منظور ہوا تھا جس کی رو سے ہوم سیکرٹری کسی بھی شخص کی برطانوی شہریت ختم کر سکتا ہے۔ میں اس غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔