سب چلتا ہے

دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، کم از کم میری معلومات کے مطابق، کہ ایک دن ہیڈ لائن میں جگہ پانے والی ایک اہم کہانی اگلے دن صفحہ چھے پر چلی جائے اور اس کے بعد فراموشی کی دنیا میں گم ہو جائے‘ لیکن خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں ایک طرف ہماری روایتی سستی آڑے آتی ہے تو دوسری طرف ہم پر ہمہ وقت برسنے والی آفات اور رونما ہونے والے سانحات خبریں بن کر ابھرتے ہیں اور ابھی ایک سانحہ پوری دہشتناکی کے ساتھ قوم کو جھنجھوڑ ہی رہا ہوتا ہے کہ ایک اور واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ میں اس صورت حال کو مجموعی طور پر بے حسی کے مترادف سمجھتا ہوں کیونکہ ہم اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس واقعہ کا فالو اپ کیا ہے۔ ہمیں دوسرے افراد اور ریاستی اداروں کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ہم اپنے گردوپیش سے لاتعلق اور بے حس رہنے کا رویہ اپنا چکے ہیں کہ ایسے واقعات پر بھی شتر مرغ کی طرح ’’ہمیں کیا لگے‘‘ کی ریت میں سر دیے رہتے ہیں‘ جن پر دیگر ممالک میں ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں اس رویے کو ’’سب چلتا ہے‘‘ قرار دیتا ہوں۔ جس طرح بچوںکی توجہ چیزوں پر سے تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہے، ہم کسی بھی سنگین ترین سانحہ کو چند دنوں بلکہ بعض صورتوں میں چند گھنٹوںکے اندر ہی بھول کر دیگر کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی اور ہنگامہ آرائی ہماری توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور پھر کوئی اور۔ یہ فکری ’’ہرجائی پن‘‘ ہماری قومی پہچان بن چکا ہے۔ کیا کسی کو سابق سفیر حسین حقانی اور منصور اعجاز کا معاملہ یاد ہے؟ اگرچہ اُس وقت اس معاملے پر بہت طوفان اٹھایا گیا لیکن آج میمو گیٹ سکینڈل قوم کی یادداشت سے اتر چکا ہے۔ اب تو ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے کے واقعے پر بھی فراموشی کی گرد پڑنا شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح کسی کو نہیں یاد کہ ملک کی کس کس جیل سے کس کس دہشت گرد کو رہا کیا (کرایا) جا چکا ہے؟ دراصل ہماری قومی یادداشت انکوائری کا مطالبہ تو کرتی ہے لیکن پھر آگے بڑھ جاتی ہے، کوئی بھی احتساب پر زور نہیں دیتا۔ جب کسی حکومت وقت سے توقعات ہی بہت کم ہوں تو پھر سیاست دانوں، سرکاری اہل کاروں پر بھی اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے کوئی دبائو نہیں ہوتا۔ یہ کہہ کر سب آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں کہ ۔۔۔’’یہاں سب چلتا ہے‘‘۔ ہم اپنے گھروں یا میڈیا پر تو شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری روایتی سستی اور غفلت نے ہماری توانائی، عمل اور اعتماد کے سوتوں کو خشک کر دیا ہے۔ ہم نے اس بات پر یقین کر لیا ہے کہ ہم کچھ نہیں بدل سکتے؛ چنانچہ اپنے حکمرانوں کی نااہلی کی سزا بھگتنا ہماری تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تحریک طالبان کے دہشت گرد ڈی آئی خان جیل پر حملہ آور ہوئے تو اُنھوںنے بڑے اطمینان سے اپنے ساتھیوں کو ’’باعزت رہائی‘‘ دلائی، اپنے مخالفین کو قتل کیا اور چلتے بنے۔ اس دوران ہمارے سکیورٹی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے تو ہم نے بھی اس پر اتنے ہی غم و غصے کا اظہار کیا جتنا ’’ضروری‘‘ تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں گزشتہ کچھ سالوں سے دہشت گردوں نے ہزارہا سکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک کیا لیکن جب یہ پکڑے جاتے ہیں تو انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کا مورال قدرے پست ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں نہایت نامساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کسی پولیس سٹیشن کا دورہ کریں اور پولیس والوں کے رہائشی کوارٹرز دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ میرا کیا مطلب ہے۔ ان کے کام کرنے اور رہنے کی جگہیں نہایت خراب اور سہولیات سے محروم ہیں۔ اس سے ان میں مایوسی اور بددلی پھیلتی ہے۔ جب یہ ملک ایک نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے تو ریاست کا اولین فریضہ سکیورٹی اداروں کی حالت بہتر بناتے ہوئے اُنہیں اعتماد فراہم کرنا ہونا چاہیے تھا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کو احساس ہو کہ ساری قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے؛ تاہم حالیہ واقعات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ معاملات حکام کے لیے توجہ طلب نہیں۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اس وقت ہم لاحاصل بحث اور مشاورت کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہمیں ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنانی ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست کے خلاف تشدد کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جاتا۔ اس عمل کے لیے کسی مشاورت کی ضرورت نہ تھی، یہ ریاست کا فرض تھا۔ مشاورت اُن معاملات میں ہوتی ہے جہاں فرائض واضح نہ ہوں، یہاں تو ہر چیز دوٹوک ہے: کیا شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ اس کے لیے کس مشاورت کی ضرورت ہے؟ خدا کے لیے یہ تو بتائیں کہ دنیا کی اور کون سی ریاست قاتلوںکے ساتھ مذاکرات کرتی ہے؟ یہ صرف ہم ہیں جو اس خطرے کے بارے میں اتنے کنفیوز ہیں کہ مل کر ریاست کی نااہلی کے خلاف آواز بھی بلند نہیںکرتے۔ ہمارے دیگر ریاستی ادارے بھی کئی سالوںسے زندگی موت کی کشمکش میں سے گزر رہے ہیں اور ہم قومی خزانے سے بھاری رقوم دے کر انہیں بمشکل زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اس صورت حال کو اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ ہمیں بہتری کی توقع نہیں ہے۔ جب ہم آہ و زاری کرتے ہوئے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں کہ وہ کتنے اچھے دن تھے تو ہم بھول جاتے ہیں کہ اُنہیں بہتری کی طرف گامزن ہونا چاہیے تھا۔ ہم تعلیمی معیار کے زوال پر شکایت کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ تعلیم کا فروغ ہماری ترجیحات میں سب سے پست رہا ہے۔ درست ہے کہ ریاست اس کے لیے بہت کم رقم مختص کرتی ہے لیکن جو رقم مختص کی جاتی ہے وہ بھی سرکاری افسران کی نااہلی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اس معاملے پر ہم یا پارلیمان میں ہمارے نمائندے رسماً احتجاج بھی نہیںکرتے۔ تعلیم اور اس کے معیار پر نہ کوئی سوال اٹھاتا ہے اور نہ کوئی تنقید کرتا ہے۔ اس رویے کے نتیجے میں سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتیں شکستہ، نصاب دقیانوسی اور ٹیچرز غیر تربیت یافتہ اور لگن سے تہی دامن ہیں۔ اُس نظام کے کیا کہنے جہاں دیگر شعبوںکی طرح اساتذہ کو بھی رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ جب اس پر ہم سوال نہیں اٹھاتے تو ہم دراصل ناقص نظام تعلیم پر تنقید کرنے کا حق بھی کھو دیتے ہیں۔ انسانوں کی پُرہجوم آبادی، جو ہر آن برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے، کے اس سمندر میں اہل ثروت اپنے بچوں کو مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں، ان کے لیے پرائیویٹ ہسپتال ہیں، ان کے گھروں کو روشن کرنے کے لیے جنریٹرز ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے سکیورٹی گارڈز موجود ہیں۔ ایک پاکستان یہ ہے کہ اس میں رہنے والوں کو پبلک سروسز کے انحطاط کی کوئی فکر نہیں۔ جب کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ان پر عوام دوست جذبات کا غلبہ سوار ہو، جس کا دورانیہ چند لمحات سے زیادہ نہیںہوتا، تو یہ اپنی شکایت رجسٹرڈ کرائیں گے اور پھر آگے بڑھ جائیںگے۔ اسی دوران لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں یا پھر وہ تعلیم کے نام پر سکولوں اور مدرسوں میں برین واشنگ کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہے ارباب اختیار کی وجہء بے حسی! ہم بھی ان معاملات پر اتنی دیر ہی غور کریںگے جب تک کوئی جیل نہیں ٹوٹ جاتی اور پھر ایک اور دن بیت جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں