کیا امریکی مداخلت کا دور تمام ہوا؟

شام میں ہونے والی موجود ہ پیش رفت کے حوالے سے لینن کا ایک جملہ مناسب دکھائی دیتاہے: ’’جب لڑائی کے دوران آپ کے ہاتھ میں سنگین ہواور آپ کے سامنے فولاد(تلوار ) ہو تو پیچھے ہٹ جائیں، اگر مقابلے پر نرم چیز ہو تو آگے بڑھتے جائیں‘‘۔گویا کمزور مدِ مقابل کے سامنے جارحیت دکھائیں اور طاقتور حریف کے سامنے موقع شناسی! شام میں اس جملے کا عملی اظہار اس طرح ہوا جب شام میں ہونے والی خانہ جنگی پر امریکہ کی طرف سے دیے جانے والے دھواں دھار بیانات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اگرچہ شروع میں بارک اوباما جنگ پر آمادہ دکھائی دیتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ، خاص طور پر امریکی عوام، دل سے اس جنگ میں کود پڑنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ وہ مشرق ِ وسطیٰ میں ایک اور محاذ کھولنے کے متحمل نہیںہوسکتے تھے۔ ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات، ہزاروں افراد کی ہلاکت اور بارہ سال تک دنیا کے مختلف علاقوں میں غیر واضح مقاصد کے لیے جنگ لڑنے کے بعد اب امریکہ کی عسکری بصیرت بیدار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ لندن اور واشنگٹن میں ارکان ِ پارلیمنٹ کا موڈ یہ دکھائی دیتا ہے کہ ایسی کشمکش میں، جس کے انجام کا علم نہ ہو، بے دھڑک کودنے سے اجتناب کیا جائے۔ جب صدر اوباما نے شام پر حملے کے لیے کانگریس کی منظوری چاہی تو انہیں ایوانِ نمائندگان کی طرف سے بھرپور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ایسے ملک میں جو دوسری جنگ ِ عظم کے بعد سے چھوٹی بڑی درجنوں جنگیں لڑچکا ہو، یہ غیر معمولی پیش رفت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی عوام بھی جنگ وجدل ، چاہے اس کی وجہ کوئی بھی ہو، پسند کرتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ڈیموکریٹ اور رپبلکن نمائندوںنے ایک اور جنگ لڑنے کے تصور کی سختی سے مخالفت کی۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی جنگ کی مخالفت کی گئی۔ لیے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ فرانسیسی عوام بھی شام پر فضائی حملوںکے خلاف ہیں، اگرچہ فرانس میں صدر ہولاندے کو ایک ہیرو کا درجہ دیا گیا کیونکہ اُنھوںنے گزشتہ سال مالی میں اسلامی پارٹی کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے قوت استعمال کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوام ِ متحدہ کے R2P (تحفظ کی ذمہ داری کا اصول) کے تحت دیگر ممالک میں مداخلت کرنے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس پیش پیش رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھوںنے یواین کی منظوری کے بغیر بھی ریاستوں پر حملہ کیا، لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ ان کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شام میںہونے والی جنگ کا اخلاقی پہلو خاصا مبہم ہے کیونکہ ایک طرف تو ایک آمر ہے جسے ہزاروں افراد کو ہلاک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیںہوئی، تو دوسری جانب بکھرے ہوئے مخالف گروہ ہیں ۔ ان کی طرف سے بھی ظلم و بربریت کی داستانیں سامنے آئی ہیں۔ چنانچہ دنیا کے سامنے ابہام اس بات پر ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے؟ میںنے ہمیشہ سے آمرحکمرانوں، جنرلوں اور امیروں کی جو کئی عشروںسے مشرق ِ وسطیٰ میں اقتدار پر قابض ہیں، مخالفت کی ہے۔ ان حکمرانوںکی طرف سے اربوں ڈالر خرچ کرکے جو اسلحہ حاصل کیا جاتا ہے ، اس کا نشانہ ان کے اپنے عوام ہی بنتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے جابرانہ طریقے اپنا کر حکومت کی ، لیکن ایک بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ان کی سختی کی وجہ سے ان کے ممالک میں فرقہ واریت کا عفریت سر نہ اٹھا سکا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب عراق ، اور اب شام میں، فولادی مکہ نرم ہوا تو مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔ اس لڑائی میں دیگر اقلیتوں کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ عیسائی باشندوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ کرد نسل کے لوگوں کو ان کے علاقوںسے نکال دیا گیا ہے۔ ان انتشار زدہ ممالک میں حکومتی نظم میں پیدا ہونے والے خلا میں القاعدہ اور اس جیسے دیگرگروہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔قتل و غارت کے اس ماحول میں لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے اُن ممالک کو جہاں اُنھوںنے پناہ لی ہے ، مسائل کا سامنا ہے۔اس کے باوجود، آج دنیا شام میں مداخلت کے لیے تیار نہیںہے۔ دنیا میں قیامِ امن کی ذمہ داری اٹھانے والی اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیداہونے والے ڈیڈلاک کی وجہ سے مفلوج ہوچکی ہے۔ ایک حوالے سے روس اور چین کی طرف سے ویٹو کرنے کی وجہ سے یہ ڈیڈلاک پیداہواہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے ذریعے لیبیا پر ’’نوفلائی زون ‘‘ قائم کیا گیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی آڑ میں وہاں کی حکومت تبدیل کردی جائے گی۔ چنانچہ اب چین اور روس اس بات پریقین کرنے کے لیے تیار نہیںہیں کہ مغربی طاقتیںصرف اسد کو سبق سکھانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ لیبیا میں اقتدار کی جبری تبدیلی سے وہاں کیسا انتشار پھیل چکا ہے۔ چنانچہ اب دنیا کے سامنے شام میں چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے درمیان انتخاب کا مرحلہ ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے جنگ نہ کرنے اور امریکی عوام کی جنگ سے نفرت کی وجہ سے آج کی دنیا میں ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ R2P اب فنا کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ ایک مستحسن پیش رفت ہے؟ امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے یورپ میںہونے والی جنگوں میں خود کو الجھانے سے گریز کیا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکہ صرف آخری مرحلے میں شامل ہوا تھا۔ اس وقت کی امریکی حکومتوںکو اپنے عوام کو قائل کرنے میں بہت دشوار ی کاسامنا کرنا پڑا تھا کہ ان کا اتحادی افواج کے ساتھ اشتراک ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر جاپان پرل ہاربر پر بمباری کی غلطی نہ کرتا (جس کے رد ِ عمل میں امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا) تو دوسری جنگ ِ عظیم کا انجام بہت مختلف ہوسکتا تھا۔ تاہم گزشتہ صدی کے دوسرے حصے میں امریکی نسل نے، خاص طور پر جس نے سرد جنگ کے زمانے میں آنکھ کھولی، ان رہنمائوں کی حمایت کی جو جنگی عزائم رکھتے تھے۔ امریکی سوچ میںاصل تبدیلی 9/11 کے واقعات نے پیدا کی۔ اس نے پنٹاگان کو ایک نئے دشمن سے آشنا کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکی افواج اپنی سرحدوںسے باہر جاکر لڑنے لگیں۔ تاہم جیسا کہ اب شام کے معاملے میںہوا ہے، اگر امریکی رویہ اسی ’’استقامت ‘‘ کا مظاہرہ کرے گا تو کیا یہ دنیا ایک پرامن جگہ بن جائے گی؟حقیقت یہ ہے کہ عقربی عسکری مشین رکھتے ہوئے امریکہ ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو دنیا میں کہیں بھی فوری اور موثر طور پر کاروائی کرسکتا ہے۔ آج کے دور میں یہ توقع کرنا عبث ہوگا کہ دنیا میں مزید بوسنیا یا کوسوو نہیں ہوںگے۔ ان دونوں ممالک میں مسلمان آبادی کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا لیکن اسلامی دنیا بے بسی کی تصویر بنی رہی، یہاںتک کہ بل کلنٹن نے سرب جارحیت سے مسلمانوں کو بچانے کافیصلہ کیا۔ جب امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو زیادہ تر مسلمانوںنے امریکہ کی شدید مخالفت کی، لیکن اُنہیںیادرکھنا چاہے کہ امریکی مداخلت نے لاتعداد مسلمانوں کی جان بچائی بھی ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات پر نظر ِ ثانی کرتے رہنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں