امن اور جذبات

برابری؟۔۔۔۔ بہت دیر ہوئی ہم نے اس لفظ کی جھلک اس معاشرے میں نہیں دیکھی اور نہ ہی اب یہ سننے کو ملتا ہے لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا، ہمارے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات میں اس کا اعادہ ہوتا رہتا تھا؛ تاہم اب دفتر خارجہ کی طر ف سے اپنے عظیم ہمسایوں کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات میں لفظ ’’برابری‘‘ کا غائب ہو جانا اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ ہم حقائق پسند بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے، اسّی کی دہائی تک ہم بین الاقوامی معاملات میں بھارت کے ساتھ برابری کا دعویٰ کرتے تھے لیکن جیسے جیسے ہمارے روایتی حریف کی معیشت اور اس کے ساتھ ہی اس کی عالمی اہمیت میں اضافہ ہوا تو ہماری تنزلی کا فی الحال نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو گیا۔ بھارت کو پاکستان پر یہ فوقیت رہی ہے کہ غیرملکی سیاح اس کو اپنے لیے ایک دلکش اور رنگین منزل پاتے ہیں جبکہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں عوام کی حکمرانی نہیں ہے اور اس کی عدم موجودگی میں خوشی کے مواقع تلاش کرنا صحرا میں زعفران اُگانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ہمارے امیج کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ان مسائل کے باوجود پاکستان کو جغرافیائی طور پر اہمیت حاصل رہی ہے۔ سب سے پہلے افغانستان پر سوویت حملے نے پاکستان کو دنیا کے نقشہ پر اہم ترین ملک بنا دیا۔ پھر موجودہ دور میں نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا اور اس کی وجہ سے القاعدہ عالمی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس طرح دنیا کے دیگر دارالحکومتوں میں پاکستان کی اہمیت صرف انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے حوالے سے ہی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی شخص بھی آج لفظ ’’برابری‘‘ استعمال نہیں کرتا۔ جب جارج ڈبلیو بش نے بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تو ہم نے بہت شور مچایا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ کیا جائے لیکن دل سے ہم جانتے تھے کہ واشنگٹن ہمارے ساتھ ایسا معاہد ہ نہیںکرے گا۔ اگلے دن ایک ٹی وی چینل پر ہونے والے پروگرام میں پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے تین تین شرکا موجود تھے۔ بظاہر تو اس مباحثے کا موضوع دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات تھی لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اسٹوڈیو میدان جنگ بن گیا اور ہر کوئی، بشمول اینکر، دوسرے پر پوری قوت سے چِلّانے لگا۔ اُس گفتگو کو مہذب بنانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی اور نہ ہی شرکا کی طرف سے، چیخ پکار اور الزامات کے علاوہ، مثبت تجاویز سامنے آ سکیں۔ بلکہ مہمانوں، جن میں میرے پرانے دوست ظفر ہلالی بھی شامل تھے، سے زیادہ نوجوان اینکر جارحانہ موڈ میں دکھائی دیتا تھا۔ ظفر ہلالی نے، جیسا کہ توقع تھی، شرکا سے کہا کہ وہ متنازعہ موضوعات کو چھوڑ کر آگے بڑھیں؛ تاہم اُنھوں نے بھارتی مہمانوں سے سوال کیا کہ وہ اگلے عام انتخابات میں نریندرا مودی، جس پر گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام ہے، کو کیوں منتخب کرنا چاہتے ہیں تو اس پر بھارتیوں نے کہا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں اور کسے مستردکریں؛ چنانچہ شور شرابا جاری رہا یہاں تک کہ میں نے تنگ آ کر چینل تبدیل کر لیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے تمام شرکا تجربہ کار اور سینئر افراد تھے اور وہ جانتے تھے کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات سے بہت زیادہ نتائج کی توقع نہیںکی جا سکتی۔ ایک بات اہم ہے کہ گزشتہ انتخابات میں نواز شریف صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول کی سطح پر لائیںگے؛ تاہم اس کے لیے طرفین کے تعاون کی ضرورت ہے، ایسے معاملات میں ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی۔ اس وقت سرحد کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں۔ حال یہ ہے کہ ہم کشمیر کا راگ الاپتے رہتے ہیں جبکہ بھارت پانچ سال پہلے ہونے والے ممبئی حملوں پر پاکستان پر دبائو ڈالتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت تو کشمیر میں کم درجہ کی شورش طویل عرصے کے لیے برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے لیے مجبوری یہ ہے کہ اس نے اپنی خراب مالی حالت کے پیش نظر اپنا دفاعی بجٹ کم کرنا ہے۔ نواز شریف نے ٹھیک کہا کہ اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے دونوں ممالک کے وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال مالی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اگر یہ معاملہ نواز شریف اور من موہن سنگھ پر چھوڑ دیا جائے تو وہ غالباً اس کا بہت عمدہ حل تلاش کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اور بھارتی ایسا ہی چاہتے ہیں لیکن جب ایک مرتبہ آپ نے سرحد کھینچ لی ہے، یونیفارم زیب تن کر لیا ہے، پرچم لہرا لیا ہے تو پھر بہت سی معروضات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایسا کرتے ہی مادر وطن کا ایک ایک انچ مقدس ہو جاتا ہے، ہر ذرہ تقدیس کا جامہ زیب تن کر لیتا ہے اور کشیدگی کے بادل فضا میں منڈلانے لگتے ہیں۔ بھارتیوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ان کے ملک کا بڑا سائز اور طاقت پاکستانیوں کے دل میں کس حد تک عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح زیادہ تر پاکستانی بھی اس بات کا احساس نہیں رکھتے کہ ہماری پالیسیاں بھارت کو کتنا مشتعل کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کا میڈیا ان خوف و خدشات کو ہوا دینا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہے۔ ایک خیال ذہن میں آتا تھا کہ اگلے سال افغانستان میں سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی کو سوچنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے پہلے سرخ فوج کی واپسی کو جہادی عناصر کی بہت بڑی فتح قرار دیا گیا تھا، اسی طرح امریکی افواج کی واپسی کو طالبان کی فتح سے تعبیر کیا جائے گا۔ امریکہ کے جاتے ہی افغانستان کے بڑے حصے دہشت گردوںکی آماجگاہ بن جائیںگے۔ اس صورت میں کابل، اسلام آبا د اور نئی دہلی کو باہم تعاون کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان گروہوں کا مقابلہ کر سکیں لیکن اگر ان دارالحکومتوں کے درمیان پائے جانے والے عدم اعتماد پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا تصور کرنا محال ہے اور اس کے بغیر دہشت گرد گروہوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ برصغیر میں قیام امن کے امکانات اور فوائد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس وقت سارک عملی طور پر مفلوج تنظیم بن چکی ہے۔ دوسری طرف چین کے بھی بھارت کے ساتھ تنازعات ہیں لیکن وہ آج اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم صرف 2.3 بلین ڈالر ہے۔ اگر ہم اُسے ایم ایف این کا درجہ دینے کا حوصلہ رکھیں تو یہ تجارت دو سو گنا بڑھ سکتی ہے۔ یقیناً سیاست دانوں کو اس بات کا احساس کرنا ہے کہ ممالک کے حساس معاملات کے لیے ٹی وی سٹوڈیو کو محاذ جنگ کے طور پر استعمال کرنا کسی طو ر مناسب نہیں۔ اس کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان جہاں تک ممکن ہو سکے کشیدگی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں