یہودیوں کی انتقامی ذہنیت

ہر ناخوشگوار بو، جو دماغ کو تعفن زدہ رکھتی ہے، کی طرح یہودیوں کے خلاف نفرت بھرے رویے کا عوامی سطح پر اظہار ہوتا رہتا ہے، حالانکہ اس پر مغرب میں قانونی طور پر پابندی ہے اور اسے بدتہذیبی کے مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی یہودی کے لیے لفظ Yid گالی سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود شمالی لندن کے فٹ بال کلب Tottenham Hotspurs کے حامی خود کو Yid آرمی قرار دیتے ہیں۔ اس کلب کے بہت سے حامی یہودی مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ درحقیقت شمالی لندن میں بہت بڑی تعداد میں یہودی آباد ہیں؛ چنانچہ وہ یہاں کی ثقافت، رہن سہن‘ سوچ اور دانائی کو متاثر کرتے ہیں۔ جہاں تک اس فٹ بال کلب کا تعلق ہے تو اس کے بہت سے حامی بڑے فخر سے خود کو یہودی نظریات کا حامی قرار دیتے ہیں‘ لیکن ان کے مخالفین کی بھی کمی نہیں، جو انہیں از راہ تضحیک Yiddos کہہ کر پکارتے ہیں یا اسی طرح کے دوسرے توہین آمیز القابات استعما ل کرتے ہیں۔ اس لیے جب بھی اس مذکورہ کلب کا کوئی میچ ہوتا ہے تو یہ نوک جھوک چلتی رہتی ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں ایک پیش رفت اُس وقت دکھائی دی جب ایک عیسائی، ایک مسلمان اور ایک یہودی (یہ تینوں مشہور کلب آرسنل کے حامی ہیں) نے مل کر کلب کے چیئرمین کو ایک قانونی نوٹس بھیجا کہ یہودیوںکے خلاف نسلی بنیادوں پر توہین آمیز القابات کا سلسلہ بند کیا جائے۔ حال ہی میں ’’کونسل آف یورپ‘‘ نے ایک قرارداد Children\'s Right to Physical Integrity پیش کی۔ اس قرارداد کا مسودہ اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ ’’بچوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلی‘‘ کو اُن کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے لیکن دراصل یہ تبدیلیاں نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ نوعمر لڑکیوں کے ختنے کرنا انتہائی تکلیف دہ اور گھنائونا فعل ہے، اسی طرح لڑکوں کے ختنے بھی کوئی ’’بچوں کا کھیل‘‘ نہیں ہوتے؛ تاہم اس قرارداد کو مسلمانوں اور یہودیوں نے مل کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تانیا گولڈ کی ’’گارڈین‘‘ میں شائع ہونے والی تحریر کے مطابق ۔۔۔’’یہودیوں کے نزدیک ختنے کرنا خدا کے ساتھ معاہدے کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا کے بہت سے مہذب ممالک، جیسا کہ جرمنی، سویڈن اور ناروے میں ختنے کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دینے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ اس پس منظر میں یہودیوںکے خلاف پائے جانے والے جذبات، اگرچہ ان میں زیادہ شدت نہیں ہے اور نہ ہی تشدد کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن تضحیک اپنی جگہ پر موجود ہے، پر Simon Schama (برطانوی مورخ اور دانش ور) کی پانچ حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم بی بی سی نے نشر کی۔ اس فلم میں یہودیوں کے ابتدائی دور کے حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کس طرح اُنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا لیکن صدیوں تک بے گھر رہنے کے باوجود وہ اپنے عقائد اور شناخت کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس دستاویزی فلم کے آخری حصے، جو متنازعہ بھی ہے، میں اسرائیل کی تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگرچہ Simon Schama یہودی ریاست کی تخلیق کا جواز پیش کرتے ہیں لیکن وہ اسرائیلی رہنمائوںکے بہت سے فیصلوں، جن کے نتیجے میں فلسطینی باشندوں کی زندگی پریشانیوں کا شکار ہوئی، پر تنقید بھی کرتے ہیں؛ تاہم فلم کے اس حصے پر فلسطینی نواز افراد اور تنظیموں نے خاصے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ لاکھوں افراد یہودیوں پر الزامات لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دنیا کے سرمائے کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے؛ تاہم ان الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے ایک حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ یہودیوںکو صدیوں تک یورپ کے مختلف ممالک میں زمینوں کی ملکیت سے محروم رکھا گیا تھا‘ اس لیے انھوں نے بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے روزی کمانے کا سامان کیا۔ جب شہروں نے فروغ پانا شروع کیا تو درمیانی طبقہ ابھر آیا۔ اس کو مالیاتی مدد کی ضرورت تھی؛ چنانچہ یہودیوںنے دولت کمانا شروع کر دی۔ اس کے علاوہ یہودیوں نے تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دی اور متعدد زبانیں سیکھیں تاکہ وہ اپنی مقدس کتاب کو ناصرف اصل عبارت میں بلکہ جن ممالک میں وہ رہتے ہیں، وہاں کی مقامی زبان میں بھی پڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ ان کو صدیوں تک متواتر جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس نے ان کے اندر ایک مزاحمت کی قوت پیدا کر دی۔ چونکہ فوج کشی ان کے لیے دستیاب امکان نہیں تھا، اس لیے انھوں نے جدید تعلیم اور مالیاتی امور میں اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا۔ Schama کے مطابق، جب انیسویں صدی میں مغربی یورپ میں یہود مخالف واقعات رونما ہونے شروع ہو گئے تو اُنہیں اس بات کا شدت سے احسا س ہوا کہ ان کا بھی کوئی وطن ہونا چاہیے۔ Schama ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح بیت القدس سے لے کر سپین تک، یہودیوں کو ہر جگہ ناقابل بیان ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی نسل کشی کے مختلف حربے آزمائے گئے، اُنہیں اذیت ناک طریقوں سے ہلاک کرنا ایک فن بن گیا۔ Schama کے مطابق سپین میں مسلمان اور یہودی مل کر رہتے تھے اور ان کے درمیان تعلقات بہت اچھے تھے لیکن جب پندرہویں صدی میں سپین پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو یہودیوںکا بے تحاشا خون بہایا گیا۔ وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ دستاویزی فلم میں Schama بتاتے ہیں کہ کس طرح یہودی خاندانوں نے مصائب برداشت کیے لیکن اپنی عزتِ نفس کا تحفظ کیا۔ جہاں تک ہم پاکستانیوںکا تعلق ہے تو ہمارا براہِ راست یہودیوں سے کوئی تنازع نہیں ہے، لیکن ہم زیادہ تر فلسطینی باشندوں کے لیے ہمدردی کے جذبات محسوس کرتے ہوئے اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو قوم (یہودی) خود اتنے مصائب برادشت کر چکی ہے، اب وہی دوسری قوم پر اذیت کے پہاڑ توڑ رہی ہے؛ تاہم بہت سے مسلمان ایک بات کی تفہیم سے قاصر رہتے ہیں کہ یہودیت اور اسرائیل میں فرق ہے۔ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی بہیمانہ کارروائیوںکی حمایت نہیںکرتے ہیں۔ اب یہاں دو متصادم معروضات ہیں۔۔۔ یہودیوں نے آخر کار اپنے لیے سرزمین حاصل کر لی لیکن وہ خطے میں رہنے والے دوسرے باشندوں کو ایسا کرنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں مبادا ان کی سلامتی کو کوئی نقصان پہنچے۔ یورپ کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کے لیے ہمدردی رکھتے ہوئے ان کے افعال سے اغماض برتتی رہی ہے، لیکن اب یورپ کی اقوام کے نزدیک اسرائیلی ریاست نسل پرستی کے دور کی جنوبی افریقہ کی ریاست بن چکی ہے۔ جب 1948ء میں اسرائیل وجود میں آیا تو اس کے ہمسایوں نے اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ شروع میں ہونے والی جنگوں میں اسرائیل نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا لیکن رفتہ رفتہ دنیا کو احساس ہونا شروع ہو گیا کہ اسرائیل اپنے بقا کی جنگ کی آڑ میں جابرانہ ہتھکنڈے اپناتے ہوئے توسیع پسندی کا کھیل کھیل رہا ہے تو یورپ کی ہمدردی اور حمایت میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ اس کشمکش کو سرسری انداز میں دیکھنے کی بجائے، Schama اس کو تاریخی پس منظر میں سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں کہ اسرائیل کی تخلیق یہودیوں کے لیے کس قدر ضروری تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب دو قومیں ایک ہی سرزمین کی دعویدار ہوں تو خونریزی لازمی امر ہے۔ اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے میں تاریخ، مذہب اور سیاست آپس میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ اس کا کوئی حل ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں