خلیجی ریاست اور فٹ بال ورلڈ کپ

ایک خلیجی ملک کے ڈپٹی لیبر منسٹر نے مشہور اخبار’’دی گارڈین ‘‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی ہے۔ اس اخبار سے کیا جرم سرزد ہوا ہے؟دراصل گزشتہ ماہ اس نے اس چھوٹی لیکن انتہائی امیر ریاست میں غیر ملکی مزدوروں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔اس رپورٹ میں خاص طور پر نیپال سے تعلق رکھنے والے تارکین ِ وطن، جو وہاں ملازمت کررہے ہیں، کے حالات کا جائزہ لیا گیا تھا۔گارڈین کے نمائندے کو نیپال کے سفارت خانے سے حاصل ہونے والے ریکارڈ کے مطابق 4 جون اور 8اگست کے درمیانی عرصے میں نیپال سے تعلق رکھنے والے چوالیس مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس ملک میں جنونی انداز میں تعمیر کی جانے والی عمارتیں دراصل فٹ بال ورلڈکپ کے لیے بنائے جانے والے انفراسٹرکچر کا حصہ ہیں۔ گزشتہ سال کافی بحث مباحثے اور تنازعات کے بعد دنیا کے مقبول ترین کھیل کا سب سے بڑا ٹورنا منٹ عرب دنیا میں منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی اور کھیل کے شائقین اور کھلاڑیوں نے سوال اٹھایا کہ جب موسمِ گرما میں یہاں درجہ حرارت پچاس ڈگری سنٹی گریڈ تک جا پہنچے گا تو میچ کیسے کھیلے جائیںگے؟ وکالت کرنے والوں نے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیںہے۔۔۔ ’’ہم تمام اسٹیڈیمز کو ائیر کنڈیشنڈ کر دیںگے‘‘ تاہم اس کھیل کو کنٹرول کرنے والی تنظیم فیفا نے اسے ناقابل ِ قبول حل قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب ملک کو ورلڈ کپ دینے کا اعلان کیا گیا تو بہت سوںنے کھلے عام الزام لگایا کہ فیفا کے نمائندوں کو ’’خرید ‘‘ لیا گیا ہے۔ فیفاغیر لچکدار فیصلے کرنے والی تنظیم ہے اور اس کے صدر سپ بلیٹر (Sepp Blatter) جو طویل عرصے سے اس عہدے پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، کا رویہ آمرانہ ہے۔ اس وقت کچھ حلقوں میں یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ مجوزہ ٹورنا منٹ گرمیوں کی بجائے موسم ِ سرما میں منعقد کرا لیا جائے؛ تاہم ایسا کرنے میں بہت سے مالی اور انتظامی امور مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یورپ میںفٹ بال کا سیزن موسمِ خزاں اور سرما ہے، چنانچہ ورلڈ کپ کے شیڈول میں کی جانے والی کسی بھی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی تبدیلیاں کرنا پڑیںگی۔ پریمیر لیگ چمپئن شپ کے میچ کھلاڑیوں، کلبوں اور نشریاتی اداروںکے لیے نہایت منافع بخش ہوتے ہیں۔ اگر وہ میچ متاثر ہوتے ہیں تو اس کے لیے فیفا سے زر ِتلافی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس خلیجی ملک میں ورلڈ کپ منعقد کرانے کی مخالفت میں دی جانے والی ایک دلیل، جس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیںہے، یہ ہے کہ یہ ریاست ’’خشک ‘‘ ہے اور یہاں میچ دیکھنے آنے والوں کو حلق تر کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ مشروبات نہیں ملیںگے اور نہ ہی میچ جیتنے کے بعد بیئر کی بوتلیں اُڑائی جاسکیںگی۔ فٹ بال کے میچ دیکھنے والے شائقین جس طرح ان میچوں سے محظوظ ہوتے ہیں، اُس سے ہم ایشیائی باشندے بھی واقف ہیں۔ کیا یہ خلیجی ملک اس طرح کی تقریبات کی اجازت دینے کے لیے تیار ہو سکے گا؟ یہاںبحث کا موضوع بعض ممالک میں غیر ملکی ملازمین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور اُن کا استحصال ہے۔دراصل یہ معاملہ بھی فٹ بال کے ورلڈ کپ پر اثر انداز ہونے جارہا ہے۔ UEFA کے کھلاڑیوں کی ایسوسی ایشن کے صدر مائیکل پلاٹینی کا کہنا ہے کہ اس وقت ورلڈ کپ کے اوقات سے زیادہ متعلقہ ملک میں غیر ملکی مزدوروںسے روا رکھی جانے والی سختی اُن کے لیے باعث ِ تشویش ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر اس خلیجی ملک کے حکام نے کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ نہ کیا تو مشقت، جسے ماہرین عملاً غلامی سے تعبیر کرتے ہیں، کی وجہ سے ورلڈکپ کے آغاز تک چار ہزار کے قریب مزدور اپنی جانوںسے ہاتھ دھو بیٹھیںگے۔ ہمیں اس پر حیرت نہیںہونی چاہیے کیونکہ کئی عشروںسے عرب دنیا میں مزدوروںسے انتہائی ناروا سلوک جاری ہے۔ یہاں مزدوروں کو تعمیراتی جگہوں پر چلچلاتی ہوئی گرمی میں انتہا ئی نا مساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے رہنے کے لیے تندور کی طرح تپتی ہوئی لوہے کی بیرکس ہوتی ہیں۔ دوسری طرف گھروں میں کام کرنے والی لڑکیوں کو کسی اور طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان دونوںکے پاسپورٹ ان کے سپانسر ، جنہیں عرفِ عام میں کفیل کہا جاتا ہے، کے پاس ضبط ہوتے ہیں۔ کفالت کا یہ نظام کام کرنے والوں کو عملاً غلام بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر کام چھوڑ نہیں سکتے۔ اگر وہ ایساکریں تو اُنہیں پاسپورٹ نہیں ملے گا اور کاغذات کی عدم موجودگی میں اُنہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ کاغذات ضبط کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بھی روک لیا جاتا ہے تاکہ وہ کہیں اور جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ گزشتہ سال سری لنکا سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان لڑکی کا ایک عرب ملک میں کھلے عام سرقلم کر دیا گیا کیونکہ اس پر اپنے مالک کے چھوٹے بچے، جس کی نگہداشت پر اسے مامور کیا گیا تھا، کی ہلاکت کا الزام تھا ۔ اس لڑکی کا اصرار تھا کہ اُس بچے کا سانس دودھ پینے والی بوتل کی وجہ سے رک گیا تھا۔ بہرحال لڑکی بہت چھوٹی عمر کی تھی اور اُسے بچے سنبھالنے کا تجربہ نہ تھا۔ اُسے گھریلو ملازمہ، نہ کہ بچوںکی آیا، کے طور پر رکھا جاسکتا تھا۔ درحقیقت اُس پر تشددکرکے اعتراف ِ جرم کرایا گیا۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ اس واقعہ پر عالمی برادری نے آواز بلند کی لیکن احتجاج کے باوجود اُس کاسرقلم کر دیا گیا۔ تاہم یہ کوئی منفرد واقعہ نہیںہے، اسی طرح کی کہانیاں منظر ِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ 2010ء کی ہیومین رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں خواتین ملازمین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اُنہیں پندرہ سے بیس گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتاہے۔ اس وقت عرب دنیا میں خواتین ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان میں زیادہ تر کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض خلیجی ممالک میں غیر ملکی ملازمین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس صورت ِ حال سے الگ نہیں ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے پچیس ملین (دو کروڑ پچاس لاکھ) افراد کام کررہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کو خرا ب حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں نیپال سے تعلق رکھنے والے جن افراد کی اموات منظر ِ عام پر آئیں، وہ ان میں سے چند ایک ہیں۔ ورلڈ کپ کی تیاریوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مذکورہ ملک تیس کے قریب ممالک سے پندرہ لاکھ افراد کو بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان افراد کی قسمت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ فیفا یا انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ملک کی حکومت پر کتنا دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ان خدشات کے پیش ِ نظر کچھ حلقوں میں یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ ورلڈ کپ کو ان ممالک میں منتقل کر دیا جائے جن پر اس خلیجی ملک کو ترجیح دی گئی تھی۔ فیفا کے صدر کا کہنا ہے کہ ایک خلیجی ملک کوورلڈ کپ دینے کی وجوہ سیاسی تھیں کیونکہ فیفاکے اراکین پر یورپی ممالک کی طرف سے دبائو تھا کہ اس ملک کو ورلڈکپ دیا جائے کیونکہ وہ اُس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتے تھے۔ بہرحال اس فیصلے کی جو بھی وجوہ ہوں، مشرق ِ وسطیٰ میں غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ضرور منظر عام پر آگیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں