بدعنوانی اور برصغیر کا کلچر

کسی کے لیے ’’صف شکن‘‘ کا لقب ماضی کی دلیری کی یاد دلاتا ہے۔ میں ایم اطہر علی کی کتاب ’’The Mughal Nobility Under Aurangzeb‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس لفظ سے آشنا ہوا۔ یہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اپنے بیٹے شاکر کو نصیحت کی ہے کہ اگر قدرت مجھے تیسرے پوتے سے نوازے تو وہ اس کا نام صف شکن رکھے۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے‘ اس میں سلطنت مغلیہ کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں لیکن سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد میری ایک الجھن جو بہت دیر سے میرے ذہن میں تھی، دور ہو گئی۔ اس سے پہلے یونیورسٹی میں، میں نے مغل افواج کی دکن میں یلغاروں کا احوال پڑھا تھا۔ اس زمانے میں جب زمینی سفر بہت مشکل اور آہستہ ہوتا تھا، ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ کے درمیان کئی ماہ بلکہ کئی برسوں کا عرصہ حائل ہوتا تھا۔ اس کی وجہ بھاری بھرکم افواج کا سست روی سے چلنا تھا۔ ایک موقع پر اورنگ زیب نے خود فوج کی کمان سنبھالی۔ اپنے دور حکومت کے آخری بیس سال اُس نے نہ ختم ہونے والی جنگوں میں بسر کیے۔ اس سے سلطنت کا خزانہ خالی ہو گیا اور ریاست کمزور ہو گئی۔ اطہر علی کی کتاب پڑھنے سے پہلے میں نہیں جانتا تھا کہ دکن میں ہونے والی لشکر کشی اتنی سست رفتار کیوں ہوتی تھی۔ مصنف اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ دکن میں پہاڑی مقامات پر سفر دشوار اور آہستہ ہوتا تھا اور وہاں بہت سی گزرگاہیں بہت مشکل تھیں لیکن اس سست روی کی ایک بڑی وجہ فوجی کمانڈروں کی بدعنوانی بھی تھی۔ بہت سے فوجی افسر اپنے ذاتی مفاد کے لیے جنگوں کو کئی ماہ پر پھیلا دیتے تھے۔ مصنف نے دور حاضر کے محقق برنیئر (Bernier) کا حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا ہے: ’’اُس وقت یہ بات زبان زد عام تھی کہ دکن ہندوستان کے فوجیوں کے لیے روزی کا سامان پیدا کرتا ہے، اس لیے فوجی کمانڈر مہمات کو جان بوجھ کر طوالت دیتے تھے۔ اس سے سب کی روزی روٹی چلتی رہتی تھی‘‘۔ اُس وقت شاہی خزانے سے سپہ سالار کو مال بھیجا جاتا تاکہ وہ اپنے سپاہیوںکو تنخواہ ادا کرنے کے علاوہ سازوسامان خرید سکے، اس لیے فوجی افسران کم سپاہی رکھنا بہتر سمجھتے تھے تاکہ تنخواہوں کی مد میں کم رقم خرچ کرنا پڑے۔ باقی رقم اُن کی جیب میں چلی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ فوجی افسر دکن میں مغلوںکی فوج کشی کو پسند نہیںکرتے تھے۔ اس طرح کچھ افسر آپس میں رقابت بھی رکھتے تھے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ مغلیہ سلطنت میں بدعنوانی نے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ اُس وقت شاہی دربار میں قیمتی تحائف پیش کرنے کا رواج بلکہ قانون تھا اور یہ بادشاہ کی حمایت حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ کسی بھی حمایت کی اہمیت کے مطابق تحفہ دیا جاتا تھا۔ درباری امراء کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ خاص مواقع پر بادشاہ کو تحائف پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ درباری ان تحائف کے لیے عوام کا خون نچوڑ کر ان کی زندگی اجیرن بنا دیتے تھے۔ اطہر علی لکھتے ہیں: ’’درباری امراء تحائف پیش کرنے کے بعد کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد تھے۔ ان کی بہت سی بداعمالیوں سے بادشاہ واقف ہوتا تھا لیکن وہ اغماض برتتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ولیم نورس کے مطابق: ’’اورنگ زیب نے کمپنی کو اپنی سلطنت میں کام کرنے کی اجازت دے دی لیکن ضروری کاغذات کے عوض بادشاہ کو دو لاکھ اور درباری امراء کو ایک لاکھ سکہ رائج الوقت دینے کا حکم دیا‘‘۔ یہ بداعمالی آج پاکستان میں جاری بدعنوانی سے مشابہت رکھتی ہے۔ آج پاکستان میں نجی گفتگو سے لے کر ٹی وی اسٹوڈیوز میں ہونے والی بحث تک کا موضوع بدعنوانی کا کوئی نہ کوئی کیس ہوتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں بدعنوانی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اس سے آسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔ 1857ء میں‘ مغلیہ سلطنت کے اختتام سے پہلے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے افسران کو جی بھر کے اپنے ارمان نکالنے کی اجازت دے رکھی تھی؛ تاہم جب ریاستی نظم ونسق تاج برطانیہ کے تحت آیا تو برصغیر نے مختصر مدت کے لیے بدعنوانی کا خاتمہ ہوتے دیکھا۔ اُس دور میں انڈین سول سروس نے نہایت ایماندار افسران پیدا کیے۔ اُس وقت یہ افسر وکٹورین اخلاقیات کی پاسدار ی کرتے تھے اور اُنہیں بہت اچھی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ 1940ء کی دہائی میں کام کرنے والے ایک سرکاری افسر نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ماہ کی تنخواہ سے نئی کار خرید سکتا تھا۔ آزادی کے چند سال بعد تک ان روایات کا تسلسل دیکھنے میں آتا رہا لیکن آہستہ آہستہ لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آج رشوت کے بغیر نہ کوئی کام ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو رشوت دیتے یا لیتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ آج سرکاری افسروں، سیاست دانوں اور بعض دوسرے اداروں کی کالی بھیڑوں کے بارے میں ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ’’منفعت ایک ہے اس قوم کی…‘‘ چند دن پہلے ایک انگریزی اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ایک سینٹر کے اہل خانہ نے لندن میں ایک بیش قدرگھر خریدا ہے۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ہمارے کلچر میں بدعنوانی کا عنصر سرایت کر چکا ہے۔ انڈیا میں بھی یہی صورت حال ہے‘ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میڈیا میں کسی پر بھی بدعنوانی کا الزام لگنے پر ایک طوفان مچ جاتا ہے، جیسے فرشتوں کی اس سرزمین پر کوئی انہونی واقع ہو گئی ہو۔ اگرچہ ہمارے ملک میں ایک سابق صدر کو بدعنوانی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے بدعنوانی کے الزام میں جیل کی سختی برداشت کی۔ ان کے سوا کسی اور کا تو چہرہ بھی گرد آلود نہیں ہوا۔ اگر ان واقعات کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو ماضی میں حکمرانوں کے درباروں میں ہوتا تھا۔ پس تحریر: میں گزشتہ کالم میں سفارت کاروں کا ذکر کرتے ہوئے شیری رحمان کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ اُنھوں نے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان روابط بحال کرنے (رکھنے) میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں اسے بڑھتی ہوئی عمر کا شاخسانہ قرار دے سکتا ہوں کہ میں اتنا اہم نام بھول گیا۔ اس پر میں محترمہ اور قارئین سے معذرت طلب کرتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں