کراچی کی دہشت ناک کہانیاں

حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں وہ شمالی وزیرستان میں اپنے محل نما ٹھکانے پر تھا۔ کسی نے اس بات پر غور نہیںکیا کہ اس محل کی تعمیر کے لیے مالی وسائل کہاں سے فراہم ہوئے، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ رقم کراچی سے آئی ہو گی۔ کئی برسوں سے یہ شہر طالبان کے لیے ایک بہت بڑا ''اے ٹی ایم‘‘ بن چکا ہے؛ تاہم اس اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کے لیے وہ پلاسٹک کے کارڈز کی بجائے کلاشنکوف استعمال کرتے ہیں۔
یہ بات صرف طالبان تک محدود نہیں بلکہ کئی سیاسی جماعتیں بھی جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرتی ہیں۔ مجرموں کے ان گروہوں نے شہر پر اپنے پنجے اس طرح گاڑ رکھے ہیں جیسے کئی خون آشام جونکیں کسی جانور کے جسم سے چمٹ کر اس کا خون چوس رہی ہوں۔ ان میں سے ہر کسی کے ہاتھ پر اپنا لہو دیکھ کر کراچی کے شہری مستقبل بنیادوں پر خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا شخص باقی ہو جو کسی نہ کسی جرم کا شکار نہ ہوا ہو۔ یہاں پر لوگ بہت سے طریقے استعمال کرتے ہوئے لٹنے سے بچنے یا پھر اپنا نقصان کم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ یہاں ''جان و مال‘‘ کا مالک ہونے کا مطلب مستقل خطرے کی زد میں ہونا ہے۔ بہت سے لوگ گھر سے باہر نکلتے ہوئے دو پرس اور دو موبائل فون اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک موبائل فون سستا ہوتا ہے جبکہ ایک پرس میں پیسے بھی کم ہوتے ہیں اور عقلمند شہری پستول کنپٹی کے ساتھ لگتے ہی باقی جسم کو غیرضروری حرکت، جو نہایت مہنگی پڑ سکتی ہے، سے بچاتے ہوئے ہاتھ کی ادنیٰ سی جنبش سے یہ چیزیں لوٹنے والے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ میں بھی گھر سے نکلتے ہوئے اپنے کریڈٹ کارڈز گھر میں ہی چھوڑ جاتا ہوںکیونکہ اے ٹی ایم کے حوالے سے کراچی میں بہت سی خوفناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ لوگوں کو گن پوائنٹ پر مختلف اے ٹی ایم پر لے جاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ رقم لوٹ لی جاتی ہے۔ 
ان اچانک لٹ جانے کی وارداتوںکے علاوہ شہریوں کو منظم جرائم، جیسا کہ بھتہ خوری، سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ بہت سے امیر اور کاروباری افراد کو ماہانہ بنیادوں پر طے شدہ رقم دے کر اپنی جان بچانی پڑتی ہے۔ ایک شام جب میں کچھ پھول خریدنے کے لیے پھولوںکی ایک مقامی دکان پر رکا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ بھتہ مافیا کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پھولوں کی دکان گلی کے ایک کونے میں ایک لکڑی کے پھٹے (تختے) پر قائم کی گئی ہے اور یہ ایسا کاروبار نہیں ہے جو جرائم پیشہ افراد کی نظر میں آسکے، لیکن گل فروش کا کہنا تھا کہ اُسے بھی ہر روز ایک سو روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرب و جوار کے دکانداروں سے بھی رقم وصول کی جاتی تھی۔ 
شہر میں ایک منظم جرم اغوا برائے تاوان ہے اور یہ انتہا ئی ''کامیاب‘‘ جا رہا ہے۔ حال ہی میں کراچی کے ایک صنعتکار کو اُس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ اور اُس کا ڈرائیور فیکٹری سے واپس آرہے تھے۔ اسلحہ بردار اغواکاروں نے اُنہیں گن پوائنٹ پر کار سے اتار کر پک اپ میں بٹھایا اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ چند دنوںکے بعد ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا۔ ا س کے بعد صنعت کار، جو اپنا نام ظاہر نہیںکرنا چاہتا ہے، کو ایک بوری میں بند کر دیا گیا۔ وہ بتاتا ہے کہ اُسے تین دن اور تین راتوں تک ''سفر‘‘ میں رہنا پڑا۔ اس دوران وہ دیکھ تو نہیں سکتا تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ کبھی اُن کی گاڑی پکی سڑکوں پر چل رہی ہے اور کبھی کچے راستے پر۔ اس طویل سفر کے دوران کسی چیک پوائنٹ پر گاڑی کو نہ روکا گیا اور نہ کسی نے چیک کیا۔ جب اُسے تھیلے سے باہر نکالا گیا تو علم ہوا کہ وہ افغان علاقے میں ہے۔ اُسے وہاں ایک ماہ تک زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا۔ اس دوران وہاں متعین گارڈ اُسے زدوکوب بھی کرتے رہے۔ یہ سلوک کئی ہفتوں تک جاری رہا یہاں تک کہ اغواکاروں نے تاوان کے لیے ''مذاکرات‘‘ شروع کر دیے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر وہ تاوان کی رقم ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن قیاس ہے کہ یہ رقم کئی کروڑ روپے ہو گی۔ اس کے بعد اُسے ایک گاڑی میں بٹھا کر کہیں اور لے جایا گیا۔ کچھ فاصلہ پیدل بھی طے کرنا پڑا۔ یہاں اس کے اغوا کاروں نے کراچی نمبر ملا کر اُس کی بیوی سے بات کرائی کہ وہ کتنی رقم کا انتظام کرے اور یہ بھی طے کیا گیا کہ رقم کہاں پہنچانی ہے۔ فون کرنے کے بعد وہ موبائل فون توڑ دیا گیا۔ یقیناً یہ اغواکار طالبان تھے اور اُنہیں جس واحد چیز سے خطرہ تھا وہ امریکی ڈرون تھے۔ اس کے بعد رقم ادا کی گئی اور وہ تاجر کراچی پہنچ گیا۔ اسے افغانستان سے لایا گیا۔ ایک مرتبہ پھر گاڑی کو کہیں بھی چیک نہ کیا گیا۔ اُسے کراچی سے کچھ دور اُتار دیا گیا جہاں سے وہ گھر جا سکتا تھا۔ یقیناً طالبان چاہتے تھے کہ تاوان ادا کرنے کے بعد اُن کا شکار بحفاظت گھر پہنچ جائے تاکہ دوسروںکے لیے ایک ''روشن مثال‘‘ قائم کی جا سکے۔ 
کراچی میں ہونے والی تشدد کی لہر کے حوالے سے میں نے سندھ حکومت کے ایک سینئر پولیس افسر سے بات کی کہ کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ تو اُس نے کہا کہ تین شرائط پوری کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت بند کر دی جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی سیاست دان کسی پولیس افسر سے ناراض ہوتا ہے یا اُس کی منشا پوری نہ کی جائے تو وہ اُس پولیس افسر کا تبادلہ کرا دیتا ہے۔ میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے پولیس میں ملازمت بھی من پسند افراد کو دی جاتی ہے۔ چند سال پہلے مجھے کراچی کے ایک پولیس اسٹیشن میں کیس درج کرانے کی ضرورت پیش آئی تو مجھے پتہ چلا کہ بہت سے افسران کے چارج ملنے کے تین ماہ کے اندر اندر تبادلے کر دیے گئے ہیں۔ یہ رجحان ختم ہونا چاہیے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوںکے دوران پولیس کے پانچ ہزار سپاہیوںکو محض سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر یا رشوت دینے پر بھرتی کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر افراد نااہل تھے لیکن پیسے دے کر یا سیاسی تعلقات کی وجہ سے اُنہیں ملازمت مل گئی تھی۔ ملازمت کے اصول و ضوابط کے مطابق اب اُنہیں آسانی سے نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ پولیس کو جرائم کی بیخ کنی کے لیے عدلیہ کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت بہت سے مجرم یا تو ضمانت پر رہا ہیں یا پھر اُنہیں ناکافی ثبوت کی بنا پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اُن میں سے بہت سوں کو دیگر جرائم میں پھر گرفتارکیا گیا لیکن کئی سالوں تک کیسز کا فیصلہ ہی نہیں ہو سکا۔ ان کے خلاف کوئی گواہ پیش نہیں ہوتا‘ اس لیے کئی سالوں تک بے مقصد سماعتیں ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ رہا ہو جاتے ہیں۔ 
ان مسائل کے ہوتے ہوئے کراچی پولیس جرائم کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ عام طور پر ہم پولیس کو نااہل ہونے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیںکہ اُنہیںکن حالات میںکام کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے مجرموں کی سرکوبی کرنی ہے تو پولیس اور عدلیہ کے علاوہ سیاست دانوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی طرح ہم کراچی کو ایک محفوظ شہر بنا سکتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں